بدھ کے روز ایس ڈی پی او کہوٹہ مرزا طاہر زمان نے پولیس
چوکی چوکپندوڑی میں کھلی کچہری کا انعقاد کیا ہے سب سے پہلی بات تو یہ ہے
کہ کسی بھی پولیس آفیسر کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ جب بھی کہیں کوئی اس طرح
کی کھلی کچہری کا اہتمام کریں تو کم از کم دو روز قبل اس کا اعلان کروائیں
تا کہ متعلقہ افراد اپنی تیاری کر لیں اور جس کسی نے بھی کوئی شکایت کرنی
ہو وہ اس پر مکمل ورک کر سکیں لیکن یہاں پر ایسا نہیں ہوا ہے متعلقہ پولیس
چوکی کو اس حوالے سے اطلاع تھی انہوں نے اپنے طور پر صرف ان لوگوں کو دعوت
دی جو ان کے مطلب یا ہم خیال تھے عام عوام کو اس کی کوئی اطلاع ہی نہیں تھی
جس وجہ سے پولیس کے خلاف کوئی ایک بھی شکایت سامنے نہیں آ سکی ہے ایک عام
فہم انسان بھی یہ سوچ نہیں سکتا ہے کہ وہ کونسا تھانہ یا پولیس چوکی ہے جس
سے متعلق کسی کو کوئی شکایت نہ ہو ایسا سوچنا بھی محال ہے لیکن پولیس کے
ایک اہم عہدیدار نے یہ بات کیسے تسلیم کر لی ہے کہ یہاں کی پولیس فرشتہ صفت
ہے یہ بات انتہائی قابل افسوس اور عوام کے ساتھ زیادتی ہے کہ اس کو کسی نے
مطلع ہی نہیں کیا تھا ایسے پروگرام کو کھلی کچہری نہیں بلکہ محض روٹین ورک
ہی کہا جا سکتا ہے دوسرے ہمارے عوام کا بھی کوئی پتہ نہیں چل رہا ہے کہ وہ
اتنے بذدل کیوں ہو چکے ہیں پیٹھ پیچھے تو ہر کوئی بڑی بڑی کہانیاں سنا رہا
ہوتا ہے پولیس کے عوام کے خلاف قصے سنا رہے ہوتے ہیں لیکن جب کسی پلیٹ فارم
پر بات کرنے کا موقع آ تا ہے تو چھپتے پھرتے ہیں پولیس کے ساتھ ساتھ عوام
کی بھی اس میں بہت بڑی کوتاہی شامل ہے ہمارے عوام صرف پراپیگنڈوں سے کام
لیتے ہیں سچ کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتے ہیں وہ یہ چاہتے ہیں کہ کام
ان کا ہو جائے اور سامنے کوئی دوسرا آئے اس کھلی کچہری میں کافی تعداد میں
ایسے افراد موجود تھے جو پولیس کے بارے میں شکایتیں ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے
تھے اور باتیں بھی کر رہے تھے لیکن جب وقت آیا تو وہاں پر نظر بھی نہیں آئے
اب اس میں تو پولیس کا کوئی قصور نہیں ہے عوام میں اتنی ہمت ہی نہیں رہی ہے
کہ وہ پولیس کے خلاف کوئی شکایت کر سکیں دوسرا ایک اور بہت بڑا مسئلہ یہ
بھی ہے کہ اس طرح کی کھلی کچہریوں کے دوران پولیس کا ایک بڑا جمگٹھا عوام
کے سامنے بٹھا دیا جاتا ہے یہ بھی ایک خوف کی علامت بن جاتا ہے اس تمام تر
صورتحال کے زمہ دار بھی پولیس افسران ہیں جو عوام وہ دوستانہ ماحول فراہم
کرنے میں ابھی تک ناکام ہیں جس کو بنیاد بنا کر وہ عام عوام کا پولیس پر
اعتماد بحال کروا سکیں عوام کے دلوں میں ابھی بھی یہ خوف موجود ہے کہ اگر
پولیس کے خلاف کوئی شکایت کر بھی دیں تو پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی شنوائی
ہی نہیں ہوتی ہے اور دوسرا یہ نقصان ہوتا ہے کہ شکایت کنندہ نشانہ بھی بن
جاتا ہے اور جب کبھی وہ دوبارہ اپنین کسی کام کے سلسلے میں تھانے چوکی جاتا
ہے تو پولیس اس کو انتہائی جارحانہ طریقے سے پیش آتی ہے تب وہ شخص ایک بار
پھر مایوس ہو جاتا ہے کہ یار شکایت بھی حل نہیں ہوئی ہے اور وہ پولیس کی
نظروں میں برا بھی بن گیا ہے پولیس افسران ابھی تک کود کو عوام دوست بنانے
میں مکمل طور پر ناکام ہیں یہ وہ تمام عوامل ہیں جن کی وجہ سے عوام اب بھی
پولیس سے خوف زدہ ہیں سابق سی پی راولپنڈی احسن یونس نے اس حوالے سے بہت
زیادہ کاوشیں کی تھیں لیکن وہ ان میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکے ہیں
پولیس افسران کیلیئے ضروری ہے کہ وہ جب بھی کوئی اس طرح کی کچہری لگائیں تو
اس کی میڈیا کے زریعے تشہیر کروائیں تا کہ ہر خاص و عام کو اس بارے اطلاع
ہو سکے بصورت دیگر خفیہ کچہریوں کا کوئی مقصد نہیں ہے ایس ڈی پی او کہوٹہ
کی کاوشیں اپنی جہگہ درست ہیں لیکن پولیس کا قبلہ درست کرنا ان کی اولین
ترجیح ہونی چاہیئے سارے معاملات متعلقہ افسران یا اہلکاران کے حال پر نہ
چھوڑے جائیں وہ خفیہ طریقے سے معاملات کی نگرانی کا فریضہ انجام دینے میں
بھی اپنا کردار ادا کریں
|