ایک ایسے وقت میں جب دنیا بدستور عالمگیر وبا سے نبرد
آزما ہے اور متغیر وائرس اومی کرون نے انسداد وبا کو شدید چیلنجز سے دوچار
کر دیا ہے ، چین میں وبا کی روک تھام و کنٹرول کے بہترین اقدامات کے تحت
بیجنگ سرمائی اولمپکس اور پیرا اولمپکس کے لیے تمام تیاریوں کو حتمی شکل دے
دی گئی ہے اور دنیا بھر میں شائقین سرمائی کھیلوں سے محظوظ ہونے کو بے تاب
ہیں۔ سرمائی گیمز چین کے دارالحکومت بیجنگ کے علاوہ دیگر دو شہروں یان
چھینگ اور چانگ جا کھو میں بھی منعقد ہوں گی۔ ان تینوں شہروں میں جدید
سہولیات سے آراستہ سرمائی اولمپک ویلجز قائم کیے گئے ہیں جو کھلاڑیوں،
کوچز اور عہدیداروں کے علاوہ میڈیا نمائندگان اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو
خدمات فراہم کریں گے۔
وبائی صورتحال کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے بیجنگ سرمائی اولمپکس 2022 کے
کامیاب انعقاد سے دنیا کو امید، ہمت، امن اور اتحاد کا ایک مثبت توانا
پیغام جائے گا۔ویسے بھی وبا نے دنیا پر ثابت کیا ہے کہ آج کے عالمگیریت کے
دور میں تمام ممالک کے مفادات ایک دوسرے سے قریبی جڑے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی
ملک تنہا نہ تو سنگین بحرانوں اور چیلنجز سے نمٹ سکتا ہے اور نہ ہی دنیا سے
کٹ کر اپنی بقا برقرار رکھ سکتا ہے۔دنیا کے پاس اتحاد اور تعاون ہی واحد
درست انتخاب ہے جس کی بنیاد پر آگے بڑھا جا سکتا ہے۔
اولمپک مقابلوں کی جانب دوبارہ آئیں تو یہاں بھی کھلے پن اور شائستہ رویوں
کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کیونکہ ایک جانب چین میں سرمائی گیمز
کی شروعات کا 100روزہ کاونٹ ڈاون جاری ہے اور ایتھلیٹس اپنی مہارت دکھانے
کو بے تاب ہیں تو دوسری جانب مغربی سیاست دانوں کی ایک اقلیت نے ان مقابلوں
کے سفارتی بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے جو نہ صرف اولمپک اقدار کی خلاف ورزی
ہے بلکہ اولمپک تحریک کی روح سے بھی متصادم ہے۔
اولمپک تحریک تو کھیل کے ذریعے بنی نوع انسان کے پرامن سماج ،ہم آہنگی ،باہمی
احترام اور مساوی دنیا کے تصورات کو فروغ دیتی ہے ۔ یہ کھیلوں کا سب سے بڑا
ایونٹ کہلاتا ہے جس میں دنیا بھر سے کھلاڑیوں کا اکٹھ ہوتا ہے اور متنوع
ثقافتوں کی عمدہ ترجمانی کی جاتی ہے۔تاریخ پر نظر ڈالیں تو اولمپک تحریک
ہمیشہ جنگ مخالف سرگرمیوں سمیت، امن اور غیر سیاسیات سے وابستہ رہی ہے۔ یوں
امن اور دوستی اولمپک کھیلوں کی فطری نوعیت بن چکی ہے جسے گزرتے وقت کے
ساتھ مزید فروغ مل رہا ہے۔
جدید اولمپکس کی شروعات کے بعد گزشتہ 100 سالوں کے دوران، اولمپک چارٹر میں
ترامیم کے باوجود اولمپک کھیلوں کے بنیادی اصول اور بنیادی اقدار بدستور
برقرار ہیں، جو اس بات کا واضح مظہر ہے کہ اولمپک کا مقصد کھیل کو انسانی
