سری لنکن شہری پریانتھا کمارا 2010 سے پاکستان میں اور
2013 سے سیالکوٹ کی معروف کمپنی راجکو میں کام کررہے تھے جب یہ سانحہ ہوا
وہ بطور جنرل مینجر زمہ داریاں ادا کر رہے تھے پردیس میں رہنے والے اکثر
دوست جانتے ہونگے کہ سری لنکن شہری عام طور پہ نرم خو اور جھگڑوں سے دور
رہنے والےہوتے ہیں۔
3دسمبر بروز جمعہ کو سیالکوٹ وزیرآباد روڈ پہ واقع راجکو فیکٹری میں کچھ
رنگ و روغن اور صفائی کا کام چل رہا تھا شائد کوئی غیرملکی وفد آنے والا
تھا پریانتھا کمارا معمول کی نگرانی کرتے ہوئے ایک ایسی مشین پہ پہنچے جس
پہ " یاحسین " کا اسٹیکر چسپاں تھا سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق 10بج کر
28منٹ پر انہوں نے اسے اتارا اور کچرے کی ٹوکری میں پھینک دیا ، افسر اصول
پسند اور سخت ہو تو ورکرز کے ساتھ اس کی ویسے ہی نہیں بنتی ، کسی نے اسے
توہین مذہب کا رنگ دے دیا ، لڑکوں نے شور شرابا کرنا شروع کردیا
پریانتھاکمارا نے معزرت کی مگر شیطان کا تیر چل چکا تھا ہجوم اس پہ ٹوٹ پڑا
، مینجر نے بھاگ کر چھت پہ لگے سولر پینلز کے نیچے چھپنا چاہا ، درندوں نے
انہیں گھیر لیا ایک شخص اپنے موبائل کا کیمرہ آن کئے وحشیانہ انداز میں
گالیاں بکتے آتا ہے وہ پنجابی میں کہتا ہے " ایدی پین نوں۔۔۔۔" ایدی اک سزا
سر تن توں جدا" لبیک لبیک یارسول اللہ" کے نعرے لگاتے پل پڑتا ہے ۔
درجنوں افراد ہیں جس کے ہاتھ جو لگا مار رہا ہے ہر کوئی غازی کا رتبہ حاصل
کرنے کے لئے اپنا حصہ ڈال رہا ہے سرخ سویٹر پہنے ایک شخص اور انکے تین دیگر
ساتھی ظالم ہجوم سے اپنے غیر ملکی مینجر کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں مگر
لاحاصل۔
10بج کر 40 منٹ پر انہیں چھت سے گرایا جاتا ہے ہجوم میں سے کوئی آواز دیتا
ہے اسے باہر لے کر آؤ ،لڑکے انہیں گھسیٹتے ہوئے سڑک پہ لاتے ہیں تب تک شائد
روح جسم کا ساتھ چھوڑ چکی تھی سڑک کے دوسری طرف فٹ پاتھ کے ساتھ پیٹرول،
ٹائرز ،چادریں اور جیکٹیں لاش پر پھینک کر آگ لگادی جاتی ہے ۔ سینکڑوں لوگ
تماشہ دیکھ رہے ہیں لائیو کالز ہورہی ہیں تصاویر اور ویڈیوز بنائی جارہی
ہیں جلتی لاش کے ساتھ سیلفیاں لی جارہی ہیں گویا شیطانیت ننگا ناچ ناچی اور
کیا ناچی ۔
ہم اخلاقی طور پہ کس قدر زوال پزیر لوگ ہیں چند نمونے دیکھئے فیکٹری میں
حادثے کے وقت ہزاروں افراد موجود تھے مگر مقتول کو بچانے کی کوشش صرف چار
افراد کرتے ہیں ۔13جدید اسلحے سے مسلح سیکیورٹی گارڈز اگر کوشش کرتے تو ایک
انسان کی جان بچائی جاسکتی تھی مگر یہ خود موقع سے غائب ہوگئے ۔10 بج کر 28
منٹ پہ ہنگامہ شروع ہوا اور 15 پہ پہلی کال 11بج کر 28 منٹ پہ کسی نے کی
یعنی پورے ایک گھنٹے تک بلا مبالغہ ہزاروں افراد اس درندگی سے محظوظ ہوتے
رہے کسی کے اندر انسانیت نا جاگی۔
یہ ایک انتہائی دلخراش ،شرمناک اور بھیانک واقعہ تھا پورا ملک لرز اٹھا ہے
جس معاشرے میں سزاؤں کا اختیار ، شرعی تقاضے پورے کرتی منصف عدالتوں کی
بجاۓمشتعل ہجوم کے حوالے ہو جاۓ اس کی بربادی میں کیا شبہ رہ جاتا ہے؟۔
یہ بات آپ کو سوچنے پہ مجبور کردے گی کہ 1990سے اب تک توہین مذہب کے 97
فیصد کیس پاکستان جبکہ صرف تین فیصد باقی ساری دنیا میں سامنے آئے ہیں ۔ایک
تحقیق کے مطابق 1986 سے اب تک توہین مذہب کے اندارج شدہ کیسز کی تعداد
5000ہزار سے زائد ہے ان میں سے صرف 964 کیس عدالتوں تک پہنچے اور صرف
170کیسز کی تصدیق ہوسکی جبکہ 4036 کیس ابتدائی تفتیش میں ہی جعلی اور جھوٹے
نکلے مگر سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی جھوٹا الزام
لگانے اور فتنہ پیدا کرنے پر کوئی سزا نہیں دی گئی ۔
مقتول کی بیوی اور سری لنکا کے وزیراعظم نے پاکستانی وزیراعظم سے انصاف کی
امید کی ہے عمران خان خود بھی کہہ رہے ہیں کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا انصاف
کے تقاضے پورے ہونگے،خدا کرے اس بار واقعی مجرموں کو تختہ دار کا جھولا
جھلا دیا جائے ۔
مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے ساتھ ملک میں بڑھتی ہوئی انتہاء پسندی
کو قابو کرنا بھی بہت ضروری ہے قدرت نے اس سانحہ کے بعد ریاست اور اداروں
کو ایک موقعہ دے دیا ہےکہ وہ بزور طاقت ہر قسم کی مذہبی انتہاء پسندی کو
کچل کر رکھ دیں رائے عامہ انکے خلاف ہموار ہوچکی ہے یہ موقع اگر ضائع کردیا
گیا تو مستقبل میں خدا نا کرے ایسے مزید واقعات دیکھنے پڑ سکتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ہمارے ملک و قوم پہ اپنی رحمتیں نازل کرے اور ہمیں ہدایت اور
امن و محبت کے رستے پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
|