ایشیزسیریز ، کرکٹ کی تاریخ کی سب سے قدیم ٹیسٹ سیریز
ہے،جو دو روایتی حریفوں کے درمیان ہر دوسال بعدمنعقد ہوتی ہے۔سیریز جیتنے
والی ٹیم کو جو ٹرافی دی جاتی ہے، وہ گل دان کی شکل کی ہوتی ہے جس میں کرکٹ
کی گیند یا بیلز(Bailes)کی راکھ رکھی ہوتی ہے۔ یہ کرکٹ کی تاریخی ٹیسٹ
سیریز ہے جس کا آغاز 1882ء انگلینڈ کی ہو م سیریز کے میچ میںآسٹریلیا کے
ہاتھوں شکست کے بعد برطانوی اخبارات کی دل چسپ ’’تعزیتی خبروں‘‘ اورمرثیہ
نگاری کے بعد بعض خواتین کی جانب سے وکٹوں پر رکھی جانے والی
بیلز(Bails)جلا کر ان کی راکھ ایک چھوٹی سی ایش ٹرے میں رکھ کر، جو 11سینٹی
میٹر اونچی ، گل دان کی طرح تھی ، ٹرافی کی صورت میںانگلش ٹیم کے کپتان کو
پیش کی گئی۔اس واقعے اور’’راکھ بھری ٹرافی‘‘ نے اتنی شہرت اختیار کی کہ
دونوں ممالک ایشز سیریز کے نام سے ایک ٹورنامنٹ کے انعقادکے لیے متفق
ہوگئے۔
کرکٹ کے کھیل کا آغاز 1550ء میں گلڈفورڈ، سرے کاؤنٹی سے ہوا لیکن پہلا
باقاعدہ میچ سینٹرل لندن میں سٹی روڈ کے بالمقابل آرٹلری گراؤنڈ میں
کھیلا گیا۔1787میں میری لیبن(ایم سی سی) کا قیام عمل میں آیا ۔ 1846 میں
ولیم کلارک نے آل انگلینڈ الیون کی بنیاد رکھی جب کہ دوسری ٹیم یونائیٹڈ
آل انگلینڈ کے نام سے بنائی گئی، جن کے مابین 1847سے1856تک ہر سال
ٹوررنامنٹ منعقد ہوتے تھے۔ 19ویں صدی میں اس کھیل کی مقبولیت امریکا ،
کینیڈا اور آسٹریلیا میں بھی پہنچ گئی اوران ممالک میں بھی ٹیموں کی تشکیل
کے بعد میچز کا انعقاد ہونے لگا۔ 1859میں انگلش کرکٹ ٹیم نے پہلی مرتبہ
کپتان’’ جارج پار‘‘کی قیادت میں امریکا اور کینیڈا کا دوستانہ دورہ کیا۔چند
سال کےمختصر عرصے میںآسٹریلین کرکٹ ٹیم ایک مضبوط حریف کے طور پراس کھیل
کے’’ تخلیق کار‘‘برطانیہ کے سامنے آیا۔1877 میں دونوں ٹیموں کے درمیان
پہلی آفیشل ٹیسٹ سیریز کھیلی گئی۔۔مارچ 1877ء میںا نگلش کرکٹ ٹیم نے
آسٹریلیا کا دورہ کیا اور وہاں میلورن کرکٹ گراؤنڈ پرآسٹریلین کمبائنڈ
الیون اورآل یونائٹیڈ انگلینڈ الیون کے درمیان دو ٹیسٹ میچز کا انعقاد
ہوا۔ پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا گیا15مارچ کو کھیلا گیاجو ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے
صفحات پر ہمیشہ کے لیے اُمر ہوگیا، اس میں انگلینڈ کو 45رنز سے شکست ہوئی۔
حالانکہ اس کے دو ہفتے بعد 31مارچ کو اسی گراؤنڈ پر دوسرے ٹیسٹ میچ کا
انعقاد ہوا جس میں انگلینڈ نے اپنی حریف ٹیم کو4وکٹوں سے شکست دی، لیکن اس
میچ کو پہلے میچ جیسی یادگار حیثیت حاصل نہ ہوسکی۔ پہلے ٹیسٹ میچ میں کرکٹ
