اٰیاتِ حجاب اور روایاتِ حجاب !! { 3 }

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 53 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیت !!
یٰایھاالذین
اٰمنوا لاتدخلوا بیوت
النبی الّا ان یؤذن لکم الٰی
طعام غیر نٰظرین انٰه ولٰکن اذا
دعیتم فادخلوا فاذا طعمتم فانتشروا
ولا مستاسنین لحدیث ان ذٰلکم کان یؤذی
النبی فیستحی منکم واللہ لایستحی من الحق
واذاسالتموھن متاعا فسئلوھن من وراء حجاب ذٰلکم
اطھر لقلوبکم و قلوبھن وماکان لکم ان تؤذوا رسول اللہ ولا
ان تنکحوا ازواجه من بعدهٖ ابدا ان ذٰلکم کان عنداللہ عظیما 53
اے اہلِ ایمان ! تُم اپنے نبی کے گھروں میں بن بلاۓ مہمان بن کر نہ جایا کرو اور اگر بلاۓ جانے پر کبھی جایا کرو تو کھانے کے وقت سے پہلے نہ جایا کرو اور کھانے کے بعد بھی باتوں میں مشغول ہونے کے بجاۓ رُخصت ہو جایا کرو کیونکہ تُمہارا یہ بے نظم طرزِ عمل تُمہارے نبی کی دل آزاری کا باعث ہوتا ھے لیکن وہ اپنی نرم دلی کے باعث تُم پر اپنی ناراضی ظاہر نہیں ہونے دیتے اِس لیۓ اللہ نے تُمہاری تعلیم و تربیت کے لیۓ تُم پر یہ حقیقت ظاہر کردی ھے تاکہ اِس حُکم کے بعد تُم جب بھی اللہ کے نبی کے کسی گھر میں جاؤ اور نبی کو گھر میں موجُود نہ پاؤ اور نبی کی بیویوں سے کام کی کوئی بات کہنی سننی چاہو تو تُم دَر پر لگے پردے کی اوٹ میں رہ کر اپنی وہ بات کہہ سن لیا کرو کیونکہ گھر میں آنے اور گھر میں رہنے والوں کی پاکیزہ دلی کا یہی ایک پاکیزہ طریقہ ھے اور تُم پاکیزہ دل لوگوں کے لیۓ تو یہ بات کسی طور پر بھی مناسب نہیں ھے کہ تُمہاری کوئی بات تُمہارے نبی کے لیۓ دل آزاری کا باعث بن جاۓ !
مطالبِ اٰیت و مقاصدِ اٰیت !!
قُرآنِ کریم کے حُکمِ حجاب علی الباب کے بارے میں اہلِ روایت کا پہلا مقصد یہ تھا کہ قُرآنِ کریم کے اِس حُکم کو قُرآنِ کریم کے حُکم جلباب علی الجیوب کے ساتھ اِس طرح خلط ملط کر دیا جاۓ کہ گھر کے اندر اور گھر کے باہر ہر ایک مقام پر پردے کا ایک ہی نقش آویزاں کر دیا جاۓ جو اُن کے ذہن میں ھے اور پردے کے اِس حُکم کو حجاب کے نام سے متعارف کرایا جاۓ تاکہ گھر کے اندر اور باہر اُن کی خواہش کے مطابق ایک ہی پردہ اور ایک ہی طرح کا پردہ رواج پا جاۓ اور اہلِ روایت کا دُوسرا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالٰی کے حُکمِ حجاب علی الباب کے بارے میں ایسی روایاتِ حدیث وضع کی جائیں جن سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ اللہ تعالٰی کے اِس حُکم کو تو نبی علیہ السلام نے بذاتِ خود ہی اپنے ایک حُکم سے ختم کر دیا تھا اور ازواجِ مطہرات میں سے بعض ازواجِ مطہرات نے بھی حیاتِ نبوی میں ہی اللہ تعالٰی کے اِس حُکم کو ترک کر کے نبی علیہ السلام ملنے والے اصلاحی حُکم پر عمل کرنا شروع کر دیا تھا ، اہلِ روایت کے اُس پہلے مقصد کا حوالہ اِس سے پہلے گزر چکا ھے اور اُن کے اِس دُوسرے مقصد کا ایک حوالہ امام ابن ماجہ متوفٰی 275 ہجری کی کتاب سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1943 ھے جس میں اُنہوں نے بتایا ھے کہ { قالت عائشة : جاءت سھلة بنت سھیل الی النبی فقالت : یا رسول اللہ انی ارٰی فی وجه ابی حذیفة الکراھیة من دخول سالم علیّ فقال النبی ارضعیه ، قالت کیف ارضعه وھو رجل کبیر فتبسم رسول اللہ وقال قد علمت انه رجل کبیر ففعلت فاتت النبی فقالت مارایت فی وجه ابی حذیفة شیئا اکرھه بعد } یعنی سیدہ عائشہ سے مروی ھے کہ سہلہ بنت سہیل نے نبی اکرم کے سامنے حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں دیکھتی ہوں کہ سالم جب ھمارے گھر میں آتا ھے تو میرے شوہر ابوحذیفہ کے چہرے پر ناگواری کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں ، اِس پر نبی اکرم نے فرمایا کہ تُو اُس کو اپنا دودھ پلا دے ، اِس پر اُس نے عرض کیا کہ میں بَھلا اُس کو کس طرح دودھ پلا سکتی ہوں ، وہ تو ایک بڑی عمر کا آدمی ھے جس پر نبی اکرم