قُرآنی اَحکام اور انسانی اَوہام !! { 2 }

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 43 ، 44 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ھو
الذی یصلّی
علیکم و ملٰئکته
لیخرجکم من الظلمٰت
الی النور وکان بالمؤمنین
رحیما 43 تحیتھم یوم یلقونه
سلٰم وا عد لھم اجرا کریما 44
اللہ تُم کو اپنے جو اَحکام بجا لانے کا حُکم دے چکا ھے اور تُم کو جو اَحکام بجالانے کا حُکم دے رہا ھے اگر تُم اللہ کے اُن تمام اَحکام کو ہمیشہ بجالاتے رہو گے تو اللہ اور اُس کے ملائکہ نے اِس وقت تُم کو استقامت علی الحق کا جو حوصلہ دیا ہوا ھے اِس کے بعد بھی وہ تُم کو ہمیشہ استقامت علی الحق کا یہی حوصلہ دیتے رہیں گے تاکہ تُم جہالت کے اندھیروں سے نکل کر ہمیشہ کے لیۓ اللہ کے اُس علمِ ھدایت کی روشنی میں آؤ اور اُسی علمِ ھدایت کی روشنی میں رہ جاؤ جس علمِ ھدایت کی روشنی اُس نے تُم کو اِس کتابِ ھدایت کی صورت میں دی ہوئی ھے کیونکہ اللہ تُم پر اپنی جو رحمت و مہربانی ہمیشہ سے کرتا رہا ھے وہ اپنی وہ رحمت و مہربانی تُم پر ہمیشہ کے لیۓ کرنا چاہتا ھے اِس لیۓ تُم میں سے جو لوگ بھی اللہ کے اِن تمام اَحکام کی پیروی کریں گے اُن تمام لوگوں کو اُس روز کی اُس رحمت و مہربانی سے نوازا جاۓ گا جس روز وہ اللہ کے سامنے پیش ہو کر اپنے اعمالِ خیر و شر کی جزا و سزا پائیں گے اور اُس روز اُن سب کو اُن کی حیات افروزی اور سلامتیِ حیات کی بشارت دی جاۓ گی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کی اِن سطور سے پہلے اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت کے تیسرے لفظ "یصلّی" کے حوالے سے جس رائجِ زمانہ درُود کا ذکر ہوا ھے اُس رائجِ زمانہ درُود کے درُودِ تاج و درُودِ قادری اور درُودِ لکھی و درُودِ ہزارہ وغیرہ کے نام سے مشہور ہونے والے بہت سے چھوٹے بڑے درُود مشہور ہوۓ ہیں لیکن اُن سب میں جو درُود زیادہ مشہور ہواھے وہ درُودِ ابراہیمی ھے جو ہر روز کی ہر نماز کے ہر تشھد میں تحیہ کے بعد پڑھا جاتا ھے لیکن اُس درود کا ھم اِس سُورت کی اٰیت 50 کے مُتعلقہ مضمون میں ذکر کریں گے کیونکہ اِس وقت کے اِس موضوع کی اِن اٰیات میں سے دُوسری اٰیت میں جو پہلا لفظ تحیہ وارد ہوا ھے وہ نماز میں پڑھے جانے والے اُس درود سے پہلے پڑھا جاتا ھے اور ھمارے اِس سلسلہِ کلام میں جس حُسنِ اتفاق سے اُس کا ذکر پہلے آیا ھے اُسی حُسنِ اتفاق سے اُس کا ذکر بھی پہلے کیا جا رہا ھے ، تحیہ کا مادہ "حی" ھے جس کا معنٰی وہ دُعاۓ حیات اور وہ دُعاۓ سلامتیِ حیات ھے جو ایک انسان دُوسرے انسان کے لیۓ اپنے دل میں محسوس کرتا ھے اور اپنی زبان سے بھی اللہ تعالٰی کے سامنے اُس کا اظہار کرتا ھے ، یہ دُعاۓ تحیہ نماز