کی تاریخ کے کئی ریکارڈ قائم ہوئے جب کہ اوول گراؤنڈ کو پہلے میچ کی
میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا۔ آسٹریلوی بلے باز ، چارلس بینرمین نے ٹیسٹ
کرکٹ کی تاریخ کی پہلی سنچری اسکور کی۔ ستمبر 1880میں آسٹریلوی ٹیم نے
برطانیہ کا دورہ کیا اور اوول گراؤنڈ پر اس نے اپنے دورے کا واحدٹیسٹ میچ
کھیلا جس میںانگلش ٹیم نے اسے 5وکٹوں سے شکست دی، جس کے بعد اوول کا میدان
برطانوی عوام کے ذہن میں میں ایک ناقابلتسخیر گراؤنڈ بن گیا۔ اس کے بعد اس
گراؤنڈ پر متعدد کاؤنٹی میچز منعقد ہوئے جن میں آل یونائٹیڈ انگلینڈ ی
ٹیم سرخرو رہی ۔ 1882ء میں آسٹریلیا کی ٹیم دوسری مرتبہ انگلینڈ کے دورے
پرآئی۔ 29اگست 1882کو اوول کے میدان میں دونوں ٹیموں کے درمیان ٹیسٹ میچ
کا انعقاد ہوا لیکن اوول کی وکٹیں 1880 کے مقابلے میںدونوں ٹیموں کے لیے
مردہ ثابت ہوئیں۔سابقہ میچ میں انگلش کھلاڑی ڈبلیوجی گریس اور آسٹریلین
بلے باز ،بلی مردوک نے طویل اننگز کھیلی تھیں لیکن1882 کے میچ کی پہلی
اننگز میں دونوں ٹیمیں انتہائی کم اسکور کرسکیں۔ دوسری اننگز میںآسٹریلوی
ٹیم صرف 55رنز کے اسکور پر آؤٹ ہوگئی اور برطانوی ٹیمکو میچ جیتنے کے لیے
صرف 85رنز درکار تھے جب کہ اس کے سات بلے باز باقی تھے۔ انگلش شائقین اور
کرکٹ کے مبصرین کو مکمل یقین تھا کہ برطانوی ٹیم کی کھیل پر حکم رانی
برقرار رہے گی اوروہ آسٹریلیا کو شکست سے دوچار کرکے وطن واپس بھیجے گی۔
لیکن ہوا اس کے برعکس، آسٹریلوی بالرز کی تیز گیندوں کے سامنے انگلش بلے
بازوں کے لیے یہ ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگیا اورڈبلیو جی گریس جیسے ٹاپ آرڈر
بلے باز انتہائی معمولی اسکور پر یکے بعد دیگرے آؤٹ ہوگئے۔ آخری بلے باز
ٹیڈ پیٹے جب بیٹنگ کے لیے آئے تو انگلینڈ کو میچ جیتنے کے صرف 10رنز کی
ضرورت تھی ، لیکن وہ بھی اپنی ٹیم کے اسکور میں صرف 2رنز کا اضافہ کرنے کے
بعد آؤٹ ہوگئے۔ برطانوی شائقین کو اس ہار کا اتنا صدمہ ہوا کہ انہوں نے
اسٹیڈیم میں ہی اپنے غم و غصے کا اظہار شروع کردیا۔ برطانوی اخبارات میں اس
شکست کو ’’انگلش کرکٹ ٹیم کی موت ‘‘ سے تشبیہہ دیتے ہوئے نوحے لکھے گئے۔
2ستمبر کو لندن کے ایک اخبار ’’دی اسپورٹنگ ٹائمز‘‘ نے ایک نوجوان صحافی
ریجنالڈ شرلے بروکس کی لکھی ہوئی تعزیتی خبر شائع کی جس میں اس نے لکھا تھا
کہ ’’انگلش کرکٹ کی یاد میں، جس کی29اگست کو اوول کے میدان میں موت واقع
ہوئی، اور اس کی میت کو آسٹریلیا لے جاکر اس کی چتاجلائی جائے گی۔‘‘
اس شکست کے تین ہفتے بعد انگلش ٹیم نے آئیوو بلیف کی قیادت میں آسٹریلیا
