مولانا رومی کہتے ہیں، ’’اگر تم عظمت کی بلندیوں کو چھونا
چاہتے ہو تو اپنے دل میں انسانیت کے لئے نفرت کی بجائے محبت آبادکرو‘‘۔مگر
کیا ہو سکتا ہے۔ ہم من حیث القوم نفرتوں کی آبیاری کرتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے
مسائل پر بھڑک اٹھنا ، نفرت کی چنگاریوں کو ہوا دینا یہ ہمارا وطیرا ہے۔ ہم
محبت کی زبان سمجھتے ہی نہیں۔ہم میں مذہبی ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ہمیں کسی
اصول اور ضابطے کی پرواہ نہیں۔ہم ڈنڈے کی زبان سمجھتے ہیں۔ ہم میں نظم وضبط
کا فقدان ہے۔ ایک اچھی حکومت میں دو چیزیں بڑی اہم ہوتی ہیں۔ مراعات کے
معاملے میں وہ لوگوں پر لطف وکرم کی بار ش برساتی ہے اور نظم و ضبط کے
معاملے میں وہ قہر کی طرح ہوتی ہے۔ ہر شخص اس سے یکساں سلوک کا خواہاں ہوتا
ہے۔ اقبال نے کہا ہے، ’’جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم۔۔ دریاؤں کے
دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان‘‘۔یہاں تو نہ ہی کسی کو شبنم اور ٹھنڈک کی
امید ہے اور نہ ہی کسی طوفان کے آثار۔ کبھی جو کراچی کا حال تھا، بڑی تیزی
سے پورے ملک کا ہوتا جا رہا ہے۔ امن و عامہ کی صورت انتہائی دگر گوں ہے اور
بہتری کی کوئی امید نہیں۔کاغذوں میں تو ایک حکومت ہے مگر وہ کن کی ہے اور
کن کے لئے ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔
سیا لکوٹ کا واقعہ کس قدر ہولناک ہے، ہم کتنے سفاک ہیں، بے رحم ہیں، پر
تشدد ہیں، کتنے وحشی ہیں۔دنیا شاید صحیح کہتی ہے ہم انتہا پسند ہیں۔ ایک
شخص پر ایک آدمی نے الزام لگایا۔ اس کی تصدیق یا تردید کے بارے جانے بغیر
اک ہجوم اس کے پیچھے بھاگا، اسے دو منزل اوپر سے نیچے گرایا گیا۔اس کے جسم
کی تمام ہڈیاں توڑ دی گیئں ، اسے مار دیا گیا، پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو اسے
جلا دیا گیا۔ وہ جو آپ کی زبان بھی نہیں جانتا تھا۔ ہمارے لوگوں کی سب سے
بڑی بد بختی یہ کہ سب کچھ اس عظیم شخصیت کے نام پر کیا گیا جو سارے جہاں کے
لئے رحمتاللعالامین ہیں۔جو دنیا میں امن اور آتشی کے پیامبر ہیں۔ یہ عجیب
عاشق رسول تھے۔ عشق تو قربانی مانگتا ہے۔ آپ بد بختی کا مظاہرہ کر رہے
ہیں،آپ کو کہاں امان مل سکتی ہے۔ کسی نے سوچا کہمرنے والے کی بھی ایک ماں
ہے۔ بیٹے کے اس ہولناک انجام کے بعد اس کی آہیں فلک پر خدائے بزرگ برتر تک
بھی پہنچی ہونگی۔ وہ جو ہم سب کا خدا ہے اس ماں کا بھی خدا ہے۔ آپ کو اس
خدا سے بھی ڈر محسوس نہیں ہوا۔اس کے بہن بھائی بھی ہونگے، کسی نے سوچا ان
پر کیا بیتی ہو گی۔ اس کے بیوی اور بچے یہیں سسکتے اور بلکتے پھر رہے ہیں۔
ان یتیموں کی آہیں آپ کو لے ڈوبیں گی، یہ آپ نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔وہ
ہمارا مہمان تھا۔ ہمیں مہمان داری کا کوئی احساس نہ رہا۔ وہ ہمارے علاقے
میں ایک غیر مسلم تھا جس کی حفاظت ہماری ذمہ داری تھی مگر ہمہیں ذمہ داری
کا مفہوم ہی نہیں پتا۔