کے اندر پڑھی جاۓ یا نماز سے باہر پڑھی جاۓ دونوں ہی صورتوں میں اِس کا وہی ایک معنٰی ھے جو سُورَةُالنساء کی اٰیت 86 ، سُورَہِ یُونس کی اٰیت 23 ، سُورَہِ نُور کی اٰیت 61 ، سُورةُالفرقان کی اٰیت 75 اور اِس سُورت کی اِس اٰیت میں اللہ تعالٰی نے بذاتِ خود انسان کی اِس دُعاۓ حیات کے لیۓ متعین کر دیا ھے جس دُعاۓ حیات کے ایک رُخ پر وہ محتاجِ حیات انسان ہوتا ھے جو دُوسرے مُحتاجِ حیات انسان کی سلامتیِ حیات کے لیۓ اللہ تعالٰی سے دُعا کر رہا ہوتا ھے تو دُوسرے رُخ پر وہ محتاجِ حیات انسان ہوتا ھے جس کے لیۓ وہ دُعا کی جا رہی ہوتی ھے اور تیسرے رُخ پر اللہ تعالٰی ہوتا ھے جو ان دونوں انسانوں کی ایک دُوسرے کے لیۓ کی جانے والی اُس دُعا کو سنتا ھے اور سننے کے بعد اپنی حکمت و مصلحت اور اپنی مشیت کے مطابق کبھی اُن کی اُس دُعا کو قبول کرتا ھے اور کبھی رَد بھی کردیتا ھے ، نماز میں جب یہ تحیہ پڑھا جاتا ھے تو اُس تحیہ کے چار لفظی دائروں میں سے پہلا لفظی دائرہ { التحیات للہ والصلوٰت والطیبات } ھے جس کا پہلا مُرکب لفظِ التحیات ھے جس کا معنٰی { حیاک اللہ } ھے اور اِس { حیاک اللہ } کا معنٰی یہ ھے کہ اللہ تعالٰی آپ کی عُمر دراز کرے ، درازیِ عُمر کے اِس پہلے دعائیہ مُرکب کے بعد اِس تحیہ کا دُوسرا لفظی مُرکب { الصلوٰت } ھے جو صلٰوة کی جمع ھے اور جس کا معنٰی دُعا ھے اور اِس کا تیسرا لفظی مُرکب { الطیبات } ھے اور اِن تین لفظی مُرکبات کے بارے میں اہل روایت کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالٰی اور سیدنا محمد علیہ السلام کے مابین مُنعقد ہونے والا وہ مُکالمہ ھے جو مکالمہ شبِ معراج میں نماز فرض ہونے سے پہلے ہوا ھے اور اِس مکالمے کے بعد نماز فرض ہوئی ھے اور چونکہ اِس روایت کے مطابق نماز کا حُکم اِس مکالمے کے بعد ہوا ھے اِس لیۓ اِس مقام پر اِس کا معنٰی نماز اِس لیۓ نہیں ھے کہ نماز کا حُکم اِس مکالمے کے بعد ہوا ھے اور چونکہ صلٰوة کا ایک معنٰی دُعا بھی ھے اِس لیۓ اِس مقام پر اِس صلٰوة کا موزوں تر معنٰی صرف اور صرف دُعا ھے ، اِس تحیہ کا جو تیسرا لفظی مُرکب { الطیبات } ھے وہ طیب کی جمع ھے جس سے حلال اور پاکیزہ چیزیں مُراد ہوتی ہیں اور دُعا کے اِن تین روایتی مُرکبات کا جو مَنطقی نتیجہ برآمد ہوتا ھے وہ یہ ھے کہ معراج کی شب جب نبی علیہ السلام نے اللہ تعالٰی کے ساتھ ملاقات کی تھی تو اُس وقت آپ نے اللہ تعالٰی کو درازیِ عُمر اور فراخیِ رزق کی یہ دُعا دی تھی جس کا اِس تحیہِ نماز میں ذکر ہوا ھے لیکن ظاہر ھے کہ یہ کلام و نتیجہ کلام دونوں ہی باطل ہیں اِس لیۓ کہ اللہ تعالٰی کی ذات ایک حی و قیوم ذات ھے اور اُس کی ذات اِن دعاؤں سے ایک بلند تر ذات ھے ، تحیہ کے اِس