یہ کھیل 1915ء میں ’’سانتا مونیکا‘‘ میں ایجاد ہوااور اس کا پہلا میچ ہوائی
میں ’’وکیکی بیچ‘‘ پرکھیلا گیا
1930ء میں عالمی کساد بازاری کےپرآشوب دور میں امریکا میں اس کھیل کو فروغ
حاصل ہوا
بیچ والی بال (Beach volleyball)کا کھیل دو ٹیموں کے درمیان ساحل سمندر پر
ریتیلی کورٹ پر کھیلا جاتا ہے، ان ڈور والی بال ٹیموں میں چھ کھلاڑیوں میں
مقابلہ ہوتا ہےجب کہ بیچ والی بال کی ٹیم ایک، ایک کھلاڑی پر مشتمل ہوتی
ہے۔ اس میں تین سیٹ کھیلے جاتے ہیں اور ہر سیٹ 21پوائنٹس پر مشتمل ہوتا ہے۔
سروس کرنے والی ٹیم گیند کو جال کے اوپر سے مخالف ٹیم کے کورٹ میں ہٹ لگا
کر پھینکتی ہے اور مخالف ٹیم کے کھلاڑی اسے واپس مذکورہ ٹیم کی طرف پھینکتے
ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے۔ جب تک گیند زمین پر نہ گر جائے،
زمین پر گرنے کے بعد مخالف ٹیم کو ایک پوائنٹ کی سبقت حاصل ہو جاتی ہے۔اس
کھیل میں عورتوں اور مردوں دونوں کیلئے والی بال کا کورٹ 30x60فٹ کا ہوتا
ہے۔اس کے نیٹ کی اونچائی مردوں کیلئے 7.11فٹ جبکہ عورتوں کی ٹیم کیلئے
7.4فٹ ہوتی ہے اور یہ نیٹ ایک میٹر چوڑا ہوتا ہے۔بیچ والی بال کا کورٹ ان
ڈور والی بال کورٹ کے مقابلے میں چھوٹا ہوتا ہے جبکہ اس میں جو گیند
استعمال ہوتی ہے وہ ان ڈور والی بال کے مقابلے میں ہلکی اور زیادہ بڑی ہوتی
ہے۔بیچ والی بال کا پہلا میچ دو کھلاڑیوں کے درمیان 1930میں کھیلا
گیا۔1896میں والی بال کا کھیل باسکٹ بال کی گیند سے کھیلا جاتا تھا، اس
کھیل کیلئے خصوصی طور سے پہلی گیند 1900میں بنائی گئی۔اس کھیل کی انفرادی
خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کھلاڑی 300مرتبہ بال کو دوسرے ہاف میں پھینکنے کے
لیے اچھلتے ہیں جو ایک کمال کی بات ہے۔ والی بال کے کھیل کی مردوں کی پہلی
عالمی چیمپئن شپ 1949میں جبکہ خواتین کی عالمی چیمپئن شپ کا انعقاد 1952میں
کیا گیا۔ اس کھیل میں چند خصوصیات ٹینس اور ہینڈبال کے کھیل سے لی گئی ہیں۔
بیچ والی بال 1915ء میں ’’سانتا مونیکا‘‘ کیلی فورینا میں وجود میں آئی
اور اس کا پہلا میچ ہوائی میں ’’وکیکی بیچ‘‘ پر ’’آئوٹ رگنگ کنوئی کلب‘ کے
زیراہتمام کھیلا گیا۔ 1996ء میں اسے اولمپک کھیلوں میں شامل کیا گیا۔
’’فیڈریشن انٹر نیشنل ڈی والی بال‘‘ اس کھیل کی گورننگ باڈی ہے جو ’’ایف
آئی وی بی، والی بال ورلڈ چیمپئن شپ‘‘ کا انعقاد کرتی ہے۔ 1920ء میں سانتا
مونیکا میں نئی جیٹیوں کی تعمیر کے بعد لوگوں کو اس ساحل پر کافی ریتیلا
علاقہ میسر آگیا جہاں بیچ والی بال کے کھیل کو فروغ حاصل ہوا۔ یہاں پر جال
لگا کر والی بال کورٹس بنائے گئے جہاں لوگ تفریحی طور پر یا کلبوں کے ساتھ
بیچ والی بال کھیلا کرتے تھے۔ 1922ء تک سانتا مونیکا میں 11کلب فعال ہو گئے
اور پہلے انٹرکلب مقابلے کا انعقاد 1924میں کیا گیا۔ ابتدا میں اس کھیل میں
