نشان حیدر کیپٹن سرور شہید کی داستان شجاعت
(Rana Aijaz Hussain, Multan)
لہو سے وطن کی آبیاری کرتے ہوئے، ازلی دشمن بھارت
کی فوج پراپنی شجاعت و بہادری کی دھاک بٹھاکر شہید ہو نے والے اور پاکستان
کا پہلا اور سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر پانے والے پاک فوج کے جانباز
ہیرو کیپٹن محمد سرور شہید 10نومبر1910ء کو راولپنڈی کے علاقہ گوجر خان کے
ایک راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے۔ کیپٹن محمد سرور شہید کا تقریباً سارا
گھرانہ مذہبی اور دین دار تھا ، ابتدائی تعلیم ضلع فیصل آباد کے گورنمنٹ
مسلم ہائی اسکول طارق آباد سے حاصل کی۔ 1929 ء میں بلوچ رجمنٹ میں ایک
سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہوئے اور اپنا پہلا فوجی کورس مکمل کرنے اولڈ بلوچ
سنٹر کراچی روانہ ہوگئے، جہاں وہ 2 سال تک مغربی سرحدی صوبے میں اپنی پیشہ
وارانہ خدمات سر انجام دیتے رہے۔1941 ء میں حوالدار بن گئے اور اس کے ساتھ
ساتھ انہوں نے ڈرائیونگ کا کورس کا بھی مکمل کرلیا ۔ 1942ء میں ہنگامی
کمیشن کے لئے ان کا چناؤ کیا گیا۔ ٹریننگ کورس کے بعد ’’انڈین ملٹری اکیڈمی
ڈیرہ دون‘‘ سے مورخہ 19 مارچ 1944 ء کو سیکنڈ لیفٹیننٹ ہوکر نکلے، اور
مورخہ 27 اپریل 1944 ء کو لیفٹیننٹ بنادیئے گئے۔ 1945ء میں جب دوسری جنگ
عظیم کا خاتمہ ہوا تو 1946 ء تک کیپٹن سرور شہید پنجاب رجمنٹ میں متعین رہے
اور پھر 1946 ء میں ان کو پنجاب رجمنٹ سیکنڈ میں بھیج دیا گیا۔اور اس کے
بعد شاندار فوجی خدمات کے پیش نظر 1946ء میں انہیں مستقل طور پر کیپٹن کے
عہدے پر ترقی دے دی گئی، اور1947 ء میں قیام پاکستان کے بعد کیپٹن محمد
سرور شہید نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔1948ء میں جب وہ پنجاب رجمنٹ
کے سیکنڈ بٹالین میں کمپنی کمانڈر کے عہدے پر خدمات سر انجام دے رہے تھے
انہیں کشمیر میں آپریشن پر مامور کیا گیا۔ 27 جولائی 1948 ء میں انہوں نے
اوڑی سیکٹر میں دشمن کی اہم فوجی پوزیشن پر حملہ کیا۔ اس حملے میں مجاہدین
کی ایک بڑی تعداد شہید اور زخمی ہوئی لیکن کیپٹن محمد سرور نے پیش قدمی
جاری رکھی۔ جب وہ دشمن سے صرف 30 گز کے فاصلے پر پہنچے تو دشمن نے ان پر
بھاری مشین گن دستی بم اور مارٹر گنوں سے فائرنگ شروع کر دی۔اس حملے میں
مجاہدین کی ایک بڑی تعداد شہید اور زخمی ہوئی۔ جوں جوں مجاہدین کی تعداد
میں کمی آتی گئی ان کا جوش و جذبہ بڑھتا چلا گیا۔ کیپٹن محمد سرور نے ایک
توپچی کی گن کو خود سنبھالا اور دشمن پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اب دشمن
کا مورچہ صرف 20 گز کے فاصلے پر تھا۔ اس موقع پر اچانک انکشاف ہوا کہ دشمن
نے اپنے مورچوں کو خاردار تاروں سے محفوظ کر لیا ہے۔ کیپٹن سرور اس غیر
متوقع صورت حال سے بالکل ہراساں نہ ہوئے اور برابر دشمن پر فائرنگ کرتے
رہے۔اس دوران میں اپنے ہاتھ سے دستی بم ایسا ٹھیک نشانے پر پھینکا کہ دشمن
کی ایک میڈیم مشین گن کے پرخچے اڑ گئے مگر اس حملے میں ان کا دایاں بازو
شدید زخمی ہوگیا مگر وہ مسلسل حملے کرتے رہے۔انہوں نے ایک ایسی برین گن کا
چارج لیا جس کا جوان شہید ہو چکا تھا چنانچہ اپنے زخموں کی پروا کئے بغیر
چھ ساتھیوں کی مدد سے خاردار تاروں کو عبور کرکے دشمن کے مورچے پر آخری
حملہ کیا، کیپٹن محمد سرور گولیوں کی بارش برساتے ہوئے بہت دور تک نکل گئے۔
دشمن نے اس اچانک حملے کے بعد اپنی توپوں کارخ کیپٹن سرور کی جانب کر
دیا۔یوں ایک گولی کیپٹن سرور کے سینے میں لگی، اس طرح یہ بہادر
سپاہی27جولائی 1948ء کوآزاد کشمیر کے محاذ پرمادر وطن کی حفاظت اور غیر
معمولی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہوگیا۔ مجاہدین نے جب انہیں شہید
ہوتے دیکھا تو انہوں نے دشمن پر ایسا بھرپور حملہ کیا کہ وہ مورچے چھوڑ کر
بھاگنے پر مجبور گئے۔ یہ بھی ایک عجیب حسن اتفاق ہے کہ کیپٹن محمد سرور
شہید جس دن پیدا ہوئے تھے وہ عید کا دن تھا اورجس دن انہوں نے جام شہادت
نوش کیا وہ عید کا دوسرا دن تھا۔ ان کی شاندار خدمات کے اعتراف میں جہاں
انہیں مختلف اعزازات سے نوازا گیا، وہیں جب 1956ء میں جب پاکستان میں
باقاعدہ عسکری اور شہری اعزازات کا آغاز ہوا تو 27اکتوبر 1959ء کو انہیں
حکومت پاکستان کا سب سے بڑا عسکری اعزاز نشان حیدر سے نوازنے کا فیصلہ کیا
گیا، انہیں پہلا نشان حیدرپانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہ اعزاز ان کی بیوہ
محترمہ کرم جان نے 3 جنوری 1961ء کو صدرپاکستان محمد ایوب خان کے ہاتھوں
وصول کیا۔ لازوال شجاعت و بہادری کی داستان رقم کرنے والے کیپٹن محمد سرور
شہید کو پوری پاکستانی قوم سلام پیش کرتی ہے ۔ انہوں نے اپنے ملک اور کشمیر
کیلئے جو بھی گولی کھائی وہ ہمارے اس عزم کو مزید مضبوط کرتی ہے کہ ہم نے
پاکستان کی ہر قیمت پر حفاظت کرنی ہے ۔
٭……٭……٭ |
|