کا اس عزم کے ساتھ جوابی دورہ کیا کہ وہ اپنی حریف ٹیم کو شکست دے کر انگلش
کرکٹ کی چتاکی راکھ کو واپس اپنے وطن لے کر آئے گی۔برطانوی اخبارات میں
شائع ہونے والی’’ تعزیتی خبریں‘‘ ، آسٹریلوی شہریوں کی نظروں سے بھی
گزریں۔برطانوی ٹیم 11نومبر 1882کو آسٹریلیا کے دورے پر پہنچی اور 11نومبر
سے 9فروری 1883تک 11 سائیڈ میچز کھیلے گئے جن میں سے 5میں انگلش ٹیم نے فتح
حاصل کی جب کہ 6ڈرا ہوئے۔ 30دسمبر سے 3ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا انعقاد ہوا
ج، مہمان ٹیم نے دو میچ جیت کر سیریز اپنے نام کرلی۔ سڈنی کے آخری ٹیسٹ
میچ مجس میں آسٹریلوی ٹیم شکست سے دوچار ہوئی تھی، میچ کے اختتام پر تین
خواتین جن میں میلبورن کرکٹ کلب کے صدر، سر ولیم کلارک کی اہلیہ ، کلارک کی
میوز ک ٹیچرفلورنس مرفی اور جینٹ شامل تھیں، سڈنی اسٹیڈیم میں داخل ہوئیں
اور انہوں نے وکٹوں پر رکھی ہوئی بیلز (Bails)اور گیند کو نذر آتش کرنے کے
بعد ان کی راکھ اٹھا کر ایک کوزے میں محفوظ کرلی۔ سیریز کے اختتام کے بعد
ایسٹر کے تہوار کے موقع پر میلبورن کرکٹ کلب کے صدر کی جانب سے ان کی رہائش
گاہ پر ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں انگلش ٹیم کے کھلاڑیوں کو خصوصی
طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ جب تقریب عروج پر تھی، اچانک لیڈی کلارک کی ہدایت
پر فلورنس مرفی نے انگلش ٹیم کے کپتان آئیوو بلیف کو 11سینٹی میٹر اونچی
گل دان نما ایش ٹرے پیش کی جس کے بارے میں مہمانوں کو بتایا گیا کہ اس میں
شکست خوردہ آسٹریلوی ٹیم کی چتا کی راکھ محفوظ کی گئی ہے جو انگلش ٹیم کو
’’وننگ ٹرافی ‘‘ کی صورت میں پیش کی جارہی ہے۔ بلیف’’ ایشز ٹرافی‘‘ کو لےکر
واپس انگلستان پہنچےور پنے آبائی گھر، ’’کوبہم ہال‘‘ کینٹ میں سجا کررکھ
دی، انگلستان واپسی کے بعد وہ ’’لارڈ ارنلی‘‘ بن گئے۔ اس کے بعد اوول واقعے
کی یاد میں ایشز سیریز کا ہر دوسال بعدآسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان
باقاعدگی سے انعقادہونے لگا۔ 1884میں بلیف اگلی سیریز میں شرکت کے لیے
آسٹریلیا گئے اور اس دفعہ ایشز سیریز جیتنے کے بعد ٹرافی کے ساتھ، فلورنس
سے شادی کرکے انہیں بھی اپنے ساتھ لے کر وطن واپس آئے۔ 1927تک ایشز ٹرافی
ان کے گھر میں سجی رہی، ان کی موت کے بعد 1929 میںان کی بیوہ فلورنس نے
ایشز ٹرافی ،میری لی بون (ایم سی سی) کرکٹ کلب کو دے دی جو آج بھی لارڈز
گراؤنڈ میں ایم سی سی میوزیم میں موجود ہے۔1930میں کھیلوں کی دیگر ٹرافیوں
کے ساتھ ایشز ٹرافی بھی نمائش کے لیے رکھی گئی جسے کرکٹ کے شائقین نے بہت
