|
|
اپنے بچے کی پیدائش کے فوراً بعد ہی مجھے یہ احساس ہونے
لگا کہ مجھے اسے اس طرح کے ماحول میں پروان نہیں چڑھانا جہاں بات کرنے کی
تمیز نہیں۔۔۔ہر کوئی اردو میں ہی ایک دوسرے سے مخاطب ہے۔۔۔بچوں سے تم کرکے
بات کی جاتی ہے اور الفاظ کا استعمال بھی سحیح نہیں ہوتا۔۔۔ |
|
میں نے بچے کی پیدائش کے فوراً بعد گھر الگ کرنے کی
فرمائش شروع کردی۔۔۔میرے شوہر نے سوچنے کا وقت مانگا۔۔۔ گھر والوں نے مجھ
سے اور میرے شوہر سے یہی ایک سوال کیا کہ آخر یہاں سے جانے کی وجہ کیا
ہے۔۔۔وجہ نا تو میں بتا سکتی تھی اور نا ہی میرے شوہر۔۔۔کیونکہ یہ ایک ایسی
جنگ تھی جس کا سامنا والدین کی حیثیت سے ہم اکیلے ہی کر رہے تھے اور ہر شخص
ہمیں اس محاظ پر اپنا دشمن ہی محسوس ہورہا تھا۔۔۔ |
|
شہر کے مہنگے ترین اسکول میں داخلے کے لئے نام لکھوایا
اور کوشش کی کہ بچے سے زیادہ تر انگریزی زبان میں ہی بات کروں۔۔۔شوہر پر
اور دیگر آنے والوں پر بھی سختی کی کہ بچے کے ساتھ اردو زبان میں کوئی بات
نا کی جائے۔۔ |
|
کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میں ایک کوئی گدھا سدھا رہی ہوں جسے مالک
کے حکم سے ہٹ کر کھانا کھانے اور پانی پینے پر بھی سزا ملے گی۔۔۔بچے کو سب
سے الگ تھلگ رکھا تاکہ وہ ایک مکمل شخصیت کا مالک بنے ۔۔۔لیکن یہ کیا
ہوا۔۔۔میرے بچے کی خود اعتمادی بہت بری طرح متاثر ہورہی تھی۔۔۔وہ محفلوں
میں جانے سے کترانے لگا۔۔۔ چھوٹی سی عمر میں ہی اسے یہ احساس ہونے لگا کہ
وہ تعلیمی اعتبار سے بہت اعلیٰ ہے اس لئے اس نے اپنے دوستوں اور کزنز سے
تعلق بالکل ختم کرلیا۔۔۔ وہ تنہائی پسند ہوگیا۔۔۔ |
|
|
|
وہ بچپن سے ماں باپ کی ایک ایسی سازش کا شکار ہوگیا جہاں
اس کے بچپن سے زیادہ ماں باپ نے اپنی احساس کمتری کو ترجیح دی۔۔ |
|
یہ کہانی پاکستانی معاشرے کے اسی فیصد گھرانوں کی ہے
جہاں انگریزی زبان نا بولنے پر بچوں کو باقاعدہ سرزنش کیا جاتا ہے۔۔۔اس خوف
سے کہ کہیں وہ اردو بول کر ماں باپ کی عزت پر آنچ نا آنے دیں بچے خاموشی
اختیار کر لیتے ہیں اور یوں ان کے دماغ میں آنے والے سوالات، ان کی
تعمیراتی سوچ صفر ہوجاتی ہے۔۔۔ |
|
والدین بچوں کے لئے بہتر ماحول وہ تصور کرتے ہیں جہاں
رشتوں سے زیادہ الفاظ کی اہمیت ہو۔۔۔جہاں محبتوں سے زیادہ اس بات کی اہمیت
ہو کہ معیار زندگی کیسا ہے۔۔۔ |
|
دنیا بھر میں لوگ اپنی قومی زبان کو فروغ دیتے ہیں اور
اپنے بچوں پر مادری زبان بولنے کی پابندی لگاتے ہیں۔۔۔ کیونکہ یہی ان کی
ترقی کی ضمانت ہے لیکن پاکستانی معاشرے میں مادری زبان بولنا احساس کمتری
سمجھا جاتا ہے اور انگریزی زبان کو احسا س برتری کے ضمرے میں گنا جاتا ہے۔۔۔ |
|
|
|
اب دیکھنا یہ ہے کہ بچپن میں ہی اگر بچوں کی
شخصیت کو توڑا جائے گا تو وہ کیسے ایک مکمل انسان کے روپ میں معاشرے کی
تعمیر کر پائیں گے؟ |