#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 37 تا 40
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
اذتقول
للذی انعم
اللہ علیه وانعمت
علیه امسک علیک زوجک
واتق اللہ وتخفی فی نفسک
مااللہ مبدیه وتخشی الناس واللہ
احق ان تخشٰه فلما قضٰی زید منہاوطرا
زوجنٰکھا لکی لایکون علی المؤمنین حرج فی
ازواج ادعیائھم اذاقضوامنھن وطرا وکان امر الله
مفعولا 37 ماکان علی النبی من حرج فیما فرض اللہ له
سنة اللہ فی الذین خلوا من قبل وکان امراللہ قدرا مقدورا
38 الذین یبلغون رسٰلٰت اللہ ویخشونه ولایخشون احداالااللہ
وکفٰی باللہ حسیبا 39 ماکان محمد ابااحد من رجالکم ولٰکن رسول
اللہ وخاتم الننییٖن وکان اللہ بکل شئی علیما 40
اے ھمارے رسُول ! آپ اِک ذرا اللہ کے حُکم پر بروقت عمل نہ کرنے اور بعد
اَزوقت پچھتانے والے اُس انسان کے اَحوال پر غور کریں جس پر اللہ کے تو بہت
سے احسانات تھے اور آپ کے بھی کُچھ کم احسانات نہیں تھے لیکن جب آپ نے اُس
کو اللہ کے حُکم پر یہ حُکم دیا کہ تُم لوگوں کی باتوں کے خوف سے اپنی بیوی
کو طلاق دینے کی وجوہ کو اپنے دل میں چُھپانے کے بجاۓ اپنی زبان پر لاؤ اور
باہمی گفت و شنید کے ذریعے اصلاحِ اَحوال کی طرف آؤ کیونکہ حق کا تقاضا یہ
ھے کہ تُم لوگوں سے ڈرنے کے بجاۓ صرف اللہ سے ڈرو اور اللہ ہی کے حُکم کے
مطابق اپنے سارے فیصلے کرو لیکن اُس انسان نے آپ کے حُکم کے علی الرغم پہلے
تو اپنی بیوی کو طلاق دی اور بعد ازاں اُس طلاق سے رجوع کرنے کی مقررہ مُدت
پر زیادہ مُدت بھی گزار دی حالانکہ اگر وہ آپ کو اپنا باپ سمجھتا تو آپ کے
حُکم کے مطابق اپنی بیوی کے ساتھ اختلاف کی بات کو دل میں رکھ کر اصلاحِ
اَحوال کا دروازہ ہر گز بند نہ کرتا اِس لیۓ جب اُس نے اللہ کے اور آپ کے
اُس حُکم کی خلاف ورزی کرتے ہوۓ اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو ھم نے آپ کو
اُس عورت کے مرد کے ساتھ اُس عورت کے نکاح کرنے حُکم دیا تاکہ اہلِ ایمان
ھمارے اِس حتمی حُکم کے بعد طلاق کے بعد نکاح کرنے کے لیۓ اپنے دل میں کوئی
تنگی محسوس نہ کریں اور اللہ رب العالمین کے قائم کیۓ ہوۓ رَبانی رشتے اور
انسان کے زبان سے بناۓ ہوۓ زبانی رشتے کے اُس فطری فرق کو جان لیں جس فرق
کو جاننے کی اُن کو سخت ضروت ھے ، اللہ کا حکم تو بہر صورت نافذ ہونا ہی
ہونا ھے چاھے انسان دل کی بات زبان پر لاۓ یا نہ لاۓ کیونکہ اللہ اپنے جس
نبی کو جو حُکم دیتا ھے تو اُس نبی نے بھی انسان کو وہی حکم دینا ہوتا ھے
جو حُکم اللہ نے اُس کو دیا ہوا ہوتا ھے ، ھمارے اِس نبی کے اِس حُکم سے
پہلے بھی عالَم میں اللہ کے تمام نبیوں کا انسان کو اَحکام دینے کا یہی
رائج طریقہ رائج رہا ھے جو طریقہ ھمارے اِس نبی نے اختیار کیا ھے اور یہ
بات بھی یاد رکھو کہ اللہ کے یہ اَحکام ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ ناقابلِ تغیر
