پی ایس بی کی ابتر حالت ' چینجنگ رومز حجرے میں تبدیل
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
مزے لینے کے حوالے سے یاد آیا سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی سب سے سینئر خاتون ڈائریکٹریس کیساتھ اس مرتبہ بھی پروموشن کیلئے ہونیوالے اجلاس میں ہاتھ ہوگیا ' اور مخصوص گروپ نے مزے لئے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں عرصہ دراز سے تعینات اس اہلکار کی سب سے بڑی خامی خاتون ہونے کیساتھ ساتھ " پی ایم ایس "نہ ہونا ہے اسی باعث دوسری مرتبہ بھی پروموشن کیلئے اس کا نام نہیںبھجوایا جارہاحالانکہ اس خاتون سے جونیئر مرداہلکار ترقی کیلئے مقررہ وقت بھی پورا نہیں کرسکے ہیں لیکن انہیں اگلے گریڈوں میں ترقی دیدی گئی ' جو کھیلوں اور خصوصا لڑکیوں میں کھیلوں کے فروغ کیلئے کوشاں اس خاتون ڈائریکٹر کیساتھ بھی زیادتی ہے جو گریڈ کئی سالو ں سے گریڈ انیس میں تعینات ہیں. ٹھیک ہے کہ " پی ایم ایس" آسمان سے اتری مخلوق ہیں اور چھپن چھپائی کے اس کھیل میں پی ایم ایس افسران ایک دوسرے کا بہت خیال کرتے ہیں لیکن صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے پاس فنڈز 'ر اختیار بھی اور ساتھ میں بجٹ میں پرویژن بھی کیا سپورٹس ڈائریکٹریٹ اس معاملے میں خاتون ڈائریکٹر کو اپنے ہی ڈیپارٹمنٹ میں نئی پوسٹ تخلیق کرکے ایڈجسٹ نہیں کرسکتے. یہ وہ امرہے جس کا وزیراعلی خیبر پختونخواہ کو خود نوٹس لینا چاہئے ' ورنہ تبدیلی کے نام پر آنیوالے حکمرانوں پریہ الزام بھی آسکتا ہے کہ ان کی حکومت میں اور انہی کی وزارت میں خاتون ہونے کی بناء پر ترقی کا عمل روک دیا گیااور حکمرانوں نے اس کا نوٹس تک نہیں لیا
|
|
بین الصوبائی وزارت کی وفاقی وزیر فہمیدہ مرزا نے دودن قبل اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کھیلوں کی حالت زار پر افسوس کا اظہار کیا اور ملک میں کھیلوں کی تبدیلی کیلئے نئی حکمت عملی اور مقابلوں کا اعلان کیا بین الصوبائی وزارت کے زیر انتظام پاکستان سپورٹس بورڈ بھی ہے جو اٹھارھویں ترمیم کے بعد ہونا تو صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہونا چاہئے تھا لیکن من پسند وں کے ہاتھوں یرغمال اس ڈیپارٹمنٹ کا حال یہ ہے کہ پورے ملک میں کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی کا دعویدار یہ ادارہ اب پورے قوم پر بوجھ ہے کیونکہ تنخواہیں تو عوام کے ٹیکسوں سے ادا ہورہی ہیں لیکن اس کا حال دیکھنے کے لائق ہیں. پاکستان سپورٹس بورڈ کوچنگ سنٹر پشاور ہوں یا پاکستان سپورٹس بورڈ کوچنگ سنٹر بلوچستان یا ان میں بنائے گئے کروڑوں روپے کے ہاسٹل .ٹوٹے پھوٹے بیڈز ' پرانے اور بدبودار گدے جس پر شائد سڑکوں پر بیٹھے فقیر بھی بیٹھنا گوارہ نہ کرے. لیکن مجبور کھلاڑی ان بیڈز پر راتیں گزارتے ہیں.جس کا مشاہدہ ہمیں کوئٹہ میں ہوا جہاں پرمختلف ڈیپارٹمنٹس کے کھلاڑیوں کو رہنے کی جگہ فراہم کی گئی تھی . حالت تو کوئٹہ میں واقع ایوب سٹیڈیم کی بھی ابتر تھی جو 1961 میں بنایا گیا تھا اور جس میں بیڈمنٹن ' والی بال ' فٹ بال ' اتھلیکٹس کیلئے علیحدہ گرائونڈز بنائے گئے تھے جبکہ اس کے مین گرائونڈ کے دروازے کھلاڑیوں پر بند تھے اور کھلاڑی اور بچے مین گیٹ پر پارکنگ میں کرکٹ کھیلنے پرمجبور تھے.