مَسئلہِ نَبوت و خَتمِ نبوت

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 41 ، 42 {{{{{{{ اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یایھا
الذین اٰمنوا
اذکروااللہ ذکرا
کثیرا 41 وسبحوہ
بکرة واصیلا 42
اے زمین میں اَمن و سلامتی لانے اور زمین سے اَمن و سلامتی پانے والے انسانو ! اللہ نے اپنی اِس کتابِ نازلہ میں تُمہارے لیۓ اپنے جو اَحکام نازل کیۓ ہیں اُن اَحکام کو تُم نے ہر ایک دن کی صُبح سے لے کر ہر ایک دن کی شام تک اپنے قول و عمل میں لانا ھے اور پھر اپنے اُِس قول و عمل کو بار بار دُھرانا ھے تاکہ تُم اِن اَحکامِ نازلہ کے اتنے عادی ہو جاؤ کہ تُمہاری حیات کی ہر نقل و حرکت اِس طرح سے اِس کے اِس نَظم میں آجاۓ کہ تُمہاری بزمِ حیات ایک مُکمل نظمِ حیات بن جاۓ !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کا یہ مُختصر اور جامع مضمون قُرآنِ کریم کے اُن اَحکامِ نازلہ پر نازل ہونے والا وہ اظہارِ تشکر و اظہارِ ترغیبِ تشکر ھے جو اِس کتابِ نازلہ کے اُن اَحکام پر اظہارِ احسان و امتنان کے لیۓ لایا گیا ھے جو اَحکام اِس مُحکم مضمون سے پہلے بیان کیۓ جا چکے ہیں اور جو اَحکام اِس مُحکم مضمون کے بعد بھی بیان کیۓ جا رھے ہیں ، اِس حُکمِ احسان و امتنان کا مقصد اِس کتاب کے ہر ایک مُتعلم کو اللہ تعالٰی کے اِس فیصلے سے آگاہ کرنا ھے کہ اَزل کی پہلی ساعت سے لے کر اَب تک قُرآن کے جو جو مُعلّم وقتا فوقتا اللہ تعالٰی کے حُکم سے اِس جہان میں تشریف لاتے رھے ہیں اُن سب کے بعد اللہ تعالٰی نے اپنے اُس اَزلی فیصلے کا اعلان کر دیا ھے کہ اہلِ جہان کے لیۓ اُس کے نازل کیۓ گۓ اُس قُرآن کی تنزیل مُکمل ہو چکی ھے جس نے اُس کی ذاتی حفاظت کے ساتھ قیامت تک محفوظ رہنا ھے اِس لیۓ تَکمیلِ قُرآن کے اِس غیر معمولی واقعے کے بعد اللہ تعالٰی قُرآن کی تعلیم کے لیۓ اب تک اپنے جو مُعلّم بھی دُنیا میں مامُور کرتا رہا ھے قُرآن کی اِس آخری تنزیل کے بعد اَب اُس نے اُن مُعلمینِ ھدایت کا سلسلہ ہمیشہ کے لیۓ بند کر دیا ھے اور اُس کے اِس فیصلے کے مطابق اُس نے اِس بار اپنے جس مُعلّم پر قُرآن نازل کیا ھے اُس نے اُس مُعلّم کو قُرآن کا آخری مُعلّم اور اِس جہان کا آخری نبی قرار دیا ھے اِس لیۓ اللہ تعالٰی کے اِس اعلان اور اُس کے اِس مُعلّمِ جہان کے بعد اَب جہان میں صرف اور صرف قُرآن نے موجُود رہنا ھے ، اہلِ جہان نے قیامت تک اِس قُرآن ہی کو پڑھنا ھے ، اِس قُرآن ہی کو پڑھانا ھے ، اِس قُرآن ہی کو سمجھنا ھے ، اِس قُران ہی کو سمجھانا ھے اور اِس قُرآن پر ہی خود عمل کرانا اور دُوسرو سے عمل کرانا ھے ، قُرآنِ کریم کے اِس مضمون کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیۓ کلامِ عرب میں ایک لفظ خاتِم تاۓ مکسور کے ساتھ آتا ھے جو ایک اسمِ فاعل ھے اور اِس محلِ وقوع کے اعتبار سے بظاہر اِس محلِ وقوع پر اِس مفہوم کی ادائگی کے لیۓ اِس اسمِ فاعل خاتِم کا استعمال ہی زیادہ موزوں نظر آتا ھے لیکن اِس کے اِس استعمال میں یہ اَمر مانع ھے کہ اگر اِس مقام پر اِس فعل کا فاعل سیدنا محمد علیہ السلام کو بنا دیا جاۓ گا تو اِس سے اللہ تعالٰی کے فاعلِ حقیقی ہونے کی نفی ہو جاۓ گی اور سیدنا محمد علیہ السلام کے فاعلِ حقیقی ہونے کا اِثبات ہوجاۓ گا اور اِس سے قُرآن کی