"کھلاڑی دوڑتے رہے، تنخواہیں آگے نکل گئیں" میدان خالی ‘ دفتر بھاری



ایبٹ آباد کے کھیلوں کے دفتر کی تازہ رپورٹ دیکھ کر دل خوش بھی ہوا اور دکھی بھی۔ خوش اس لیے کہ کھیلوں پر لاکھوں روپے خرچ ہوئے، اور دکھی اس لیے کہ کھیلوں سے زیادہ خرچہ ان ملازمین پر ہوا جو کھیلتے نہیں بلکہ کاغذی گیند اور بجٹ کی بیٹنگ کرتے ہیں۔

سال 2023-24 میں کھیلوں کے لیے 38 لاکھ روپے رکھے گئے اور سارا خرچ بھی ہوگیا۔ یعنی بقول دفتر، پورا بجٹ کھیلوں پر لگ گیا۔ خدا جانے پانی کی بوتلیں اتنی مہنگی ہوگئیں یا پھر ریفری کو وارنش پلائی گئی کہ سارا بجٹ صاف ہوگیا۔ اگلے سال کھیلوں کا بجٹ کم کر کے صرف 30 لاکھ روپے کر دیا گیا۔ شاید حکام کو لگا کہ زیادہ کھیل کھیلنے سے بجٹ کو بھی تھکن ہوگئی ہے۔

اب ذرا تنخواہوں کا منظر نامہ دیکھیے۔ پچھلے سال ملازمین کی تنخواہوں پر ایک کروڑ 25 لاکھ 23 ہزار روپے رکھے گئے تھے۔ اور اس سال یہ بڑھ کر ایک کروڑ 37 لاکھ 70 ہزار روپے ہوگئے۔ یوں لگتا ہے جیسے کھیلوں کا اصل میدان دفتر کی کرسیاں ہیں جہاں ملازمین فائلوں کے ساتھ کشتی لڑتے ہیں۔

کل ملازمین ہیں 19۔ اب اگر ان پر ہونے والا خرچ نکالیں تو فی ملازم سالانہ اوسطاً 7 لاکھ روپے سے زیادہ بنتا ہے۔ دوسری طرف کھیلوں کی سرگرمیوں پر اوسطاً فی ایونٹ صرف 90 ہزار روپے۔ اب آپ ہی بتائیے: زیادہ قیمتی کون ہوا؟ کھلاڑی یا دفتر کا ملازم؟

دستاویز میں بڑے فخر سے یہ بھی لکھا ہے کہ کھیل کن جگہوں پر ہوئے۔ ہاکی اسٹیڈیم، کنج گراونڈ، سٹی اسپورٹس کمپلیکس، حویلیاں کا گراو¿نڈ اور نواں شہر کا میدان۔ سننے میں تو لگتا ہے کہ یہ میدانوں میں رونق ہوگی، مگر حقیقت یہ ہے کہ اکثر جگہوں پر کھلاڑیوں کے بجائے بکریاں زیادہ ورزش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر بھی "کمال" کارکردگی رہی۔ کہا گیا کہ قومی کھیلوں اور اسپیشل اولمپکس 2024 کے کھلاڑیوں کو کیش پرائز دیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ انعامات کے اصل اعداد و شمار کبھی سامنے نہیں آتے۔ ہمارے ہاں اکثر کیش پرائز خبر کی حد تک ہوتے ہیں اور کھلاڑی کی جیب تک پہنچتے پہنچتے "کٹ" کر لیتے ہیں۔

اصل سوال یہ ہے کہ جب کھیلوں کا بجٹ کم اور تنخواہوں کا بجٹ زیادہ ہے تو آخر کھیلوں کے دفتر میں کام کیا ہوتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ کھیلوں کے نام پر وہاں "آفس چیئر کرکٹ" ہوتی ہو؟ صبح آفس کی کرسی پر بیٹھنے والے ملازم کو "اوپنر" سمجھا جاتا ہو اور شام تک فائلوں میں بجٹ غائب کرنے والا "میچ ونر" ٹھہرتا ہو۔

یہی وجہ ہے کہ ایبٹ آباد کے کھلاڑی اب شکایت کرتے ہیں کہ کھیلوں کے بجٹ سے زیادہ بجٹ کرسیوں پر بیٹھنے والوں پر لگ رہا ہے۔ اگر یہی حال رہا تو آنے والے دنوں میں "نیشنل گیمز" کی جگہ "نیشنل چیئر گیمز" ہوں گے۔ پہلا مقابلہ ہوگا: کون زیادہ دیر کرسی پر بیٹھ سکتا ہے؟ دوسرا: فائلوں سے بجٹ کیسے غائب کیا جائے؟ اور تیسرا: کھلاڑیوں کو کم اور خود کو زیادہ کیسے دیا جائے؟

آخر میں کھلاڑیوں کی یہی فریاد سنائی دیتی ہے:"ہمارے لیے گراونڈ خالی، بجٹ خالی… مگر تنخواہیں جیب والی!"

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 754 Articles with 618416 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More