وقار کے تحفظ سے جوڑتے ہوئے اسے ایک پرامن معاشرے کو فروغ دینے کی متحرک
قوت کی صورت میں آگے بڑھانا ہے۔اولمپک چارٹر میں مزید وضاحت کی گئی ہے کہ
اولمپک تحریک کے دائرہ کار میں کھیلوں کی تنظیمیں سیاسی غیر جانبداری کا
اطلاق کریں گی، اور کسی بھی سیاسی یا تجارتی مقاصد کے لیے کھیلوں اور
کھلاڑیوں کے غلط استعمال کی مخالفت کریں گی۔ویسے بھی کھیل بالخصوص اولمپک
گیمز کو تو اپنی وسعت کے اعتبار سے ایک نمونہ قرار دیا جاتا ہے ، جہاں
افراد، قومیں، کھلاڑی اور ٹیمیں بغیر کسی امتیاز کے حصہ لیتے ہیں اور نسل،
رنگ، جنس، زبان، مذہب، سیاست یا دیگر امور کو بالائے طاق رکھ کر مقابلوں
میں شریک ہوا جاتا ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ کھیل اپنی نوعیت کے لحاظ سے تو
مسابقتی ہو سکتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ایک ایسا طاقتور ہتھیار ہے
جسے بات چیت ، امن اور مفاہمت کو فروغ دینے کے لیے موئثر طور پر استعمال
میں لایا جا سکتا ہے۔دنیا میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں دنیا کے
مختلف ممالک کے درمیان "اسپورٹس ڈپلومیسی" سے عمدہ نتائج حاصل ہوئے ہیں اور
کئی تنازعات سے بچا گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ چند مغربی سیاست دانوں کی جانب سے بیجنگ سرمائی اولمپکس 2022
کے سفارتی بائیکاٹ کے مطالبے کو اولمپک تحریک سے محبت کرنے والوں اور امن
کی چاہت رکھنے والوں نے مسترد کر دیا ہے اور ایسے اقدام پر کھل کر تنقید
بھی کی گئی ہے۔ورلڈ ایتھلیٹکس کے صدر سیباسٹین کوئے نے کہا کہ بیجنگ سرمائی
اولمپکس کا سفارتی بائیکاٹ صرف "ایک بے مقصد اشارہ" کے طور پر کام کرے گا
اور آئندہ کھیلوں کے حوالے سے "انتہائی نقصان دہ" ثابت ہوگا۔اس کے علاوہ
کھیلوں سے وابستہ متعدد عالمی شخصیات نے ایسے کسی بھی اقدام کو مسترد کرتے
ہوئے اصرار کیا کہ "سیاسی حالات کو کھیل سے نہ ملایا جائے۔"
دور حاضر میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کھیل پرامن ترقی کو فروغ دینے کا ایک
موثر ذریعہ ہے۔ اقوام متحدہ کا 2030 کا پائیدار ترقیاتی ایجنڈا کھیل کی
اہمیت اور شراکت کو تسلیم کرتے ہوئے کہتا ہے کہ "کھیل پائیدار ترقی کا ایک
اہم معاون ہے۔ ہم ترقی و امن کے حصول اور رواداری و احترام کے فروغ میں
کھیل کے بڑھتے ہوئے کردار کو تسلیم کرتے ہیں"۔
آج وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ایک تعمیری انسانی معاشرے کی تشکیل میں
کھلے رویوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کھیل کو اپنا کردار ادا کرنے دیا جائے۔
دنیا بھر کے کھلاڑی چاہتے ہیں کہ بھرپور عزم اور حوصلے سے مشکلات پر قابو
پاتے ہوئے اپنے خوابوں اور امیدوں کو پورا کریں۔ اس ضمن میں سفارتی بائیکاٹ
جیسی سرگرمیاں اولمپک ایتھلیٹس کی حوصلہ شکنی سمیت عالمی ترقی کے رجحان کے
بھی خلاف ہے۔
|