ہیں اور یہ اسی ایک ضابطے کے مطابق اَنجام پاتے ہیں جو ضابطہ ھم نے بیان
کیا ھے اور یہ بھی ایک کُھلی حقیقت ھے کہ محمد تُم میں سے کسی مرد کے زبانی
دعوے کے مطابق کبھی بھی کسی مرد کے باپ نہیں تھے ، اُن کی طے شدہ حقیقت و
حیثیت یہ ھے کہ وہ اللہ کے ایک رسُول ہیں جو اللہ کے حُکم کے مطابق اللہ کی
خبریں لانے والوں کی خبریں لانے اور خبریں سنانے پر پابندی عائد کرنے والے
ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
عُلماۓ روایت نے قُرآنِ کریم کی اِس سُورت کی اِن اٰیات کا بالعموم اور اِن
اٰیات میں سے پہلی اٰیت کا بالخصوص جو جو ترجمہ کیا ھے ، پھر اُس ترجمے پر
جو جو تفسیری حاشیۓ چڑھاۓ ہیں اور پھر اُن تراجم و تفاسیر کی قدیم فاسد
بُنیاد پر ایک جدید فاسد بُنیاد کھڑی کر کے اُنہوں نے سیدنا محمد علیہ
السلام کی ذاتِ گرامی کی سیرت و کردار پر جو جو روایتی شرمناک حملے کیۓ ہیں
اُن روایتی شرمناک حملوں کی اُن شرمناک تفصیلات میں جانا اگرچہ قُرآنِ کریم
پر ایمان لانے والے انسان کے لیۓ ایک دُشوار عمل ھے لیکن اُن تفصیلات کو
بالکُل نظر انداز کر کے گزر جانا اُس پہلے دشوار عمل سے زیادہ دُشوار تر
عمل ھے اِس لیۓ زیرِ بحث اٰیت میں زیرِ بحث آنے والا جو معاملہ نکاح و طلاق
اور طلاق و نکاح کے ایک فطری عمل کا ایک فطری معاملہ ھے اُس معاملے پر ھم
آنے والی سطور میں اختصار و احتیاط کے ساتھ اپنی جو معروضات پیش کریں گے
اُن معروضات سے پہلے اُن ترجموں پر بھی ایک اچٹتی سی نظر ڈالیں گے ، پھر
اُن ترجموں کی اِس عمارت کی بُنیاد میں رکھی گئی اُن روایاتِ کاذبہ و کافرہ
پر بھی ایک سر سری سی نگاہ ڈالیں گے اور اِن دو ابتدائی اُمور کے بعد
اٰیاتِ بالا کے اُس مفہومِ بالا کو بھی واضح کرنے کی کوشش کریں گے جو متنِ
اٰیات کے تحت ھم نے تحریر کیا ھے ، اِس تمہید کے بعد سب سے پہلی گزارش یہ
ھے کہ اُردو زبان میں قُرآنِ کریم کا سب سے پہلا ترجمہ جو شاہ عبدالقادر
علیہ الرحمہ نے کیا ھے اُس کو عُلماۓ روایت ایک الہامی ترجمہ قرار دیتے ہیں
اِس لیۓ اُس پہلے الہامی ترجمے کے بعد قُرآنِ کریم کے جتنے بھی لفظی ترجمے
کیۓ گۓ ہیں وہ تمام کے تمام ترجمے اسی الہامی ترجمے کو سامنے رکھ کر کیۓ گۓ
ہیں اِس لیۓ ھم بھی آنے والی پہلی سطور میں سب سے پہلے شاہ عبد القادر علیہ
الرحمہ کا وہی الہامی ترجمہ پیش کر رھے ہیں جو یہ ھے کہ { اور جب تو کہنے
لگا اُس شخص کو جس پر اللہ نے احسان کیا ، اور تونے احسان کیا ، رہنے دے
اپنے پاس اپنی جورو کو ، اور ڈر اللہ سے ، اور تو چھپاتا تھا اپنے دل میں
ایک چیز ، جو اللہ اس کو کھولا چاہتا تھا اور تو ڈرتا تھا لوگوں سے ، اور
اللہ سے زیادہ چاہیۓ تھا ڈرنا تجھ کو ، پھر جب زید تمام کر چکا اُس عورت سے
اپنی غرض ، ہم نے وہ تیرے نکاح میں دی ، تا نہ رھے سب مسلمانوں پر گناہ
نکاح کرلینا جورویں اپنے لے پالکوں کی ، جب وہ تمام کریں اُن سے اپنی غرض ،
