ذکرِ یاراں

 زندگی میں رشتوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ ہر رشتہ اپنی جگہ انمول ہوتا ہے اور اپنی اہمیت رکھتا ہے مگر ان رشتوں میں ایک رشتہ ایسا ہے جس میں ہمیں ’’زندگی ‘‘ مِلا کرتی ہے اور وہ رشتہ ہے ’دوستی ‘ کا ۔۔۔اچھے اور مخلص دوست کسی خزانے سے کم نہیں ہو تے جو بغیر کسی غرض اور فائدے کے ہمارے ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ نے مجھے کئی مخلص دوستوں سے نوازا ہے مگر اس وقت میں پشاور میں موجود چند دوستوں کا ذکر کروں گا ،جنہیں اﷲ تعالیٰ نے نیک دلی،فراخ دلی کے علاوہ بہت ساری نعمتوں سے نوازاہے۔۔۔

جسٹس (ر) شاہ جی رحمٰن۔گورنمنٹ ہائی سکول صابر آباد(کرک) میں جب میں نویں جماعت کا طا لبعلم تھا تو ایک لڑکا ملیشیا کے استری کپڑے پہن کر (اس زمانے میں استری کپڑے پہننا بڑی بات تھی ) سکول آیا کرتا تھا ۔مگر مختصر عرصہ کے بعد وہ کہیں اور چلا گیا ۔

زندگی کا پہیہ چلتا رہا اورایک دن ہم نے سنا کہ مخ بانڈہ (میرے گاؤں کا قریب ترین گاؤں ) کا ایک جوان جج بن گیا ہے ۔ اس زمانے میں جج بننا بہت زیادہ اعزاز کی بات تھی ۔ وقت گزرتے دیر نہیں لگتی،ہمارے بالوں میں سفیدی آگئی ۔کالم آرائی کے شوق نے ہمیں ((مشرق )) اخبار سے منسلک کردیا اور بعد ازیں فری لانس کالم نویس کی حیثّیت سے مختلف قومی اور بین الاقوامی اخبارات میں کالم کی صورت میں دل کی بھڑاس نکالتے رہے ۔ سوشل میڈیا کا دور چلا تو ایک روز ہمیں ’’ شاہ جی رحمٰن ‘‘ نام کی ایک شخص کی طرف سے لنچ کی دعوت مِلی ( غالبا وہ میرے کالموں سے متائثر ہوئے تھے ) میں نے لنچ کی بجائے چائے ایک ساتھ پینے کا وعدہ کر لیا ۔ وقتِ مقررہ پر میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچا تو انہوں نے بڑے گرم جوشی سے استقبال کیا ۔ یہ تھے جسٹس (ر) شاہ جی رحمٰن صاحب ۔۔ جس کے بارے میں ہم نے سن رکھا تھا کہ بحیثیتِ جج فیصلہ کرنے میں دنیا کی کو ئی لالچ یا سفارش ان کو راہِ راست سے بھٹکا نہیں سکتی ۔ان کا ہر فیصلہ قانون کے مطابق ہوتا ہے ، ایسے شخص سے ملنا میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہ تھا ۔ جج صاحب میں ایک خداداد صلاحیت یہ بھی ہے کہ کہ وہ پہلی ملاقات میں اپنے ملنے والوں کے دل میں جا گزیں ہوتے ہیں ۔دل تک پہنچنے کے لئے وہ کس روٹ کا انتخاب کرتے ہیں ،پتہ ہی نہیں چلتا ۔چپکے سے دل کے اندر داخل ہو جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کا حلقہ احباب پھولوں کا ایک گلدستہ ہے جس میں مختلف مزاج و طبیعت کے لوگ موجود ہیں ۔ دوستوں کو ایک جگہ پر اکھٹا کرنے اور محفل جمانے میں ان کو یدِ طولیٰ حاصل ہے ۔فاصلہ ان کے پاس شاید ہے ہی نہیں، قربت ہی قربت ہے اور قربت بھی ایسی جو قرابت سے بھی زیادہ مضبوط اور مستحکم ہو ۔مجھے بھی ان کی بدولت ان کے دوستوں سے بہت کچھ سیکھنے کو مِلا ۔یوں تو یہ دور ایک دوسرے کو رّد کرنے کا ہے ۔یہ صدی جو انتشار کی صدی ہے اس میں اگر اتفاق سے مجھے دو چار آدمیوں کی محبت میسر آئی ہے تو میں ایسا بیوقوف کیوں بنوں گا کہ اس محبت کو کھو دونگا ۔ اگر شاہ جی رحمن کی طرح مجھے ڈاکٹر عباس خٹک جیسا صاف گو، صاف دل ،دوستوں کا دوست دشمنوں کا دشمن جیسے شخص سے مجھے پیار ہے ۔اگر سابق وائس چانسلر ابراہیم خٹک مجھے اچھا لگتا ہے اگر غنی الرحمن کے لئے میرے دل میں اچھے جذبات ہیں ۔اگر حاجی حبیب اﷲ میں مجھے قربت کا احساس ملتا ہے ۔تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں ، یہ تو اندر کی بات ہے ۔اور بھی کچھ لوگ ہیں جن سے میں پیار کرتا ہوں مگر فہرست طویل ہو جائے گی ۔۔۔۔ہاں تو بات میں شاہ جی رحمن کا کر رہا تھا ۔ یہ چار پانچ سالوں میں میں نے جس طرح جج صاحب کو پایا ۔اس کا پورا ذکر کرنا خطرے سے خالی نہیں ، کیونکہ اس ذکر سے اپنی سبکی ہوتی ہے مثلا ان کے ساتھ رہنے اور گھومنے میں طرح طرح کے ذائقوں اور کام و دہن کے مزوں سے تولطف اندوز ہوتا ہوں مگر وہاں اس نقصان سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے کہ ہر ملاقاتی جج صاحب کو رشکِ نظر سے دیکھتا ہے ۔لیکن ہم اس نقصان کو برداشت کرنے پر راضی ہیں کیونکہ اس نقصان کے ساتھ ساتھ فائدے بھی ضرور ہیں ۔جج صاحب کے ساتھ گھومنے سے نہ صرف یہ کہ حلقہ احباب وسیع ہوتا ہے بلکہ جج صاحب ہر قدم پر سوچے گا کہ اپنے ہمدوش کے لئے وہ کیا کچھ کر سکتا ہے ۔کیونکہ یہ ان کی خوبی نہیں ،سرشت ہے ۔دوستوں کے لئے اچھی باتیں سوچنا ،شعوری کوشش نہیں ، بلکہ ان کی خون میں رچی بسی سچائی ہے ۔متذکرہ میرے باقی دوست سوچیں گے کہ دیکھیں روشن ہمارے کردار پر کیا روشنی ڈالتا ہے مگر کیا کروں کہ کالم ہذا کا دامن اتنا وسیع نہیں کہ اپنے تمام دوستوں کا یہاں ذکر کرتا چلوں ۔مگر تسلی رکھیں، یار زندہ ،صحبت باقی۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الراقم: روشن خٹک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315723 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More