پہلے لفظی دائرے کے بعد اِس کا دُوسرا جوابی لفظی دائرہِ کلام { السلام علیک ایھاالنبی ورحمت اللہ و برکاته } ھے جس کا معنٰی یہ ھے کہ اے نبی ! تُجھ پر بھی اللہ کی طرف سے برکت و سلامتی اور رحمت و مہربانی ہو ، اہلِ روایت کہتے ہیں کہ تحیہ کا یہ پہلا دائرہِ کلام نبی علیہ السلام کی طرف سے اللہ تعالٰی کے سامنے پیش کیا گیا ایک بندگانہ نذرانہ ھے اور تحیہ کا دُوسرا دائرہِ کلام اللہ تعالٰی کی طرف سے اپنے نبی کو دیا گیا ایک حاکمانہ جواب ھے مگر تحیہ کا پہلا دائرہِ کلام اپنی لفظی ساخت کے اعتبار سے ایک فدویانہ سلام سے زیادہ ایک بزرگانہ دُعا ھے اور اگر اِس دُعا کے اِس جوابِ دُعا کو دیکھا جاۓ تو اِس کا حال بھی پہلے لفظی دائرہِ کلام سے کُچھ زیادہ مُختلف نہیں ھے کیونکہ اِس جواب میں اللہ تعالٰی کو بھی کسی دُوسرے اللہ کے حوالے سے نبی علیہ السلام پر حیات کی سلامتی اور رحمت کی درخواست کرتے ہوۓ دکھایا گیا ھے ، اِس بات کو اِس آسان سی مثال سے سمجھا جا سکتا ھے کہ جب ایک انسان ایک دُوسرے انسان کو سلام کرتا ھے تو کہتا ھے { السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاته } اور یہ انسان چونکہ خود اُس انسان کو سلامت رکھنے ، خود اُس پر مہربان ہونے یا خود اُس پر مہربان رہنے اور اُس کو اپنے خیال میں آنے والی کسی رحمت و برکت سے نوازنے کا اہل نہیں ہوتا اِس لیۓ وہ اللہ تعالٰی سے دُوسرے انسان کے لیۓ سلامتی اور برکت و رحمت کی استدعا کرتا ھے اور اسی لیۓ اپنی دُعا میں اللہ کا نام شامل کرتا ھے تاکہ وہ اپنے مخاطب کو اپنی اِس حسین دُعا کے ساتھ یہ یقین دلا سکے کہ ھم دونوں اپنی اپنی دُعا اور اپنے اپنے جوابِ دُعا میں جس عظیم ہستی کا نام لیتے ہیں وہ ھمارے خالق و مالک کی وہ عظیم ہستی ھے جو سب کی دعاؤں کو سننے کی صلاحیت اور قبول کرنے کی قُوت و قُدرت رکھتی ھے اِس لیۓ یہاں پر اِس سوال کا پیدا ہونا ایک قُدرتی اَمر ھے کہ اگر اللہ تعالٰی نے شبِ معراج میں ہونے والی اِس ملاقات کے دوران اپنے نبی پر اپنی رحمت و برکت اور مہربانی کا اظہار کیا ھے تو اُس نے اپنے اِس اظہارِ کلام میں اپنے اسمِ ذات اللہ کے ساتھ ایک دُوسری ذات کو اِس طرح کیوں ظاہر کیا ھے کہ اُس کے اِس اظہار سے اُس کی ذات کے اُوپر ایک دُوسری سپریم ذات کا موجُود ہونا بھی لازم ہو گیا ھے اور اِس تحیہ کا یہی وہ معنوی پہلو ھے جو اِس اَمر کی دلیل ھے نماز میں شامل کی جانی والی یہ دُعاۓ تحیہ کوئی حقیقی دُعا نہیں ھے بلکہ ایک اِلحاقی دُعا ھے جس کو نظریہِ توحید پر ایک کاری ضرب لگانے کے لیۓ نماز میں شامل کیا گیا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 467347 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More