ہر قوم اپنا مخصوص کلچر اور تہذیب رکھتی ہے۔ہر قوم کی
رسومات اورعا دات و خصائل بالکل علیحدہ ہوتے ہیں جو کہ ان کی بودو باش اور
رہن سہن میں انھیں سہولیات دیتے ہیں۔دنیا اگر چہ گلوبل ویلج کا روپ دھار
چکی ہے لیکن اس کے باوجود ہر ویلج کو اپنی ثقافت اور کلچر عزیز ہے جسے وہ
بڑے فخر سے گلے لگائے ہوئے ہے۔ گویا کہ کلچر ان کی روح میں سمایا ہو اہوتا
ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی قوم اس جدید دور میں بھی اپنی قدیم پہچان کو ترک
کرنے پر آمادہ نہیں ہے ۔ کچھ رسومات تو اس ترقی یافتہ دور میں جہالت کی
نشانیاں سمجھی جاتی ہیں لیکن کلچر کا لاحقہ انھیں متروک ہوجانے سے بچائے
رکھتا ہے ۔تعلیم یافتہ طبقہ علم سے بہرہ ور ہونے کے باوجود بھی ان رسومات
سے جان نہیں چھڑا سکتا کیونکہ اکثریت اپنی کم علمی کی وجہ سے ان سے چمٹی
رہنا چاہتی ہے اورصاحبِ علم شخص بھی کم علموں کی پیروی پر مجبورہو جاتا
کیونکہ یہ جمہور کی منشاء ہوتی ہے۔بہر حال اسلام کی آمد کے ساتھ ہی ایک نئے
ریاستی ڈھانچے اور اسلامی قوانین کے نفاذ سے امتِ مسلمہ دوسری اقوام سے
بالکل جد ااور منفرد ہو گئی ۔بقولِ اقبال (اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے
نہ کر ۔،۔خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی)۔ برِ صغیر پا ک و ہند جس میں
اصنام پرستی اور بت پرستی کا دور دورہ تھا اس میں اسلامی کلچر کو پروان
چڑھانا انتہائی دشوار گزار مرحلہ تھا لیکن اہلِ حق کی طویل جدو جہد،اسلام
کے آفاقی اصولوں اور صبر آزما مراحل کے بعد ایسا ممکن ہو سکا جس کی وجہ سے
آج برِ صغیر پا ک وہند میں مسلمانوں کا اپنا کلچر اور رسومات ہیں جو کہ
یہاں کے ہندوترا کی رسومات اور کلچر سے بالکل مختلف ہیں ۔ اسلامی ایام پر
تقریبات بعض اوقات ہندوؤں کو سیخ پا بھی کر دیتی ہیں ۔ گا ئے کی قربانی اس
میں سرِ فہرست ہے کیونکہ مسلمانوں کیلئے گائے کی قربانی فرض قرار دے دی گئی
ہے جبکہ ہندوترا اسے گاؤ ماتا کا قتل قرار دے کر اس کی ممانعت کرتا ہے ۔
ہندوستان میں ہر سال بے شمار بلوے،ہنگامے اور قتل گائے کی قربانی پر ہوتے
رہتے ہیں لیکن دونوں جانب سے کسی بھی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں ہو تا جس
سے تناؤ میں کمی نہیں آ تی ۔ مسلمانوں کیلئے اپنے دینی فریضہ سے منہ موڑنا
ممکن نہیں جبکہ ہندوترا کے پجار یوں کیلئے اپنی آنکھوں کے سامنے گاؤ ماتا
کی قربانی کا منظر دیکھنا ممکن نہیں۔میں نے اپنی بات سمجھانے کیلئے ایک
مثال پیش کی ہے جبکہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں اسی طرح کی مخاصمت دیکھی جا
سکتی ہے۔مثلا اسلام میں پردے کا حکم ہے جبکہ دوسرے مذاہب کیلئے پردہ بالکل
غیر اہم سی بات ہے ۔ان کے ہاں عورت کا بن ٹھن کے نکلنا ، میک اپ سے
سجنا،بناؤ سنگھار کرنا اور شمع محفل بن کر رہنا ان کے کلچر کا حصہ ہے۔وہ