وہ شخص روزگار کے لئے پاکستان آیا تھا۔ دنیا آج روایتی طریقہ کار سے ہٹ کر
پروڈکشن میں بہت جدت لے آئی ہے۔جاپان، کوریا، چین، بنگلہ دیش، انڈیا اور
سری لنکا کی فیکٹریاں جدت میں ہم سے بہت آگے ہیں۔ ہمارے ورکرز کو اس جدت سے
روشناس کرانے کے لئے سری لنکا کے اس باشندے کی خدمات حاصل کی گئیں تھیں۔ وہ
سات آٹھ سال سے یہاں کام کر رہا تھا۔جاپان ،کوریا، چین،بنگلہ دیش، انڈیا
اور سری لنکا کی فیکٹریوں میں ورکرز کی یونینز تو ہیں مگر وہاں ہماری طرح
مذہبی نعرے بازی کی فیکٹریوں میں کھلم کھلا اجازت نہیں ہوتی۔ خصوصاًجب کسی
غیر ملکی کمپنی کے نمائندوں نے آنا ہو۔ اس دن بھی اس فیکٹری میں کسی غیر
ملکی کمپنی کے نمائندوں کا وزٹ تھا۔ سری لنکن مینجر اپنی ڈیوٹی جانتے ہوئے
وہاں لگے ہوئے پوسٹرہٹا رہا تھا۔ غلطی سے کوئی مذہبی پوسٹر بھی پھٹ گیا۔
مینجر کے سخت رویے سے نالاں ورکرز نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور ایک معمولی
واقع کو مذہبی شکل دے کر ایک انجان شخص کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔یہ قتل
پوری قوم کے لئے باعث شرم ہے ۔ پاکستان کے بارے دنیا کا انتہا پسندی کا غلط
تاثر جسے زائل کرنے میں ہمیں سالہا سال لگے، دنیا بھر میں اس سانحے کے
نتیجے میں ہماری سالوں کی محنت اکارت گئی ۔اس سانحے نے پوری قوم کو شرمسار
کر دیا ہے۔
دنیا آج مذہبی رواداری کو فروغ دے رہی ہے۔ مذہبی ہم آہنگی کے مناظر آپ کو
یورپی ممالک میں عام نظر آئیں گے۔میرے بچے یوکے کے علاقے بورن متھ میں مقیم
ہیں۔ وہ علاقہ خالصاً انگریزوں کا علاقہ ہے۔ پاکستانی بہت معمولی تعداد میں
ہیں وہ بھی زیادہ تر وہاں کے ہسپتال میں ملازم ہیں۔ نماز کے لئے انہوں نے
وہاں کی میونسپلٹی کو جگہ کی فراہمی کی درخواست دی۔ اگلے دن وہ درخواست اس
علاقے کے چرچ کو بھجوا دی گئی کہ مذہبی معاملات کی نگرانی ان کا کا م تھا۔
چرچ کے حکام وہاں کے مسلمانوں سے ملے اورمذاکرات کے بعد چرچ کا ایک ہال
وقتی طور پر مسلمانوں کو نماز کے لئے خالی کر دیا گیا۔ اس کے ایک ہفتے بعد
انہیں علیحدہ جگہ دے دی گئی کہ جہاں وہ اپنی مرضی سے ایک علیحدہ مسجد تعمیر
کر سکیں اور جب تک مسجد تعمیر نہ ہو ہال ان کے قبضے میں رہے گا۔۔ مذہبی ہم
آہنگی کی دوسری بہترین مثال ہمیں پچھلے دنوں نظر آئی جب نیوزی لینڈ میں
مسجد پر حملے میں بہت سے مسلمان مارے گئے تو وہاں کی وزیر اعظم کا رویہ اور
اس کے بعد ہر نماز کے دوران ہزاروں غیر مسلم لوگوں کا نماز کے دوران
مسلمانوں کی حفاظت کے لئے مسجد کے گرد گھیرا بنا کرکھڑے رہنا، یہ وہ ہم
آہنگی ہے جس کی طرف دنیا گامزن ہے۔ اسلام دنیا کا بہترین دین ہے مگر افسوس
ہم اپنے طرز عمل سے مسلسل اس کی نفی کر رہے ہیں۔ آج ضرورت ہے کہ ہم اپنے
لوگوں میں مذہبی ہم آہنگی، بھائی چارے ، پیار محبت اور انسانیت کے فطری
اصولوں کے فروغ کے لئے کام کریں تاکہ دنیا ہمیں امن کے پیامبر کے طور پر
قبول اور تسلیم کرے۔
|