بچوں پر سرمایہ کاری۔۔ چند اہم پہلو!!

 کیا حضرت انسان کا سب سے قیمتی اثاثہ ا س کے بچے نہیں ہیں؟ بظاہر تویہ سوال نہیں بنتا، کیونکہ یقینا انسان کی سب سے قیمتی متاع یہ بچے ہی ہیں، مگر ہمارا عمل ہمارے دعوے پر مہرِ تصدیق ثبت کرنے سے قاصر ہے۔ بچوں کے عالمی دن کے موقع پر اس سال یہ دن ’’اپنے بچوں پر سرمایہ کاری، بہتر مستقبل کی ضمانت‘‘کے تھیم کے تحت منایا گیا۔ اپنے ہاں ہر کوئی اپنے انداز سے اپنے بچوں پر ’’سرمایہ کاری‘‘ کرتا اور اپنے تئیں خود کو مطمئن کر لیتا ہے۔ اپنی حیثیت کے مطابق (بسا اوقات اُس سے بھی بڑھ کر) اچھے سکول میں بچے کو داخل کروایا جاتا ہے، ایسی ’سرمایہ کاری‘ عموماً ’سرمایہ داری‘ کا روپ دھار لیتی ہے۔ دکھاوے کے لئے بھاری فیس والے سکول کا انتخاب کیا جاتا ہے تاکہ معاشرے میں ناک اونچی رہے، پھر اچھی اکیڈمی یا مہنگی ٹیوشن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں، جن کی مالی حالت بہت کمزور ہوتی ہے، اور وہ اس راز کو جان چکے ہیں کہ ہم نے جیسے کیسے گزار دی اب بچوں کا مستقبل تابناک ہو جائے، وہ اپنا پیٹ کاٹ کر(اور زیور بیچ کر ) بھی بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ غربت کی نام نہاد لکیر سے نیچے ایسے گھرانے بھی ہیں جو بچوں کی تعلیم سے نہ صرف بے نیاز ہیں بلکہ اسے غیر ضروری جانتے ہوئے بچوں کو معاشی معاملات میں اپنا معاون بنا لیتے ہیں، یوں جن بچوں نے پڑھ لکھ کر سُود مند شہری بننا ہوتا ہے، وہ اپنی تمام معصومیت سے محروم ہو کر ’’ہنرمندی‘‘ کے گرداب میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔

کیا اپنی دولت اپنی اولاد پر لُٹا دینے سے سرمایہ کاری کا حق ادا ہو جاتا ہے؟ یا پیٹ کاٹ کر اور زیور بیچ کر اولاد پر لگا دینے سے کام پورا ہوگیا؟ شاید ایک اور قیمتی چیز بھی ہے، جو والدین میں سے بہت ہی کم لوگ اپنی اولاد کو دیتے ہیں، یا یوں کہیے کہ اس کا صحیح حق کوئی کوئی ادا کرتا ہے۔ وہ ہے ’’وقت‘‘، بچوں پر پیسوں کی سرمایہ کاری کے لئے تو اکثر والدین خم ٹھونک کر میدان میں ہیں، مگر وقت کی سرمایہ کاری کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ والدین کا وقت حاصل نہ کرسکنے والے بچوں کے ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں کوئی کمی یا محرومی ضرور رہ جاتی ہے۔ کتنے فیصد والدین ہیں جو اپنے بچوں کی سکول کی سرگرمی پر روزانہ کی بنیاد پر نگاہ ڈالتے ہیں، اُن کی تعلیمی مصروفیات کا جائزہ لیتے ہیں، کمی کوتاہی وغیرہ کی صورت میں سکول سے رابطہ کرتے ہیں؟ یقینا آٹے میں نمک کے برابر۔