اسے تہذیب زدہ ہونے کا استعارہ سمجھتے ہیں لہذا انھیں عورت کا کھلا ڈھلا
پن،بے پردگی اور اختلاطِ مردو زن میں لطف آتا ہے جبکہ اسلام میں اس کی سخت
ممانعت ہے۔ہو سکتا ہے کہ کچھ ترقی پسند،لبرل اور آزاد منش دانشور مجھ پر
رجعت پسندی اور دقیانوسی ہونے کا کا لیبل لگا کر میرے افکارو نظریات پر
تنقید کردیں لیکن جو بات سچ ہے اسے اپنی پوری روح کے ساتھ بیان ہونا چائیے
تا کہ سب کو علم ہو جائے کہ سچ اور جھوٹ کیا ہوتا ہے؟۔اقبال کی جرات ِ
اظہار کا اندازہ کیجئے کہ وہ کس طرح سب کا للکارتا ہے۔،۔
(کہتا ہوں وہی سمجھتا ہوں جسے حق ۔،۔ نہ آبلہ ِ مسجد ہوں نہ ہوں تہذیب کا
فرزند)۔۔(اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش ۔،۔ میں زہرِ ہلاہل کو
کبھی کہہ نہ سکا کند)
اسلام کی آمد سے پہلے سر زمینِ حجاز میں جو کچھ بھی رائج تھا اسے ایک جھٹکے
کے ساتھ زمین بوس کر دیا گیا ۔ ایسی تمام رسمیں جو مشرکانہ، جاہلانہ اور
گھٹیا طرزِ فکر کی عکاس تھیں انھیں بیک جنبشِ قلم ساقط کر دیا گیا۔ایک
پاکیزہ اور مقدس ماحول میں گندگی اور غلاظت کا کیا کام؟اسلام میں عورت کو
ایک خاص مقام عطا کیا گیا اوراس کی عصمت و عفت کو بڑی اہمیت دی گئی۔اسے
پہلی بار وراثت کا حقدار قرار دیا گیا۔اسے ممتا جیسے اعزاز سے سرفراز کر کے
اس کی توقیر کو وسعتِ افلاک بخش دی گئی حتی کہ مالکِ کائنات نے خود کو ماں
سے تشبیہ دے کر ممتا کے رتبہ کو اوجِ ثریا سے ہمکنار کر دیا۔عورت کی حیاء
اوراس کی پاکیزگی اور اس کے تقدس کیلئے خصوصی قوانین متعارف کروائے گے تا
کہ صنفِ نازک کی جانب کوئی ہوس پرستانہ نظر نہ اٹھا سکے ۔مردوں کو سب سے
پہلے تنبیہ کی گئی کہ عورت کی موجودگی میں وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں
جبکہ عورتوں کو پردہ کا پابند کیا گیاتا کہ عورت محفوظ و ماموں ہو
جائے۔یورپی اقوام پردے کے سخت مخالف ہیں لیکن اس کی کوئی بھی توجیہ پیش
کرنے سے قاصر ہیں۔پردہ عورت کا حسن اور زیور ہے جسے یورپ در خورِ اعتنا
نہیں سمجھ رہا ۔ ارشادِ خداوندی ہے ( مسلمان خواتین جب باہر نکلیں تو جلباب
پہن کرنکلیں تا کہ پہچانی جائیں ) گویا کہ پردہ عورت کی پہچان ہے لیکن یورپ
کو اس پہچان سے خدا واسطے کا بیر ہے۔زمانہِ جاہلیت میں مرد ان گنت شادیاں
رچاتا تھا لیکن اﷲ تعالی نے اسے چار تک محدود کر دیا۔چار کا حکم جنگی حالات
میں عورتوں کے تنہا رہ جانے ،بیوہ ہو جانے اور بچوں کے داغِ یتیمی کو مٹانے
اور ان کی کفالت اور سرپرستی کو سامنے رکھتے ہوئے جاری کیا گیا ۔ اس خدائی
حکم کا مقصد دل بہلانا یا حظوظِ نفس کی تسکین نہیں تھابلکہ معاشرتی
ناہمواریوں اور محرومیوں کا ازالہ کرنا تھا۔چار شادییوں کا حکم اہلِ عرب کے
مزاج سے بالکل مطابقت نہیں رکھتاتھا کیونکہ عورتوں سے دل بہلانا اہلِ عربوں