چلیں ایوب سٹیڈیم تو بلوچستان حکومت کے زیر انتظام ہے اور ان سے بھی پوچھنے کی ضرورت ہے کہ ہر گرائونڈ کے نام تو بڑے بڑے قبائلی لیڈروں اور سیاسی خانوادوں کے نام پر رکھے گئے ہیں مگر وہا ں سے کھلاڑی کس میدان میں نکل رہے ہیں . کم و بیش یہی حال پی ایس بی پشاور کا بھی ہے جس میں صرف کمائی کیلئے پرائیویٹ جیم کو توجگہ فراہم کردی گئی ہیںجہاں سے ملنے والی آمدنی مخصوص افراد کی جیبوں میں جارہی ہیں تیس ہزار روپے میں دیئے جانیوالے اس جیم کی ممبرشپ فیس کتنی ہے اور کتنے کھلاڑی اس میں داخلہ لے ہوئے ہیں. یہ وہ سوال ہیں جو پاکستان سپورٹس بورڈ اسلام آباد کے موجودہ وزیر فہمیدہ مرزا کو خود سے لینے کی ضرورت ہے . کاغذوں میں سب اچھا ہے اور وزیر اور ڈی جی کے سامنے خوشامدی انداز میں کھڑے افسران کو سوچنا چاہئیے کہ وہ جن کھلاڑیوں اور کھیلوں کے نام کے فروغ پر حکومت سے عوام کے ٹیکسوں سے لی جانیوالی تنخواہیں وصول کررہے ہیں کیا وہ حلال بھی کررہے ہیں یا نہیں .پی ایس بی وہ واحد وفاق کا سرکاری ادارہ ہے جس کے کراچی میں سیکورٹی انچارج قائم مقام ڈائریکٹر ہیں ' پشاور میں سکواش کے کوچ کو قائم مقام ڈائیریکٹر بنایا گیا ہے ' لاہور میں تعینات ڈائریکٹر اتنے تیز ہیں کہ پورے ملک میں پرائیویٹ کورسز کے نام پر الگ سے کمائی کررہے ہیں لیکن نہ تو فہمیدہ مرز ا کو نظر آرہا ہے اور نہ ہی ڈائریکٹر جنرل کو ' کہ آخر پاکستان سپورٹس بورڈ جو کھیلوں کی سہولیات فراہمی کا بڑا ادار ہ ہے اور اس کے سنٹرز پورے ملک میں قائم ہیں اور جن میں صفائی کرنے ااور ویٹروں کے عہدوں پر تعینات کس طرح انتظامی فیصلوں میں عمل دخل رکھتے ہیںکب تک عوام کا خون چوستے رہیں گے.جو کھیلوں کے سرگرمیوں کو فروغ دینے کے بجائے اب اس سے کمائی کرنے کے چکروں میں مصروف عمل ہیں.فہمیدہ مرز ا اور عثمان ڈار کو اس ادارے پر مسلط جونکوں سمیت اس ادارے کی کھیلوں کی فروغ کیلئے پالیسی بھی مرتب کرنے کی ضرورت ہے صرف پریس کانفرنسوں کی حد تک بیانات اخبارات میں بہت اچھے لگتے ہیں لیکن پریس کانفرنسوں کے بجائے عملی طور پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے.اور اگر وفاق کی سطح پر پی ایس بی ٹھیک نہیں کرسکتے تو اسے صوبوں کے زیر انتظام سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے حوالے کیا جائے تاکہ کم از کم کھیلو ں کی سرگرمیاں تو شروع ہوں . کھیلوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ تو بہت حد تک سرگرم عمل ہیں او رکرونا کی صورتحال کے بعد کھیلوں کی مختلف سرگرمیاں جن میں حال ہی میں انڈر 21 بھی کروائی گئی سمیت دیگر کھیل بھی کروائے جارہے ہیں انڈر 21 کھیلوں کے حوالے سے نیب سمیت مختلف تحقیقاتی ادارے اس وقت تحقیقات میں مصروف عمل ہیں ہاکی لیگ بھی وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی خواہش پر کروائی گئی جس میں قومی ہاکی ٹیم کے سینئر اور جونیئر کھلاڑیوں نے بھی حصہ لیا.وزیراعلی کی خواہش پر بین الاقوامی رولز کے خلاف سیمی فائنل تک کروائے گئے لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر وزیراعلی افتتاح سے لیکر اختتامی تقریب میں کہیں پر نظر نہیں آئے. شائد وزیراعلی کی اپنی مصروفیات بھی ہوں لیکن اس ہاکی لیگ سمیت حال ہی میں کروائے جانیوالے انڈر 21 کے مقابلوں کے دوران ہاکی کے کھلاڑیوں کو چینجنگ رومز کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.