بچوں کی تربیت میں سب سے اہم کردار والدین کا ہے، والدین کی ایک بڑی تعداد سکول تو جاتی ہے،مگر صرف جھگڑا کرنے، اپنا مسئلہ بیان کرنے میں بھی جذبات کا مصالحہ ڈالناکبھی نہیں بھولتی۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا کی بچے کی معمولی شکایت پر والدین لٹھ اٹھائے سکول پہنچ گئے، اور یکطرفہ فیصلہ سناتے ہوئے سکول انتظامیہ پر چڑھائی کردی، انہیں کوسنا شروع کر دیا، مجمع بندھ گیا، تماشا لگ گیا، کئی دوسرے بھی جذبات کی رو میں بہہ کر ہمنوا ہو لئے، یوں بچے کی تربیت کرنے والا ایک اہم فریق معتوب ٹھہرا، استاد کو سرِ بازار رُسوا کر کے فتح کر پرچم لہراتے والد صاحب گھر لوٹتے ہیں، اور تادیر اپنے کارنامے پر فخر کرتے ہیں۔ مگر اپنے عمل سے بچے کے ذہن میں استاد سے نفرت اور بے عزتی کا جو بیج وہ بو آتے ہیں، وہ زندگی بھرثمر آور ہوتا رہتا ہے۔ معاشرے سے استاد کی عزت قصہ پارینہ ہو چکی ہے، بچے کی تعلیم وتربیت کے لئے والدین اور استاد کو مل کر لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے تھا، اگر یہ دو پارٹیاں ہی باہم دست وگریباں ہو جائیں گی، تو بچے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، دو ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان بچوں کا ہی ہوتا ہے۔

بچوں کی تربیت بہترین سرمایہ کاری ہے، جس کا بڑا فقدان پایا جاتا ہے، بچوں کی والدین کے ساتھ بے تکلفی تو حد سے بڑھ چکی ہے، مگر طاقِ نسیاں پر رکھی تربیت مصروفیت کی گرد میں دب کر رہ گئی ہے۔ اپنی حیثیت کے مطابق تعلیم دلوانے والے والدین بچے کے سکول سے کم ہی مطمئن دکھائی دیتے ہیں، کتابوں کی دکان پر چلے جائیں، والدین کی سکول والوں کو بھیجی گئی صلواتیں سننے کو وافر مقدار میں دستیاب ہوتی ہیں۔ کوئی وقت تھا جب سکول سرکاری ہی تھے، مار پٹائی کا رواج بھی عام تھا، کبھی کسی مہم کے تحت سکول میں صفائی وغیرہ بھی کروا لی جاتی تھی، مگر استاد کا بے حد احترام تھا، اس کے خاتمے میں والدین کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ جب تک والدین اور اساتذہ ایک دوسرے کے خلاف جنگ بندی کا عملی مظاہرہ نہیں کرتے ، اپنی تلواریں نیاموں میں نہیں ڈالتے، اس وقت تک بچے کے بہتر شہری بننے کے امکانات بھی مخدوش ہی رہیں گے، یوں والدین کی صرف دولت کی سرمایہ کاری بچے کے مستقبل کو بہتر نہیں کر سکتی۔

بچوں کو لازمی تعلیم کا حکومتی فریضہ دعووں اور نعروں سے آگے نہیں بڑھ رہا، تعلیم ہر حکومت کی اولین ترجیح ہوتی ہے، مگر صرف منشور ، دکھاوے اور نعرے کی حد تک۔ اس جدید دور میں بھی کروڑوں بچے تعلیم کے بنیادی حق سے ہی محروم ہیں،حکومتیں سکول سے باہر بچوں کو سکولوں میں داخلے کی مہمات چلاکر وسائل کا ضیاع کرتی اور انہی وسائل سے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا کام لیتی ہیں۔ کم از کم دو دہائیوں سے اپنی شرح خواندگی میں اضافہ دکھائی نہیں دیتا، سکولوں میں داخلے کے عملی مناظر دھندلا کر رہ گئے ہیں، بلکہ سموگ زدہ ہو چکے ہیں۔ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن حکومتِ پنجاب کا ایک خود مختار اور نیک نام ادارہ ہے۔ گزشتہ سات برس سے فی کس بچے کی مد میں ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں کیا گیا، پرائمری میں ساڑھے پانچ سو اور مڈل میں چھ سو روپے ادا کئے جاتے ہیں، اتنی کم فیس میں معیار پر بھی کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ اتنی تھوڑی فیس میں سکول کا نظام چلانا بھی ناممکن ہو رہا ہے۔ کیا یہ حکومتی رویہ تعلیم کو اولین ترجیح قرار دینے کے دعوے کی نفی نہیں ؟ بچوں کا عالمی دن مناتے ہوئے اس ضمن میں کیا اربابِ اختیار دل پر ہاتھ رکھ کر اظہارِ اطمینان کر سکتے ہیں؟
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428036 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.