چھ، چھ کھلاڑیوں پر مشتمل دوٹیمیں میچ میں حصہ لیتی تھیں۔ دو کھلاڑیوں پر
مشتمل ٹیموں کے کھیل کا آغاز ’’پال پیبلو ایتھلیٹک کلب سے ہوا۔ 1930ء میں
سانتا مونیکا ایتھلیٹک کلب میں ایک میچ کیلئے دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کا
انتظار کر رہا تھا، لیکن وہاں صرف 4کھلاڑی موجود تھے۔ اس موقع پر کلب کے
منیجر جانسن نے دو ،دو کھلاڑیوں پر مشتمل دو ٹیمیں تیار کیں اور پہلی مرتبہ
بیچ والی بال کا ’’ڈبل گیم‘‘ کا انعقاد ہوا۔ اس مقابلے کی شہرت جب قرب و
جوار کے کلبز تک پہنچی تو وہاں بھی دو افراد پر مشتمل ٹیموں کے مقابلوں کا
انعقاد ہونے لگا۔ 1930ء میں عالمی کساد بازاری کےپرآشوب دور میں امریکا
میں اسی کھیل کو فروغ حاصل ہوا اور اسی زمانے میں اس کا آغاز یورپ میں بھی
ہوا۔ 1940ء میں سانتا مونیکا کے ساحلوں پر ’’ٹرافی‘‘ کا انعقاد ہونے
لگا۔والی بال کا سب سے طویل دورانیہ کا کھیل کنگسٹن شمالی کیرولینا میں
کھیلا گیا جو 75گھنٹے 30منٹ پر محیط رہا۔
1948ء میں لاس اینجلس میں ایک مشروب ساز کمپنی کے زیراہتمام پہلا بیچ والی
بال مقابلہ منعقد ہوا۔ جس میں ’’ڈاکٹر کیلب موہرہاسر‘‘نے نے ٹورنامنٹ کی
بہترین ٹیموں کو نقد انعامات تقسیم کئے۔ ڈاکٹر کیلب بعد میں اس کھیل کے
سرگرم سرپرست کے طور پر معروف ہوئے، جنہوں نے بیچ والی بال کے فروغ کے لئے
بے مثال خدمات انجام دیں۔ 1960ء میں کیلی فورنیا میں بیچ والی بال لیگ کے
قیام کی کوشش کی گئی جو ناکامی سے دوچار ہوئی لیکن ان ہی دنوں فرانس
میں30ہزار فرنچ فرانک کے انعام پر مشتمل پروفیشنل ٹورنامنٹ منعقد ہوا۔
1960ء میں برازیل کے ایک اشاعتی ادارے نے وہاں پہلے برازیلین بیچ والی بال
ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا۔1960میں پہلا ’’مین ہٹن بیچ اوپن ٹورنامنٹ منعقد
ہوا جس کا رتبہ شائقین کھیل کے نزدیک’’ویمبلڈن آف بیچ والی بال‘‘ کی طرح
تھا۔ان ٹورنامنٹس کے انعقاد سے اس کھیل نے دنیا بھر میں پذیرائی حاصل کر
لی۔ 1960میں امریکی کھلاڑی بیٹلز نے لاس اینجلس کے سورنٹو کے ساحل پرمتعدد
میچز کھیلے جن میں سے ایک میچ امریکی صدر، جان ایف کینیڈی نے بھی دیکھا۔
1974ء میں سان ڈیگو کے اسپورٹس ایرینا میں ’’دی 15000ڈالر’’ ورلڈ انڈوربیچ
والی بال چیمپئن شپ‘‘ منعقد ہوئی جسے 4ہزار کے قریب شائقین نے دیکھا۔ فریڈ
زولک اور ڈینس ہیرے پر مشتمل ٹیم نے رون وین ہیگن اور میٹ گیج کو شکست دے
کر چیمپئز ٹرافی جیت لی۔بعد ازاں ڈین ہیرے نے اس کھیل سے متعلق ’’دی آرٹ
آف بیچ والی بال‘‘ نامی کتاب لکھی۔ پہلا بیچ والی بال ٹورنامنٹ 1976ء میں
کیلی فورینا کے ’’ول راجرز اسٹیٹ بیچ پرلیبرڈے ویک اینڈ کے موقع پر
’’اولمپیاڈ ورلڈ بیچ چیمپئن شپ آف والی بال‘‘ کے نام سے منعقد ہوا، جس کے
تمام اخراجات سانتا بار برا سے شائع ہونے والے والی بال میگزین کے مالک،