پسند کیا۔۔1882کا میچ ایشز سیریز کا پہلا میچ تھا۔جب سے ہر دوسا ل بعد اس
ٹورنامنٹ کا برطانیہ یا آسٹریلیا میں انعقاد کیا جاتا ہے اور جیتنے والی
ٹیم کو ایشز ٹرافی دی جاتی ہے۔ا صلی ٹرافی جو صرف پانچ انچ کی ہے ایم سی سی
میوزیم میں محفوظہے، جیتنے والی ٹیم کو دھات اور شیشے کی بنی ہوئی گلدان کی
شکل کی قدرے بڑی ٹرافی دی جاتی رہی۔-1999میں میری لی بون کلب اورکرکٹ
آسٹریلیا کے درمیان ایشز سیریز کی نئی ٹرافی کی تیاری پر اتفاق ہوا۔ نئی
ایشز ٹرافی آئرلینڈ کی ’’واٹرفورڈ‘‘ کمپنی میں کرسٹل سے تیار کی گئی ہے جو
فاتح ٹیم یامیچ ڈرا ہونے کی صورت میںاصل ٹرافی کی نقل کے ساتھ دفاعی چیمپئن
کو دی جاتی ہے۔ 1998ء
میں آئیوو بلیف کی بہو نے برطانوی پریس کے سامنے انکشاف کیا کہ اصل ایشز
ٹرافی میں گیند یا بیلز کی جلی ہوئی راکھ کی بجائے ان کی ساس کے نقاب کی
راکھ محفوظ کی گئی تھی۔
1882سے 1896تک ایشز سیریز کے 12 مقابلوں کا انعقاد ہوا جن میں سے 11میں
برطانیہ جب کہ ایک سیریز میں کرکٹ آسٹریلیا نے فتح حاصل کی۔
1884میں ایشز سیریز کا دوسرا مقابلہ انگلینڈ میں ہوا جس میں دفاعی چیمپئن
نے اپنے ٹائٹل کا کامیاب دفاع کیا۔1882سے 2017تک ایشز سیریز کے 70ٹورنامنٹس
کا انعقاد ہوا جن میں سے 33مرتبہ آسٹریلیا اور 32بار انگلش ٹیم نے ٹرافی
حاصلکی۔ہر سیریز3سے 6ٹیسٹ میچوں پر مشتمل رہی، جن میں دل چسپ مقابلے دیکھنے
میں آئے۔ دونوں ٹیموں نے متعدد مرتبہ جیت کی ہیٹ ٹرک مکمل کی جب کہ
انگلینڈ نے ابتدائی دور میں ڈبل ہیٹ ٹرک بنائی۔1886میں انگینڈ میں منعقد
ہونے والی3میچوں کی سیریز میں میزبان ملک نے آسٹریلیا کو وائٹ واش
کیا۔1897اور1901 میں آسٹریلیا نے سیریز کے5میچوں میں سے 4میچوں میں فتح
حاصلکی جب کہ ایک ایک میچ ڈرا ہو۔1948 میںانگلینڈ میں کھیلے گئے میچ میں
آسٹریلیا نے تیسری مرتبہ 5میچوں کی سیریز میں سے 4 میچ جیتے جب کہ ایک ڈرا
ہوا۔ 1920,2006اور 2013میں آسٹریلیا نےاپنی حریف ٹیم کو 5میچوں کی سیریز
میںمکمل طور سے وائٹ واش کیا جب کہ 1964میں انگلینڈ کی ٹیم نے اپنے ہوم
گراؤنڈ پر پانچ میچ کھیلے جن میں سے چار میچ ڈرا ہوئے جب کہ ایک میچ جیت
کر برطانیہ ٹرافی کا حق دار ٹھہرا۔2017میںآسٹریلوی سرزمین پرکھیلے جانے
والے ایشز سیریز کے 5 میچوں میں سے 4میچوں میں انگلینڈ کو شکست ہوئی جب کہ
ایک میچ ڈرا ہوا۔
1938میں اپنے ہوم گراؤنڈ پرسیریز کے ایک میچ میں برطانیہ نے نے تین عالمی
ریکارڈ قائم کیے۔ اس نے 903 رنز بناکر سب سے زیادہ مجموعی اسکور کرنے کا
عالمی ریکارڈ قائم کیا ، انگلش بلے باز لین ہٹن نے 364 رنز کی تاریخی اننگز