کا مرغوب مشغلہ تھا لیکن مالکِ کون و مکاں کے حکم کے سامنے کسی کو دم مارنے
کی جا نہیں تھی لہذا سب کو کو سر نگوں ہو نا پڑا۔،۔
اسلام کاسب سے عظیم احسان یہ ہے کہ اس نے رشتوں میں محرم کا تصور دیا اور
وہ تمام رشتے جو محرم ہیں ان کی فہرست جاری کر دی تا کہ عورت محفوظ ہو
جائے۔دیکھنے میں شائد یہ چھوٹی سی بات نظر آئے لیکن معاشرے کا قبلہ درست
کرنے میں یہ کلیدی حیثیت کی حامل ہے ۔عورت کو کھلے سینے اور کھلے سر کے
ساتھ ملنے کی سخت ممانعت ہے۔تہذیب تمدن کے نقطہ نظر سے بھی بے پردہ عورت
عجیب لگتی ہے حالانکہ پردہ عورت میں شائستگی،وقار اور حیاء کو جلا بخشتا
ہے۔اﷲ تعالی نے محرم رشتوں کے سامنے بھی با پردہ رہنے کا حکم صادر کیا ہوا
ہے۔عورت کو بناؤ سنگھار کرنے کی اجازت ہے ۔ارشادِ خدا وندی ہے (کون ہے جو
زیب و زینت سے روکتا ہے ) لیکن مردوں کی محفل میں ایسا کر کے جانے کی
ممانعت ہے اور پھر زیب و زینت کی حد بندی بھی خود ہی کر دی۔تعلیم کے سلسلہ
میں مکمل آزادی ہے کیونکہ اگر خاتون تعلیم یافتہ ہو گی تو معاشرہ سے جہالت
کم ہو تی جائے گی۔نوکری پر کوئی پابندی نہیں ہے،کام کاج پر کوئی پابندی
نہیں ہے بلکہ عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کرے گی تو ماحول میں شائستگی اور
تقدس کا احساس پیدا ہو گا لیکن اس کیلئے حجاب میں ہونا ضروری ہے ۔محترمہ
فاطمہ جناح،رعنا بیگم لیاقت علی اپنے سر سے آنچل کو سرکنے نہیں دیتی
تھیں۔فاظمہ جناح تو دوپٹہ اوڑھے ہوئے انتہائی معصوم،سادہ اور دلکش نظر آتی
تھیں۔تحریکِ پاکستان کی قیادت میں مادرِ ملت کا دوپٹہ تو آڑھے نہیں آیا تھا
لیکن لبرل خواتین دوپٹہ کی دشمن کیوں بنی ہو ئی ہیں اور اسے اپنی ترقی کی
راہ میں رکاوٹ کیوں سمجھتی ہیں؟ سابق وزیرِ اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو ہمیشہ
سفید دوپٹہ پہن کر رکھتی تھیں اور انتہائی با وقا، پر کشش اور دلکش نظر آتی
تھیں۔ان کی شخصیت کے سحر میں ان کے دوپٹے کو اہم مقام حا صل تھا۔وہ اپنے
مشرقی پن کی وجہ سے ایک مثال تھیں۔پوری دنیا ان کے اس انداز کی قدر دان
تھیں۔کیا پاکستان میں بھی کسی عورت کی ان سے زیادہ جدہ جہد ہے؟ کیا کسی
عورت نے ان سے زیادہ ظلم سہا ہے؟ کیا کوئی عورت ان سے بڑے رتبے پر فائز رہی
ہے؟اگر وہ پردہ کی پابند تھیں تو دوسری عورتیں بھی ایسا کر سکتی ہیں۔سچ تو
یہ ہے کہ مغربی کلچر اور اس کی آزاد خیالی کا اسلام سے کوئی تعلق واسطہ
نہیں ہے۔یہ یورپ کا اپنا اندازِزیست ہے جو اسلام کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا
لہذا مسلمانوں کیلئے اسے اپنا نا ضروری نہیں ۔ علامہ اقبال نے اس طرزِ زیست
کو رد کر دیا تھا کیونکہ وہ عورت کے حقیقی مقام سے آگاہ تھے۔( نظر کو خیرہ
کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی۔،۔یہ صنا عی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے )
۔،۔ |