ڈیوڈ ولک نے برداشت کئے۔ اس کھیل کے پہلے عالمی چیمپئن گریگ لی اور جم
مینگز تھے۔ وہ 5000ڈالر انعام کے مشترکہ حق دار قرار دیئے گئے۔ مذکورہ
میگزین کی سرپرستی میں اسی مقام پر اگلی چیمپئن شپ کا انعقاد کیا گیا۔
1978ء میں ڈیوڈولک نے کھیلوں کی ترویج کیلئے ایک کمپنی ’’ایونٹ کانسپٹ ‘‘
(Event Concept)کے نام سے ’’کریگ ماسوکا‘‘ کی شراکت میں قائم کی جس کے
زیراہتمام’’ روینڈو بیچ پر والی بال کی عالمی چیمپئن شپ کے انعقاد کی
منصوبہ بندی کی گئی، جس کے لئے جیس کوئیروو نامی کمپنی کی اسپانسرشپ حاصل
کی گئی۔ یہ ٹورنامنٹ بے حد کامیاب ثابت ہوا اور اس تجربے کے بعد،مذکورہ
کمپنی نے مزید تین ٹورنامنٹس کے انعقاد کے لئے فنڈزفراہم کئے جس کے بعد’’
دی کیلی فورینا پروبیچ ٹورڈبیو‘‘ کا ’’لاگو نا بیچ، سانتا بار برا ‘‘میں
انعقاد کیا گیا جب کہ ریڈونڈو میں عالمی چیمپئن شپ منعقد ہوئی۔
امریکا میں 1927میں یونائیٹڈ اسٹیٹس والی بال ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں
آیا اور 1947میں ایف آئی وی بیکی بین الاقوامی تنظیم کا بنیادی رکن بنا۔
1964کے اولمپک گیمزمیں امریکا کی والی بال ٹیم نے شرکت کی۔ 1984میں لاس
اینجلس اور 1988میں سیؤل اولمپکس میں امریکا نے طلائی جب کہ1992میں
اٹلانٹا میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ 2008میں
بیجنگ اولمپکس میں برازیل کو شکست دے کر ایک مرتبہ پھر طلائی تمغہ حاصل
کیا۔ 2012میں لندن میں اٹلی کے مقابلے میں کوارٹر فائنل میں ہار کر مقابلے
سے باہر ہو گیا۔فرانس میں ہونے والے 1986میں ورلڈ چیمپئن شپ مقابلے میں
امریکا نے طلائی تمغہ حاصل کیا۔ 1994میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ امریکا کی
والی بال ٹیم نے 2015کے عالمی کپ میں حصّہ لیا اور ارجنٹائن کو شکست دے کر
عالمی کپ کا اعزاز حاصل کیا۔ 1985میں امریکی ٹیم نے پہلا عالمی کپ جیتا
تھا۔ امریکی ٹیم کو ورلڈ لیگ میں دو طلائی تمغے جیتنے کا اعزاز حاصل
ہے۔امریکی والی بال کھلاڑی کارچ کرالے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے
1984اور 1988کے اولمپکس مقابلوں میں ان ڈوربیچ والی بال میں دو طلائی تمغے
جیتے جبکہ 1992میں سینڈ پلیئر کی چیمپئن شپ جیتنے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
کیری واش جیتگز اور مسٹی مے ٹیمر کی جوڑی نے تین مرتبہ 2008,2004اور 2012کی
اولمپک چیمپئن شپ جیتی۔ 1983میں والی بال کے کھلاڑیوں کی عالمی تنظیم ’’دی
ایسوسی ایشن آف والی بال پلیئرز‘‘ قائم کی گئی۔
1996میں اٹلانٹا کے ساحل پر پہلی مرتبہ بیچ والی بال کے مقابلے میں
کھلاڑیوں کو تمغوں اور نقد انعامات سے نوازا گیا۔1971میں والی بال کے ’’ہال
آف فیم‘‘ ہالیوک میساچوسٹس میں قیام عمل میں آیا جس میں 100کے قریب