نے مسکراتے ہوۓ فرمایا کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ بڑی عمر کا آدمی ھے لیکن جب اُس نے یہ عمل کر لیا تو اُس کے بعد ایک روز نبی اکرم کو آکر بتایا کہ اَب ابی حذیفہ کے چہرے کی ناگواری ختم ہو گئی ھے ، یعنی اُس خاتون کا اپنے غلام سالم کو اپنا دودھ پلانا ایک ایسا جادُوئی عمل تھا جس جادُوئی عمل کے ہوتے ہی سالم کے ساتھ ابی حذیفہ کی کراہت اُس کی محبت میں بدل گئی اور اہلِ روایت کے اِس قولِ باطل کے مطابق اُس عورت کو یہ جادُوئی عمل نبی علیہ السلام نے بذاتِ خود سکھایا تھا اور اِس عمل کا مطلب یہ ھے کہ اگر کسی عورت کے گھر میں کسی مرد کا آنا جانا ھے جس کو اُس گھر کا مرد پسند نہیں کرتا تو اُس عورت کو چاہیۓ کہ وہ اُس مرد کو اپنا دودھ پلادے اور جب وہ اُس کو اپنا دودھ پلادے گی اُس عورت کے شوہر کے دل سے اُس مرد کی ناپسندیدگی ختم ہو جاۓ گی ، امام ابن ماجہ کی کی یہی ایک حدیث انسانی اَخلاقیات کو تباہ کرنے کے لیۓ اگرچہ بذات خود ہی کافی تھی لیکن اُن کی اِس حدیث کو مزید مؤثر علی التاثیر بنانے کے لیۓ امام ابو داؤد متوفٰی 273 ہجری نے اِس پر جو مزید شرمناک اضافہ کیا ھے وہ یہ ھے کہ { کانت عائشة تامر بنات اخواتھا و بنات اخوانھا ان یرضعن من احبت عائشة ان یرٰھا و یدخل علیھا وان کبیرا خمس رضعات ثم یدخل علیھا وابت ام سلمة وسائر ازواج النبی ان یدخلن علیھن بتلک الرضاعة احد من الناس حتٰی یرضع فی المھد وقلن لعائشة واللہ ماندری لعلھا کانت رخصة من النبی لسالم دون الناس } یعنی عائشہ صدیقہ اپنی بہنوں اور بھائیوں کی بچیوں کو اِس امر کی تاکید کیا کرتی تھیں کہ وہ اپنے من پسند مردوں کو دودھ پلائیں اور عائشہ کو جس شخص کا دیکھنا محبوب اور گھر میں لانا مطلوب ہوتا تھا تو وہ اُس شخص کو پانچ گھونٹ دودھ پلاتی تھیں تو وہ ان کے گھر میں آنے کا حق درار ہو جاتا تھا اِس سے قطع نظر کہ وہ عمر میں کتنا بڑا ھے بخلاف اِس کے کہ ام سلمة اور دوسری ازواج مطہرات اس بات کو ناپسند کرتی تھیں اور وہ ہر گز یہ نہیں چاہتی تھیں کہ کوئی شخص اُن کا رضاعی بیٹا بن کر ان کے گھر میں آۓ کیونکہ ان کا خیال یہ تھا کہ دودھ پلانے اور بیٹا بنانے کا ارشاد نبوی صرف سالم کے لیۓ خاص ھے ہر ایک کے لیۓ عام نہیں ھے ، ہر چند کہ اِس سلسلہِ خبیثہ کی یہی دو واہیات روایات نہیں ہیں بلکہ بیشمار روایات ہیں جن میں سے کُچھ روایات کا ھم قُرآن کے حُکمِ جلباب کے ضمن میں کُچھ ذکر کریں گے تاہم یہ دو روایات اُن اہلِ روایات کے قُرآن دشمن جذبوں کی اُس پُوری کیفیت کو عیاں کر دیتی ہیں جس کے بارے میں سوچ کر ہی انسان غرقِ حیرت ہو جاتا ھے کہ کہاں قُرآن کا وہ حُکمِ حجاب کہ جس کی رُو سے ایک مسلمان جب بھی کسی کام کی غرض سے نبی علیہ السلام کے گھر پر جاۓ اور وہ نبی علیہ السلام کو گھر پر موجُود نہ پاکر آپ کی کسی بیوی سے کوئی بات کرنا چاھے تو وہ گھر کے دَر پر لگے ہوۓ پردے کی اوٹ میں اوجھل ہو کر اور اوجھل رہ کر نبی علیہ السلام کی اُس بیوی سے بات کرے اور کہاں اہلِ روایت کی یہ قُرآن دُشمن و ایمان سوز روایات کہ جن کے ذریعے وہ قُرآن دشمن و صاحبِ قُرآن دشمن اور اَصحابِ صاحبِ قُرآن دشمن اہل روایت جو اپنی اِس قلبی بے حیائی کو کُھلے عام نبی علیہ السلام اور آپ کی ازواجِ مطہرات کی طرف منسوب کر کے اُمت کو گم راہ کر رھے ہیں اور قُرآن کے وہ دشمن قُرآن کے خلاف اپنے یہ سارے قُرآن دشمن اعمال دینِ اسلام کے نام پر کر رھے ہیں جن کا دین سے دُور کا بھی کوئی تعلق نہیں ھے اِس لیۓ اِن روایات کو پڑھنے والا ہر انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ھے کہ کہاں قُرآن کا روشن گُلستان اور کہاں اہلِ روایت کا تلاش کیا ہوا یہ تاریک بیابان ؏

چہ نسبت است برندی صلاح و تقوٰی را

چراغِ مُردہ کجا شمعِ آفتاب کجا
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 470234 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More