اور ھے اللہ کا حکم کرنا } اِس ترجمے کے بعد اِس اٰیت کے مُختلف حواشی میں
وہ جو مربوط عن السابق والمسبوق کلام کرتے ہیں اُس مربوط کلام میں وہ لکھتے
ہیں کہ { حضرت زینب رسول خدا کی پھوپھی کی بیٹی اور قوم میں اشراف ، حضرت
نے چاہا کہ ان کا نکاح کردیں زید بن حارث سے ، یہ زید بن حارث اصل عرب تھے
، ظالم پکڑ لے گیا لڑکپن میں شہر مکہ میں بکے حضرت نے مول لیا دس برس کی
عمر میں ، ان کے باپ بھائی خبر پا کر آۓ مانگنے کو حضرت دینے پر راضی ہوۓ
یہ گھر جانے پر راضی نہ ہوۓ حضرت کی محبت سے ، پھر حضرت نے ان کو بیٹا کر
لیا اسلام سے پہلے اس وقت کے رواج موافق حضرت زینب اور ان کا بھائی راضی نہ
ہوۓ اس پر آیت اتری ، پھر راضی ہو کے اور نکاح کر دیا ، حضرت زینب زید کے
نکاح میں آئیں تو وہ ان کی آنکھوں میں حقیر لگتا ، مزاج کی موافقت نہ ہوئی
جب لڑائی ہوئی تو زید حضرت سے آکر شکایت کرتے اور کہتے میں اسے چھوڑتا ہوں
، حضرت منع کرتے کہ میری خاطر سے اس نے تجھ کو قبول کیا اب چھوڑنا دوسری
ذلت ھے ، جب بار بار قضیہ ہوا حضرت کے دل میں خیال آیا کہ اگر ناچار زید
چھوڑے گا تو زینب کی دل جوئی بغیر اس کے نہیں کہ میں نکاح کروں لیکن
منافقوں کی بد گوئی سے اندیشہ کیا کہ کہیں گے اپنے بیٹے کی جورو گھر میں
رکھی حالانکہ لے پالکوں کو حکم بیٹے کا نہیں ، اس بات میں اللہ تعالٰی نے
زینب کی خاطر رکھی بعد طلاق کے حضرت کے نکاح میں دے دیا ، اللہ کے فرماۓ سے
نکاح بندھ گیا ظاہر میں نکاح کی حاجت نہ ہوئی جیسے اب کوئی مالک اپنی لونڈی
سے غلام کا نکاح باندھے دے } شاہ عبدالقادر کے اِس ترجمے کے بعد مولانا
محمودالحسن نے بھی اِس کا یہ ترجمہ کیا ھے کہ { اور جب تو کہنے لگا اس شخص
کو جس پر اللہ نے احسان کیا اور تونے احسان کیا رہنے دے اپنے پاس اپنی جورو
کو اور ڈر اللہ سے اور تو چھپاتا تھا اپنے دل میں ایک چیز جس کو اللہ کھولا
چاہتا ھے اور ڈرتا تھا لوگوں سے اور اللہ سے زیادہ چاہیۓ تھا ڈرنا تجھ کو ،
پھر جب زید تمام کر چکا اُس عورت سے اپنی غرض ہم نے اس کو تیرے نکاح میں دے
دیا تا نہ رھے مسلمانوں پر گناہ نکاح کرلینا جوروئیں اپنے لے پالکوں کی جب
وہ تمام کرلیں ان سے اپنی غرض اور ھے اللہ کا حکم بجا لانا } مولانا
محمودالحسن علیہ الرحمہ کے اِس ترجمے پر مولانا شبیر احمد عثمانی مرحوم نے
یہ حاشیہ تحریر کیا ھے کہ { حضرت زینب رضی اللہ عنہا امیہ بنت عبدالمطلب کی
بیٹی اور نبی کریم صلعم کی پھوپی زاد بہن اور قریش کے اعلٰی خان دان سے
تھیں ، آنحضرت نے صلعم نے چاہا کہ ان کا نکاح زید بن حارثہ سے کردیں ، یہ
زید اصل سے شریف عرب تھے لیکن لڑکپن میں کوئی ظالم ان کو پکڑ لایا اور غلام
بنا کر مکہ کے بازار میں بیچ گیا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے خرید لیا اور
کچھ دنوں بعد آنحضرت کو ہبہ کر دیا جب ہشیار ہوۓ تو ایک تجارتی سفر کی
تقریب سے اپنے وطن کے قریب سے گزرے وہاں ان کے اعزہ کو پتہ لگ گیا ، آخر ان