کھلاڑیوں، کوچز، کھیل کے حکام اور کھیل کا انعقاد کرنے والے اداروں کو ہال
آف فیم کے اعزاز سے نوازا گیا۔
برطانیہ میں یہ کھیل بیسوی صدی کے اوئل میںمتعارف ہوا، وہاں یہ کھیل انگلش
والی بال ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام کھیلا جاتا ہے جو نیشنل والی بال اور
بیچ والی بال کے لیگ میچوں اور نیشنل ناک آؤٹ کپ کے مقابلوں کا انعقاد
کرتی ہے۔ 1985سے 1991تک باقاعدگی سے اس کے سالانہ مقابلوں کا انعقاد ہوتا
رہا۔ 1992میں برٹش کی قومی ٹیم قائم کی گئی جس میں کل وقتی کوچ کا تقرر کیا
گیا جب کہ شیفیلڈ میں اس کا ٹریننگ سینٹر کھولا گیا۔ 1992میں پہلی مرتبہ
برطانیہ کی والی بال ٹیم کو اولمپک مقابلوں میں شرکت کیلئے بھیجا
گیا۔1996کے اولمپکس مقابلوں میں برطانیہ کی دو خواتین والی بال کھلاڑیوں
ایمنڈا گلوور اور آڈرے کوپر نے شرکت کی۔ اس وقت تک برطانیہ میں بیچ والی
بال کا کوئی تربیتی مرکز نہیں تھا اس لئے مذکورہ کھلاڑیوں کو ایمسٹرڈیم میں
تربیت حاصل کرنے کیلئے بھیجا گیا اورانہوں نے اسی سال اولمپکس مقابلوں
کیلئے کوالیفائی کرکے دنیا کے تجربہ کار کھلاڑیوں کو حیران کردیا۔
آسٹریلیا میں والی بال کے کھیل کا باقاعدہ آغاز 60کی دہائی میں ہوا اور
1963میں آسٹریلین والی بال فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا جو آسٹریلیا میں
والی بال کے کھیل کی نگرانی کرنے والی قومی تنظیم ہے، جسے والی بال
آسٹریلیا بھی کہتے ہیں۔ والی بال کی عالمی تنظیم اے وی ایف کی نگرانی میں
آسٹریلیا کی والی بال کی مختلف تنظیموں کے مقابلے ترتیب دیئے جاتے ہیں۔
مذکورہ ملکی تنظیموں میں کوئنز لینڈ والی بال ایسوسی ایشن، اسٹیٹ والی بال
نیو سائوتھ ویلز، والی بال اے سی ٹی، والی بال ناردرن ٹیریٹری، والی بال
سائوتھ آسٹریلیا، والی بال تسمانیہ، والی بال وکٹوریہ، والی بال ویسٹرن
آسٹریلیا شامل ہیں۔ 1964سے 1996 تک آسٹریلین والی بال ٹیم، اولمپک
مقابلوں میں کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی۔ 2000میں اس نے پہلی مرتبہ شرکت
کی اور کوارٹر فائنل تک رسائی حاصل کی، 2008اور 2016میں بھی یہ اولمپک
مقابلے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی، اسی طرح 1982میں ایف آئی وی بی ورلڈ
چیمپئن شپ میں شرکت کی اور 22ویں پوزیشن پر رہی۔ اس کے بعد 2014کی ورلڈ
چیمپئن شپ کے صرف دوسرے مرحلے تک پہنچنے میں کامیاب رہی۔ ورلڈ کپ مقابلوں
میں بھی آسٹریلین والی بال ٹیم کا یہی حال رہا۔ ایشین چیمپئن شپ مقابلوں
میں 1975سے شرکت کی اور 2007میں پہلی مرتبہ چیمپئن شپ کا اعزاز حاصل کیا
جبکہ 1999اور 2001میں دوسری پوزیشن پر رہی۔ آسٹریلیا کے ساحلی علاقوں میں
بیچ والی بال کا کھیل بھی انتہائی مقبول ہے اور اس کے والی بال آسٹریلیا