کم و بیش ایک مہینے پہلے انٹر بورڈ کیلئے ہونیوالے لڑکیوں کے ہاکی ٹرائلز میں بھی طالبات کو کٹس تبدیل کرنے کا بڑا مسئلہ رہا.کیونکہ چینجنگ رومز ہونے کے باوجود کھلاڑیوں کو نہیں دئیے جارہے جس میں مخصوص لوگوں کا قبضہ ہے اور ان مخصوص لوگوںنے ہی پورے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے . سیکرٹری سپورٹس خیبرپختونخواہ سے سے لیکر ڈائریکٹر جنرل سپورٹس تک سب اس قبضہ مافیا سے مجبور ہیں اور وہ چینجنگ روم کا قبضہ چھڑانہیں سکتے جس کااثر ہاکی کے کھلاڑیوں پر پڑ رہا ہے . کیا یہ ممکن ہے کہ سخت سردی میں اور کھلے عام کوئی کھلاڑی اپنی کٹس تبدیل کرے .اور وہ بھی ہاکی گرائونڈ پر.. اس طرح کی صورتحال تو پورے پاکستان میں کہیں پر بھی نہیں اور نہ ہی اس طرح ممکن ہے. کیونکہ کھیل کے میدان ہوں یا یا کھیلوں کے ڈیپارٹمنٹ ' سب ہی کھلاڑیوںکی وجہ سے آباد ہیں اور انہی کی وجہ سے ڈیپارٹمنٹ کے لوگ تنخواہیں لیتے ہیں . سو ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کھلاڑیوں کی ضرورت کے پیش نظر چینجنگ رومز کو خالی کرکے ہاکی کے کھلاڑیوں کو فراہم کریں جس سے کھلاڑیوں کو بھی سہولت ہوگی اور پھر پتہ بھی چل جائیگا کہ کون لوگ کھیلوں کی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے کام کرتے ہیں ویسے تو حجرے میں چائے پانی ' اور تاش چلتی ہو تو پھر پشتو زبان کے بقول " لارہ لاروے والا ھم پکے مزے اخستو رازی" .. مزے لینے کے حوالے سے یاد آیا سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی سب سے سینئر خاتون ڈائریکٹریس کیساتھ اس مرتبہ بھی پروموشن کیلئے ہونیوالے اجلاس میں ہاتھ ہوگیا ' اور مخصوص گروپ نے مزے لئے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں عرصہ دراز سے تعینات اس اہلکار کی سب سے بڑی خامی خاتون ہونے کیساتھ ساتھ " پی ایم ایس "نہ ہونا ہے اسی باعث دوسری مرتبہ بھی پروموشن کیلئے اس کا نام نہیںبھجوایا جارہاحالانکہ اس خاتون سے جونیئر مرداہلکار ترقی کیلئے مقررہ وقت بھی پورا نہیں کرسکے ہیں لیکن انہیں اگلے گریڈوں میں ترقی دیدی گئی ' جو کھیلوں اور خصوصا لڑکیوں میں کھیلوں کے فروغ کیلئے کوشاں اس خاتون ڈائریکٹر کیساتھ بھی زیادتی ہے جو گریڈ کئی سالو ں سے گریڈ انیس میں تعینات ہیں. ٹھیک ہے کہ " پی ایم ایس" آسمان سے اتری مخلوق ہیں اور چھپن چھپائی کے اس کھیل میں پی ایم ایس افسران ایک دوسرے کا بہت خیال کرتے ہیں لیکن صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے پاس فنڈز 'ر اختیار بھی اور ساتھ میں بجٹ میں پرویژن بھی کیا سپورٹس ڈائریکٹریٹ اس معاملے میں خاتون ڈائریکٹر کو اپنے ہی ڈیپارٹمنٹ میں نئی پوسٹ تخلیق کرکے ایڈجسٹ نہیں کرسکتے. یہ وہ امرہے جس کا وزیراعلی خیبر پختونخواہ کو خود نوٹس لینا چاہئے ' ورنہ تبدیلی کے نام پر آنیوالے حکمرانوں پریہ الزام بھی آسکتا ہے کہ ان کی حکومت میں اور انہی کی وزارت میں خاتون ہونے کی بناء پر ترقی کا عمل روک دیا گیااور حکمرانوں نے اس کا نوٹس تک نہیں لیا
|