ایک حقیقت

یہ تحریر ایک ذاتی تجربےکی بناء پر لکھی گئی ہے کہ انسان کو نسفیاتی مریض ا سکےبآس پاس کا ماحول بناتا ہے

زندگی بہت عجیب ہے۔ اتنی عجیب کہ اگر ہم اس کے متعلق کچھ سوچنے بیٹھ جائیں تو پل بھر کے غور و فکر پر یہ ہمیں اپنی پیچیدگیوں میں گم کر دیتی ہے۔

زندگی کے اِس مختصر سفر کو، اس دھوکے کے گھر کو سجانے اور سنوارنے میں ہم بہت کچھ بُھول جاتے ہیں
ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارا مقصد حیات کیا ہے؟
ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمیں اشرف المخلوقات بنا کر اس زمین پر کیوں بھیجا گیا؟ کیا اس لئے کہ ہم صراطِ مستقیم سے ہٹ کر صراطِ جہیم والی زندگی گزارنے لگ جائیں؟
یا ہمیں اس لئے بھیجا گیا ہے کہ ہم زندگی کے اِس مختصر سے سفر کو اور اِس دھوکے کے گھر کو سجاتے اور سنوارتے رہیں؟ جبکہ ہم اچھے سے جانتے ہیں کہ یہ دنیا مستقل رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ یہ عارضی زندگی ہے، یہ فانی دنیا ہے۔
اور قرآن پاک میں بھی واضح ارشاد ہے کہ

"اور دنیا کی زندگی سواۓ دھوکے کے اسباب کے اور کیا ہے۔"

ہم کدھر جا رہے ہیں؟ ہمارا مقصد حیات کیا ہے؟
کیا اِس فانی دنیا کے پیچھے ہر وقت لگے رہنا یہی زندگی ہے؟ کیا یہی مقصد حیات ہے ہمارا؟
ہر وقت اپنی فکر میں لگے رہنا، دوسروں کا پیٹ کاٹ کر اپنے پیٹ کی فکر میں لگے رہنا۔ اپنے مال و متاع کی فکر میں لگے رہنا۔ اپنا بینک بیلنس اور سٹیٹس بناتے رہنا۔ کیا یہی زندگی ہے؟ کیا یہی ہمارا مقصد حیات ہے؟ اگر یہی زندگی اور یہی ہمارا مقصد حیات ہے، تو پھر اُن لوگوں کا حق ادا کون کرے گا؟ جو در بدر بھٹک رہے ہیں، اپنے پیٹ کی خاطر اور اپنے بچوں کے پیٹ کی خاطر..
ان ناداروں، مفلسوں اور غریبوں کی مدد کون کرے گا؟ اگر ہم یوں ہی اپنے مال و متاع کی فکر میں لگے رہیں گے، اگر ہم یوں ہی اپنی جمع پُونجی کو بڑھانے کی ہوس میں لگے رہیں گے تو...

آج اگر ہم ایک نظر معاشرے پر دوڑائیں تو معاشرہ خود ہم سے سوال کرتا ہے۔
کیا ہم اپنی بھوک اور اپنی ہوس کے پیچھے اتنے اندھے اور لاپرواہ نہیں ہو گئے ہیں؟ کہ ہمیں اپنے سِوا معاشرے میں کچھ اور نظر ہی نہیں آ رہا... کیا ہمیں معاشرے ہماری مائیں، بہنیں اور بوڑھے بزرگ در بدر بھٹکتے نظر نہیں آ رہے؟
یہ سب ہماری اپنی بے اعتنائی اور عدم توجہی کا شکار ہیں معاشرے میں۔
کیا ہم سب معاشرے کا حصہ نہیں ہیں؟ کیا ہم پر اِن غریبوں اور مسکینوں کے کچھ حقوق نہیں ہیں؟
ہم سب معاشرے کا حصہ ہیں۔ ہم سب ایک معاشرے سے ہیں۔ معاشرہ خود ہم سے ہے۔ اِن غریبوں، یتیموں اور مسکینوں کے ہم پر بہت سے حقوق ہیں۔ فقط اپنی دنیا کو بنانے اور سنوارنے میں ہم اِن غریبوں کو بھول جاتے ہیں۔ جو کہ کل بروز حشر ہماری ہی بخشش کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
ہم اِس بے وفا اور بے مروت دنیا میں اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ ہمیں آس پاس کچھ بھی نظر نہیں آ رہا۔ یا یہ کہ سب کچھ دیکھ لینے کے باوجود بھی ہم اس قدر انجان بنتے ہیں جیسے ہم نے کچھ دیکھا ہی نہیں۔ ہم ہر روز نہ جانے کتنے غریبوں اور بے کسوں کو دیکھتے ہیں۔ کتنے یتیم بچے ہمارے آگے ہاتھ پھیلا کر اپنی ترسی ہوئی آنکھوں سے سوال کرتے ہیں۔ یہ سب دیکھنے کے باوجود بھی کیوں ہم منہ پھیر دیتے ہیں؟ کیوں ہم سائلین کے سوالوں کو پورا نہیں کرتے؟
اِن ناداروں اور بے کسوں سے منہ پھیر کر، حقوق العباد کو پورا کئے بغیر ہم بڑے طلبگار ہیں جنت میں جانے کے... واہ رے انسان... معاف کیجئے گا بات تھوڑی تلخ سہی مگر حقیقت ہے۔