کے زیراہتمام بیچ والی بال کے مقابلوں کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے۔
کیوبا میں بھی بیچ والی بال کا کھیل انتہائی مقبول ہے۔ وہاں بیچ والیبال
کیوبن ٹرافی دو مراحل میں منعقد ہوتی ہے۔ فروری میں پہلے مرحلے
’’ویراذیرو‘‘ کا انعقاد ہوتا ہے جب کہ مارچ میں ’’سیگوڈی ایویلا ‘‘ کے نام
سے کھیلی جاتی ہے۔ مئی میں قومی چمپئن شپ ہوتی ہے جس میںکیوبا کے تمام
شہروں کے کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔ ڈومیسٹک سطح کے مقابلوں کے علاوہ کیوبن
ٹیمیں سینٹرل امریکن اور کریبئن گیمز میں بھی حصہ لیتی ہیں۔ ۔ 1996-1992اور
2000کے اولمپکس گیمز میں کیوبا کی خاتون کھلاڑی ’’تمارالاریاپیرازا‘‘ نے
چیمپئن شپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔ انہوں نے 2003میںسانتو ڈومنگو، ڈومینکن
ری پبلک میں منعقد ہونے والے پان امریکن گیمز میں طلائی تمغہ جیتا۔
یورپی ممالک میں بھی یہ کھیل خاصا مقبول ہے اور یورپی ممالک کی مشترکہ
تنظیم کی سرپرستی میں براعظم کے مختلف ممالک کی والی بال ٹیموں کے درمیان
میچوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔امریکا سے شروع ہونے والے اس کھیل کو 1914میں
پہلی جنگ عظیم کے دوران امریکی فوجیوں نے مشرقی یورپ میں متعارف کرایاجب کہ
1916ء میں وہاں بیچ والی بال کا کھیل متعارف کرایا گیا،1963میں رومانیہ کے
شہر بخارسٹ میں یورپین والی بال کنفیڈریشن کے نام سے یورپ کی والی بال
کھیلنے والے ممالک کی ٹیم کا قیام عمل میں آیا۔ آج کل اس کا صدر دفتر
لگسمبرگ میں واقع ہے۔فرانس کی نیشنل والی بال ایسوسی ایشن، یورپین
کنفیڈریشن کی فعال رکن ہے۔ 2015میں اسے یورپین چیمپئن شپ جیتنے کا اعزاز
حاصل ہوا، جب کہ ورلڈ لیگ میں بھی اس کی ٹیم نے چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔
اولمپکس گیمز میں فرانسیسی ٹیم کی کارکردگی انتہائی خراب رہی ہےاور 1964سے
اب تک صرف تین مرتبہ اولمپک مقابلوں کے لیے کوالیفائی کرسکی اور آٹھویں،
نویں اور گیارہویں پوزیشن پر براجمان ہوئی۔ ورلڈ چیمپئن شپ میں اس کی ٹیم
نے 1949سے حصہ لینا شروع کیا لیکن صرف دو مرتبہ ، 2002اور 2014میں سیمی
فائنل مرحلے تک رسائی حاصل کرسکی۔ ورلڈ لیگ کے مقابلوں میں 2006میں دوسری
پوزیشن حاصل کی۔
بھارت میں یہ کھیل بیسویں صدی کے اوائل میں مقبول ہوا۔ والی بال اور بیچ
والی بال کاکھیل بھارت کے تمام شہری اور دیہی علاقوں میں کھیلا جاتا ہے۔
1936ء سے195ء تک ہر دو سال بعد انڈین اولمپک ایسوسی ایشن کے زیراہتمام’’
انٹر اسٹیٹ والی بال چیمپئن شپ ‘‘ کا انعقاد ہوتا رہا ہے اور اس سلسلے کی
پہلی چیمپئن شپ 1936ء میں لاہور میں منعقد ہوتی تھی۔ 1951ء میں والی بال
فیڈریشن آف انڈیا کا قیام عمل میں آیا جس کا پہلا اجلاس لدھیانہ میں
منعقد ہوا۔ وہ اس ایشین رینکنگ میں پانچویں جب کہ عالمی درجہ بندی میں
