پرائیویٹ سکول ٹیچر۔۔۔ بے بسی کی تصویر

تحریر: سیّدہ منیب حجاب بُخاری (اسلام آباد)
یہ تو آپ سب نے سنا ہے کے علم بڑی دولت ہے۔ جی ہاں دولت ہے مگر پرائیویٹ اسکول مالکان کے لیے۔کرونا کا رونا رو رو کر بے چارے مجبور ملازمین کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں۔جی کہتے ہیں کہ گورنمنٹ آف پاکستان نے تعلیم کا بیڑا غرق کر رکھا ہے جبکہ پرائیویٹ اسکول کے مالکان خود کیا کر رہے ہیں؟ کوئی انکو آئینہ تو خرید دو۔ ہو سکتا ہے آئینہ دیکھ کر پرائیویٹ اسکول مالکان اپنی حقیقت سے روشناس ہو جائیں مگر ۔۔۔۔۔
شرم بھی تو انکو آتی ہے نہ جی؟
جن میں تھوڑی سی مروت باقی ہو۔

یہ پرائیویٹ اسکول مالکان تو احساس سے عاری ہیں۔آپ صبح اسکول ذرا دیر سے جا کر دیکھیں آپکی ایک دِن کی آدھی تنخوا کاٹ دی جائے گی لیکن آپ اسکول کے کِسی کام کی وجہ سے رات دس بجے گھر لوٹ کر آؤ توآپکو کبھی اضافی تنخوا نہیں دی جائے گی کہ آپ دیر سے گھر گئے۔آپ نے اپنا وقت دیا۔

ارے ہمارے زمانے میں اُستاد کی جو عزت تھی۔ جو احترام تھا۔ وہ تو ان پرائیویٹ اسکول والوں نے ختم ہی کر ڈالا۔پرائیویٹ اسکول کا طالب علم بیشک اُستاد کی کتے سی کر دے۔مگر اُستاد خاموش رہے گا۔ لب نہ ہلائیگا اس لیے کہ انکا وہ امیر زادہ طالب علم کہیں سکول نہ چھوڑ جائے۔جی اُستاد نے ایڈمیشن بچا کر رکھنے ہیں۔ اپنی کی عزت نہیں بچانی۔اوپر سے یہ ظُلم ایک جماعت میں پرلے درجے کے نا لائق، بدتمیز، امیر، تیس، پینتیس بچے جنہیں اُستاد نے صرف کام کروانا ہے۔اُستاد نے اخلاقیات سکھانے کی کوشش کی اُستاد کو سکول سے در بدر کر دیا جائے گا۔اُستاد نے وہی کلاس میں کھڑے ہو کر کام کروانا ہے۔غلطی خود ربڑ سے مٹا کر درست کرنی ہے۔اور پھر ری چیکنگ میں اُستاد کی کوئی غلطی نکل آئے تو بے چارے استاد کی ایک ایک غلطی پر کٹوتی ہوتی ہے۔میں نے تو اکثر پرائیویٹ اسکول میں صبح سات بجے سے لے کر دن تین بجے تک کام کرنے والی فی میل ٹیچرز کو ماہانہ 3500 یا 4000 ہزار اُجرت لیتے دیکھا ہے ۔دل خون کے آنسو روتا ہے۔تنی کم ماہانہ اُجرت تو مزدور کی بھی نہیں ہوتی۔اُستاد تو پھر قوم کا محسن ہوتا ہے اور پرائیویٹ اسکول کے مالک کو امیر سے امیر تر کرنے والا بے چارہ بے زبان مظلوم۔اُستاد کو گرمیوں کی اور سردیوں کی چھٹیاں اپنے لیے عذاب لگتی ہیں اس لیے کہ بے چارے کو اُجرت نہیں ملتی۔یہ ظلم کم نہیں تھا کہ کرونا آ گیا۔ پرائیویٹ اسکول والوں نے کرونا کے دنوں میں بچوں سے تو فیس لے کر اپنے خزانے لبالب بھر دیئے۔ مگر اُستاد کو چھوٹا سا منہ بنا کر کہا۔ اسکول بند ہیں۔ بچے آتے نہیں۔ ہم خود بھوکے مر رہے ہیں۔آپکو کہا سے اُجرت دیں۔؟اس مُشکِل وقت میں ہمارا ساتھ دیں۔دکھ تو ہزاروں ہیں۔میں بیاں بھی کر دوں توکیا میری کوئی سنے گا؟کوئی پوچھے ان پرائیویٹ اسکول کے مالکان سے اتنی دولت کہاں لے کر جاؤ گے؟کیا کفن میں جیب ہوتی ہے؟اُستاد کو عزت دو۔ دولت کی عبادت کرنا چھوڑ دو۔کم ازکم اُستاد کو اتنی اُجرت تو دو کہ وہ کسی کو بتاتے ھوئے شرمندہ نہ ہو
 

Assia Muneer
About the Author: Assia Muneer Read More Articles by Assia Muneer: 28 Articles with 26843 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.