ہزاروں، لاکھوں مائیں، بہنیں در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں..
ہماری یہ مائیں، بہنیں کیوں در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں؟ کیا کسی شوق سے؟
نہیں! ہرگز نہیں...
ایسا کبھی ہو نہیں سکتا کہ کسی کے گھر میں اتنا کچھ میسر ہو، جس سے اُس کا تھوڑا بہت گزارا ہوتا ہو اور وہ پھر بھی دنیا کی ذلتیں سہتا رہے۔ اور دنیا بھر کی ٹھوکریں کھاتا رہے۔

شدتِ حالات، بے بسی، تنگ دستی اور پیٹ کی بھوک، اپنے پیٹ کی بھوک اور اپنے بچوں کے پیٹ کی بھوک انسان کو دنیا بھر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیتی ہے۔

کہتے ہیں نا! کہ بھوک جب دروازے پر دستک دیتی ہے، تو عقیدے کھڑکیوں سے بھاگ جاتے ہیں...

مَیں نے اکثر اپنے آس پاس اور اپنے ماحول میں دیکھا اور سنا ہے، کہ جب کبھی کوئی سائل یا فقیر ہم سے سوال کرتا ہے، تو ہمارے معاشرے کے بیشتر افراد منہ پھیر لیتے ہیں۔ یا یہ کہہ کر اُسے ٹال دیتے ہیں: کہ جی معاف کرو۔

کیوں؟ یہ ایسا کیوں؟ کیا ہماری مالی حالت اتنی بھی ٹھیک نہیں کہ ہم اِن غریبوں کی زیادہ نہ سہی تھوڑی ہی مدد کردیں...؟ ہونا تو یہ چاہیئے کہ اِن غریبوں، یتیموں اور بے کسوں کو دیکھ کر، اِن کی سوالی آنکھوں کو دیکھ کر ہمارا کلیجہ اندر سے ہل جاۓ۔ نہ کہ ہم انہیں ذلیل و رسوا کریں۔
خدارا ! کبھی کسی کی عزت نفس کو مجروح نہ کریں۔ کبھی کسی کو اتنا ذلیل و رسوا نہ کریں کہ اُس کا معاملہ خدا تک جا پہنچے۔ ایسے لوگوں کی آہ ساتوں آسمانوں کو چیر کر خدا تک پہنچتی ہے۔

آج بروز جمعرات 4 نومبر 2021 کو مَیں اپنے دفتر میں بیٹھا کچھ دفتری کام میں مصروف تھا کہ اچانک ایک خاتون میرے دفتر میں داخل ہوئی جو کہ نقاب میں تھی۔ اور اُس نے ہاتھ اُٹھا کر فریاد کی۔ بیٹا اللہ کے نام پر میری کچھ مدد کرو۔ وہ خاتون میری ماں کی عمر کی تھی۔ جب اُس نے ہاتھ اُٹھا کر فریاد کی کہ بیٹا اللہ کے نام پر میری کچھ مدد کرو، تو مجھ سے جتنا ہو سکا مَیں نے اس کی مدد کی۔
میری جیب میں کچھ کُھلی رقم تھی جو مَیں نے اُس خاتون کو دے رخصت کر دیا..

اُسکے جانے کے بعد اللہ جانے میری طبیعت کو کیا ہوا۔ ایسا لگا جیسے میرے اوپر کوئی پہاڑ ٹوٹ گیا ہو..
جیسے میرا کلیجہ پھٹ گیا اندر سے.... میرے اندر کی دنیا ہل گئی۔ میری آنکھوں کے بند ٹوٹ گئے اور میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ہوا۔

کاش! مَیں اِس سے بڑھ کر اُس کی مدد کر سکتا
کاش! مَیں مزید اُسے کچھ دے سکتا...

ہم انسان بڑے ناشکرے ہوتے ہیں

خدارا ! ہو سکے تو ایسے لوگوں کی بھر پور مدد کیا کریں۔ کہ جن کے صرف ہاتھ ہی نہیں بلکہ آنکھیں بھی سوال کرتی ہیں...

والسلام..

تحرير۔ نویــــــد جمال
 

Naveed Jamal
About the Author: Naveed Jamal Read More Articles by Naveed Jamal: 2 Articles with 1283 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.