27ویں پوزیشن پر براجمان ہے۔ 2003ء میں بھارت، بیچ والی بال کی ورلڈ یوتھ
چیمپئن شپ میںرنر اپ رہا۔ رواں سال سے بھارت میں انڈین والی لیگ کے نام سے
لیگ چیمپئن شپ کا آغاز کیا گیا ہے جس میں چھ ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔ ان
مقابلوں کا انعقاد چار مختلف وینیوز، بنگلور، چنائے، حیدرآباد اور یانام
میں کیا جاتا ہے۔ لیگ میں شرکت کرنے والی چار ٹیموں کا تعلق مذکورہ شہروں
جب کہ باقی کی دو ٹیمیں کرناٹک اور کیرالا کے کھلاڑیوں پر مشتمل
ہیں۔2005میں بھارت نے ایشین مینز والی بال چیمپئن شپ کا فاتح رہا۔
پاکستان میں والی بال کے کھیل کا آغاز 1954سے ہوا۔ 1955میں پاکستان والی
بال فیڈریشن قائم کی گئی جس کے بعد اس کے قومی سطح کے مقابلوں کا انعقاد
ہونے لگا، اسی سال پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور عالمی والی بال فیڈریشن
نے پاکستان والی بال فیڈریشن کی تنظیم کی سرکاری طور سےمنظوری دی۔ 50 اور60
کی دہائی کے دوران پاکستان کی والی بال ٹیم کو ایشیائی ممالک میں بلند مقام
حاصل تھا۔ 1955سے 1958تک پاکستان میں والی بال کے مقامی سطح کے ہی ٹورنامنٹ
کرائے گئے جن میں نئے کھلاڑیوں نے انتہائی جوش و خروش کے ساتھ حصّہ لیا۔
1958میں پاکستان کی ٹیم نے ایران کا دورہ کیا جہاں اس نے حریف ٹیم کو پانچ
میچوں کی سیریز میں شکست فاش سے دوچار کرکے ایشین چیمپئن شپ کا اعزاز حاصل
کیا۔ 1962میں جکارتہ میں ہونے والے ایشین گیمز میں کانسی کا تمغہ جیتا۔
1989میں بھی ایشین چیمپئن شپ میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ان مختصر
کامیابیوں کے بعد قومی والی بال ٹیم روبۂ زوال ہونا شروع ہوئی اور تمغوں
کی دوڑ میں کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی۔ 2008میں پاکستان جونیئر ٹیم نے
ایران میں ہونے والی چیمپئن شپ میں ایشیاء کی صف اوّل کی ٹیموں جاپان،
جنوبی کوریا، چین اور ایران کو شکست سے دوچار کیا۔والی بال کی طرح پاکستان
میں بیچ والی بال کا کھیل بھی مقبول ہے اور لاہور میں اس کی قومی چیمپئن شپ
کا انعقاد ہوتا ہے۔جنوری 2015میں ایشین بیچ والی بال کنفیڈریشن انٹرکانٹی
نینٹل کپ میںپاکستانی کھلاڑی مبشر رضا نے فقید المثال کارکردگی کا مظاہرہ
کرکے پاکستان کو نقرئی تمغہ جتوایا۔ وہ نہ صرف کانٹی نینٹل کپ کے بہترین
کھلاڑی قرار پائے بلکہ انہوں نے 2016ء میں منعقد ہونے والے ریو اولمپکس کے
لیےبھی کوالیفائی کرلیا۔ رواںبرس تھائی لینڈ میں ایشین انڈر۔19بیچ والی بال
چیمپئن شپ کا انعقاد ہوا جس میں پاکستان کی جانب سے زرناب خان اور آفاق
خان کے بہترین کھیل کی وجہ سے قومی ٹیم ابتدائی مراحل کے دو میچ جیتنے میں
کامیاب رہی اور اس نے اکتوبر میں ارجنٹائن کے شہر بوئنس ایرز میںمنعقد ہونے
والے سمر اولمپک 2018 میں جگہ بنالی۔
|