کے والد ، چچا اور بھائی حضرت کی خدمت میں پہنچے کہ معاوضہ لے کر ھمارے
حوالے کریں ، فرمایا کہ معاوضہ کی ضرورت نہیں ھے ، اگر تمہارے ساتھ جانا
چاھے تو خوشی سے لے جاؤ انہوں نے حضرت زید سے دریافت کیا ، حضرت زید نے کہا
میں حضرت کے پاس سے جانا نہیں چاہتا آپ مجھے اولاد سے بڑھ کر عزیز رکھتے
ہیں اور ماں باپ سے زیادہ چاہتے ہیں ، حضرت نے ان کو آزاد اور متبنٰی بنا
لیا ، چناچہ لوگ اس زمانے کے رواج کے مطابق زید بن محمد کہہ کر پکارنے لگے
تاآنکہ اٰیت ادعواھم لاٰبائھم نازل ہوئی اُس وقت زید بن محمد زید بن حارثہ
بن گۓ } ھمارے یہ پرانے بزرگ چونکہ اپنے پرانے بزرگوں کے ساتھ اپنی علمی
نسبت اور قلبی عقیدت کو قائم رکھنے کے لئے اُن کی باتوں کو لفظ بہ لفظ اُسی
طرح نقل کرتے چلے جاتے تھے جس طرح انہوں نے لکھی ہوتی تھیں اِس لیۓ شاہ
عبدالقادر اور مولانا محمودالحسن کے ترجمے میں کوئی بھی لفظی اختلاف نہیں
ھے لیکن شاہ عبدالقادر اور مولانا شبیر احمد عثمانی کی تفسیری تعلیقات میں
پہلا فرق یہ ھے کہ ایک بزرگ کے نزدیک زید بن حارثہ کو سیدنا محمد علیہ
السلام نے بذاتِ خود خریدا تھا لیکن دُوسرے بزرگ کے خیال کے مطابق زید بن
حارثہ کو سیدہ خدیجہ نے خرید کر سیدنا محمد علیہ السلام کو ہبہ کیا تھا ،
اِن بزرگوں کے اِس بیان میں دُوسرا فرق یہ ھے کہ ایک بزرگ کے خیال کے مطابق
زید بن حارثہ کے خان دان کے لوگ زید بن حارثہ کو معاوضہ دے کر لینے کے لیۓ
مکے میں آۓ تھے اور دُوسرے بزرگ کے خیال میں یہ واقعہ مکے سے باہر ایک
تقریبِ سفر کے دوران پیش آیا تھا اور اِن بزرگوں کے اِس بیان میں تیسرا فرق
یہ ھے کہ اِن میں سے ایک بزرگ نے تو زینب کا ذکر اُسی مناسب طریقے کے ساتھ
کیا ھے جس طریقے اور سلیقے کے ساتھ اُن کا ذکر کرنا چاہیۓ تھا لیکن دُوسرے
بزرگ نے اُن کو ایک غلام لونڈی کے ساتھ تشبیہ دے کر اُن کی حریت و حرمت کو
برملا مجروح کیا ھے ، اِن بزرگوں نے زید بن حارثہ کا اپنے نسبی بزرگوں کے
ساتھ کیا گیا جو مکالمہ نقل کیا ھے اُس مکالمے سے ظاہر ہوتا ھے کہ اُس وقت
سیدنا محمد علیہ السلام صاحبِ اولاد تھے اور آپ زید بن حارثہ کے ساتھ اپنی
نرینہ و غیر نرینہ اَولاد سے زیادہ محبت کیا کرتے تھے ، اگر اُس وقت آپ
بیٹوں اور بیٹیوں کے باپ نہ ہوتے تو زید بن حارثہ اس طرح سے اپنے اور آپ کی
اَولاد کے درمیان وہ موازنہ ہر گز نہ کرتے جو موازنہ انہوں نے اپنی گفتگو
میں کیا ھے اور جو موازنہ اِن بزرگوں نے بھی نقلِ واقعہ کے طور پر نقل کیا
ھے اور مزید براں یہ کہ اِن بزرگوں کے اِن ترجموں میں نکاح کے عمل کو غرض
کا جو خود غرضانہ نام دیا گیا ھے وہ بھی زبان و بیان کے اعتبار سے محلِ نظر
ھے لیکن اُس کی تفصیل بعد میں کسی مقام پر آۓ گی اور اِن تراجم و حواشی میں
جو دیگر بہت سی باتیں نقد و جرح کی زد میں آتی ہیں اُن پر بھی ھم شاید اِس
سلسلہِ کلام کے کسی دُوسرے مقام پر کُچھ عرض کر سکیں گے !!
|