کھیلی جب کہ اسی میچ میں انگلش ٹیم نے آسٹریلیا کو ایک اننگز اور 579 رنز
کے بھاری مارجن سے شکست دی۔ اس کا مذکورہ ریکارڈ 59سال بعد سری لنکا کی ٹیم
نے بھارت کے خلاف کولمبو ٹیسٹ میں توڑا، اس نے 952رنز کا مجموعہ کھڑا کرکے
ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا اسکور بنانے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔
نومبر 2017میں منعقد ہونے والی ایشز سیریز میں آسٹریلوی ٹیم کے کپتان ا
سٹیون اسمتھ نے تین سنچریاں اسکور کیں جن مں سے ایک ڈبل سنچری جب کہ دو ناٹ
آؤٹ تھیں۔79 برس بعد انگلینڈ کے خلاف ایشز سیریز میں تین سنچریاں بنانے
والے وہ پہلے آسٹریلوی کپتان بن گئے ہیں۔اس سے قبل 1938 میں ڈان بریڈمین
نے یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔
یشز کے میچز انگلینڈ اور آسٹریلیا میں کھیلے جاتے ہیں ور اب تک جن میدانوں
نے ایشیز ٹیسٹ کی میزبانی کا اعزاز حاصل کیا ہے ان میں آسٹریلیا کے گابا
(برسبین)، ایڈیلیڈ اوول (ایڈیلیڈ)، واکا (پرتھ)، ملبورن کرکٹ گراؤنڈ
(ملبورن) اور سڈنی کرکٹ گراؤنڈ (سڈنی) شامل ہیں۔ 1928ء میں ایک ٹیسٹ میچ
برسبین کے ایگزیبیشن گراؤنڈ پر بھی کھیلا جاچکا ہے۔انگلینڈ میں ایشیز میچز
کی میزبانی کا اعزاز دی اوول (لندن)، اولڈ ٹریفرڈ (مانچسٹر)، لارڈز (لندن)،
ٹرینٹ برج (ناٹنگھم)، ہیڈنگلے (لیڈز) اور ایجبسٹن (برمنگھم) حاصل کرچکے
ہیں۔ 1902ء میں ایک ٹیسٹ میچ بریمیل لین، شیفیلڈ میں کھیلا گیا۔ 2009ء کی
ایشیز ٹیسٹ سیریز میں ایک میچ کارڈف، ویلز کے صوفیہ گارڈنز میں کھیلا جائے
گا۔
ومین کرکٹ کا آغاز 1931میں ہوا اور آسٹریلیا اور انگلستان کے درمیان پہلی
ٹیسٹ سیریز 1934میں کھیلی گئی۔ایک میچ کے موقع پر انگلش ٹیم کی کپتان
’’بیٹی آرک ڈیل‘‘ کا کہنا تھا کہ ہم خواتین کرکٹ صرف محبتوں کو فروغ دینے
کے لیے کھیلتے ہیں، ہمارا مطمع نظر مردوں سے یکسر مختلف ہے۔ گزشتہ صدی میں
90 کے عشرے تک ویمن ایشز سیریز کا کوئی تصور نہیں تھا لیکن 1998میں لارڈز
کرکٹ گراؤنڈ میں خواتین کے ایک ٹیسٹ میچ کے انعقاد سے قبل چند خواتین نے
ایک کرکٹ بیٹ جس پر آٹو گراف لیے گئے تھے، جلا کر اس کی راکھ لکڑی کی ایک
نقلی گیند میں بھر دی جس نے بعد ازاں ’’ویمن ایشز ٹرافی‘‘ کی صورت اختیار
کرلی۔ 2001 سے 2017 تک ویمن ایشز ٹرافی کے 23میچز کھیلے جاچکے ہیں۔ ویمن
ٹورنامنٹس میں ٹیسٹ میچوں کے علاوہ ایک روزہ اور ٹی ۔20میچز کو بھی ایشز
سیریز کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ سیریز کی فاتح ٹیم کو ’’ویمن ایشز ٹرافی ‘‘ دی
جاتی ہے ۔
|