جُملہ تعلیمات کی بھی نفی ہو جاۓ گی اِس لیۓ اِس مقام پر اِس لفظِ خاتِم کے بجاۓ اُس لفظِ خاتَم کا لفظ استعمال کیا گیا ھے جو تاۓ مفتوح کے ساتھ آتا ھے ، لفظِ خاتَم ایک اسمِ آلہ ھے اور اِس خاتَم کا مصدر وہ لفظِ ختم ھے جس لفظِ ختم کا صلہِ کلام { ختم اللہ علٰی قلوبھم } کی طرح حرفِ علٰی آتا ھے تو اِس ختم سے مُراد وہ آلہِ مُہر ہوتا ھے جس سے جس دروازے کو بند کر کے سر بمُہر کر دیا جاتا ھے اور اِس مقام پر اِس کا صلہ چونکہ علٰی نہیں ھے اِس لیۓ اِس کا معنٰی بھی مُہر نہیں ھے لیکن اگر اِس مقام پر اِس اَمر کے باوجُود بھی اِس کا معنٰی مُہر مان لیا جاۓ تو اِس مُہر سے وہ قانونی مُہر مُراد ہو گی جو کسی دروازے کو بند کر کے اِس طرح اُس پر لگادی جاتی ھے کہ اِس مُہر کے لگ جانے کے بعد کوئی بھی اُس دروازے کی اُس مُہر کو توڑ کر اُس کے اندر نہیں جا سکتا اور کوئی بھی اِس سے باہر نہیں آسکتا لیکن خاتَم کا یہی لفظ جب نبییٖن کے ساتھ آتا ھے اور اِس سے خاتم النییٖن کا جو مُرکب توصیفی بن جاتا ھے تو اِس مُرکب توصیفی سے اِس خاتَم کا مفہوم مُجرد ختم کے مفہوم سے کہیں زیادہ مؤثر ہو جاتا ھے اِس لیۓ کہ نبوت کا جو دروازہ لفظ خاتَم کے ساتھ بند کر کے سربمُہر کردیا جاتا ھے تو اُس دروازے کے سرنمُہر ہونے کے بعد کوئی قدیم حقیقی نبی بھی اُس دروازے سے نکل کر باہر نہیں آسکتا اور کوئی جدید جعلی نبی بھی اُس دروازے سے گزر کر اندر نہیں جا سکتا ، اٰیاتِ بالا میں اللہ تعالٰی نے اپنے اسی احسان پر انسان کو تشکر و امتنان کا حُکم دیا ھے ، کیونکہ جب تک نبوت کے بارے میں اللہ تعالٰی نے یہ اعلان نہیں کیا تھا تو اُس وقت انسان کے لیۓ بہر حال یہ فیصلہ کرنا ایک اَمرِ مُشکل ہوتا تھا کہ جو انسان اُس کے پاس اپنی نبوت کا دعوٰی لے کر آیا ھے خُدا ہی جانے کہ اُس کا یہ دعوٰی سچا ھے یا جھوٹا ھے لیکن اِس اعلانِ خاتم النبییٖن کے بعد انسان پر یہ اَمر کلیتہً واضح ہو گیا ھے کہ اللہ تعالٰی کے اِس اعلان کے بعد جو انسان بھی نبوت کا دعوٰی لے کر آتا ھے وہ ایک جھوٹا انسان ہوتا ھے اسی لیۓ نبیوں کی اُس بندش کے بعد انسان کو اِس اَمر کی تلقین کی گئی ھے کہ وہ ہمہ وقت سیدنا محمد علیہ السلام کے آخری نبی اور قُرآن کے آخری کتاب ہونے کے اِسی قُرآنی نظریۓ کے ساتھ جُڑا رھے تاکہ کوئی گم راہ انسان اُس کے پاس آکر اُس کو گم رہ نہ کر سکے ، خاتَم اور خاتِم کے اِس مُسلمہ علمی و عقلی فرق کے بعد بھی جو لوگ اِس مُہر کو کسی شخص یا شخصیت کے کردار و عمل پر ثبت کی جانے والی بنک یا ڈاک خانے کی ایک مُہر سمجھتے ہیں تو وہ اِس دُنیا کے وہ اَحمق ترین لوگ ہیں جو اپنی اُس خیالی قید میں رہتے ہیں جس خیالی قید میں اُن کو اتنی سی بات بھی سوچنے اور سمجھنے کا بھی موقع نہیں ملتا کہ آخر اللہ تعالٰی کو اِس بات کی کیا ضرورت تھی کہ وہ دُنیا سے حقیقی نبوت کا سلسلہ بند کر کے دُنیا میں ایک ایسی جعلی اور مُہر کی ایک تابعِ مُہمل نبوت کا سلسلہ چلا دیتا کہ جس سلسلے میں آنے والے ہر نبی کی عُمر اپنی اُس خیالی مُہر کو تلاش اور ثابت کرنے میں گزر جاتی جس خیالی مُہر کا اُس کے خیال سے باہر کوئی وجُود ہی موجُود نہ ہوتا !!

 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 470104 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More