عالمی تجارتی تنظیم میں اصلاحات کی ضرورت

عالمی تجارتی تنظیم دنیا میں تجارتی انصاف پسندی کی علمبردار تنظیم ہے۔ یہ تظیم عالمی تجارتی نظام میں عالمگیریت کی ضامن ہے۔ حالیہ چند برسوں میں طاقتور ممالک اس تنظیم کو اپنے آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ خصوصاً اس تنظیم کو ترقی پذیر ممالک کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس تناظر میں اس تنظیم میں اصلاحات متعارف کروانا ناگزیر ہو چکا ہے تاکہ عالمی تجارتی تعاون کو برقرار رکھا جا سکے۔

رواں سال ڈبلیو ٹی او میں چین کی شمولیت کو بیس سال ہوچکے ہیں۔ چین نے ڈبلیو ٹی او کے تحت چین کی ذمہ داریوں کو مکمل طور پر پورا کیا ہے اور اپنے وعدے بھی پوری طرح نبھائے ہیں۔ڈبلیو ٹی او کے کئی سربراہان اور اکثریتی ممبران نے اس حوالے سے چین کی کاوشوں کو سراہا ہے۔ ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے بعد چین نے ٹائم ٹیبل کے مطابق اپنے قوانین، ضوابط اور پالیسی کو ڈبلیو ٹی او کے قوانین کے مطابق ترتیب دیا ہے۔ دوم، مصنوعات کے میدان میں چین نے ٹیرف کو 9.8 فیصد تک کم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس وقت چین کے درآمدی محصولات کی مجموعی سطح صرف 7.4فیصد ہے، جو تمام ترقی پذیر ارکان سے کم اور ترقی یافتہ ارکان کے معیار کے قریب ہے۔سوم، چینی قوانین، ضوابط، اور پالیسیاں عمل درآمد کے اعتبار سے ڈبلیو ٹی او کے قوانین کے مطابق ہیں اورچین نے ان اصول و ضوابط کی بھرپور انداز میں پاسداری کی ہے۔چین نے ڈبلیو ٹی او کے تنازعات کے تصفیہ میکانزم کے تحت مخصوص کیسز پر کیے گئے فیصلوں پر سختی سے عمل کیا ہے ۔مذکورہ پہلوؤں سے دیکھا جا سکتا ہے کہ چین نے ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے بعد اپنے وعدوں کو صحیح معنوں میں پورا کیا ہے۔

گزشتہ بیس سال میں چین کثیرالجہتی تجارتی نظام کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا اور سب سے زیادہ حصہ دینے والا ملک رہا ہے۔ عالمی تجارتی تنظیم کی اصلاح میں چین کو اپنے کردار کو پوری طرح ادا کرنا چاہئے۔ چین کے عالمی تجارتی تنظیم میں داخلے نے عالمی کثیرالجہتی تجارتی طرز کو تبدیل کردیا ہے ، جو پوری دنیا کے لوگوں ،خصوصاً ترقی پذیر ممالک کے لئے فائدہ مند ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے ساتھ تجارت کے معاملے میں ، ڈبلیو ٹی او میں چین ان چند ایک ترقی پذیر ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے ترقی یافتہ ممالک کی 97 فیصد برآمدی مصنوعات کے لئے صفر ٹیرف کا وعدہ کیا ہے۔ 2008 کے بعد سے ، چین سب سے پسماندہ ممالک کی اہم برآمدی منزل رہا ہے ، اور چین نے سب سے کم ترقی یافتہ ممالک کی برآمدات کا ایک چوتھائی حصہ لے لیا ہے۔

پاکستان کی وزارت تجارت کے ڈبلیو ٹی او ڈیپارٹمنٹ کے جوائنٹ سیکرٹری عمر حامد نے چائنا میڈیا گروپ کے نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 20 سالوں میں چین کی قومی طاقت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، اور اس کا کردار ڈبلیو ٹی او میں بھی مضبوط تر ہوا ہے۔ موجودہ بین الاقوامی صورتحال میں جہاں یکطرفہ پسندی عروج پر ہے، پاکستان ڈبلیو ٹی او کی انصاف پسندی، اور کثیر الثقافتی نوعیت کے تحفظ کے لیے چین کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

عمر حامد نے کہا کہ ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے بعد سے چین ڈبلیو ٹی او کا انتہائی اہم رکن بن گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ایک ترقی پذیر ملک کے طور پر، ترقی پذیر ممالک کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے اور ترقی پذیر ممالک کے ساتھ منصفانہ سلوک کو یقینی بناتے ہوئے، چین ڈبلیو ٹی او کی کثیر الثقافتی نوعیت کو یقینی بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا چلا آ رہا ہے۔

عمر حامد نے کہا کہ حالیہ برسوں میں چونکہ ڈبلیو ٹی او میں چین کی کارکردگی نے بہت سے بااثر ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، اس لیے کچھ ممالک نے چین کی تجارت کو روکنے کے لیے منفی ہتکھنڈے اختیار کئے ہیں، جس سے اصولی طور پر ڈبلیو ٹی او کی انصاف پسندی کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ عمر حامد کا خیال ہے کہ موجودہ صورتحال میں ڈبلیو ٹی او کو اصلاحات کرنی چاہئیں اور ایسی اصلاحات انصاف اور شفافیت پر مبنی ہونی چاہئیں۔

گزشتہ بیس سالوں میں چین اصلاحات کو مضبوط تر کرتے ہوئے اور مواقع سے استفادہ کرتے ہوئے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے۔ان بیس برسوں میں چین ہمہ جہت کھلے پن پر عمل درآمد کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری نبھاتا آیا ہے ۔چین اپنی ترقی کی بدولت کثیرالجہت تجارت کو فروغ دیتا رہا ہےاور عالمی معیشت کی پائیدار ترقی کا مثبت خدمات گار اور کثیرالجہتی تجارتی نظام کا محافظ رہا ہے۔

 

Zubair Bashir
About the Author: Zubair Bashir Read More Articles by Zubair Bashir: 45 Articles with 35546 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.