یہ ظالم اُمت اور یہ مظلوم مائیں !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 54 ، 55 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ان تبدو
شیئااوتخفوه فان
اللہ کان بکل شئی علیما 54
لاجناح علیھن فی اٰبائھن ولا ابنائھن
ولااخوانھن ولاابناء اخوانھن ولاابناء اخواتھن
ولانسائھن ولاماملکت ایمانھن واتقین اللہ ان اللہ
کان علٰی کل شئی شھیدا 55
تُم جس چیز کو دل میں چُھپاتے ہو اور تُم جس چیز کو زبان پر لاتے ہو اللہ تو اُن دونوں ظاہر و باطن چیزوں کو ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ جانتا ھے ، ھم نے اپنے نبی کی جن بیویوں کے لیۓ حجاب کے جو اَحکام جاری کیۓ ہیں اِن اَحکام کے بعد اِن کے باپ ، اِن کے بیٹے ، اِن کے بھائی ، اِن کے بھائی کے بیٹے اور اِن کی بہنوں کے بیٹے ، اِن کے میل جول کی عورتیں اور اِن کے گھروں میں کام کرنے والے مرد و زن اِن کے گھروں میں آسکتے ہیں اور نبی کے گھر کی اِن عورتوں کو ھدایت کی جاتی ھے کہ تُم اللہ کے اِن اَحکام کو ہمیشہ اپنی نگاہ میں رکھنا اور کبھی بھی اللہ کے اِس فرمان کی نافرمانی نہ کرنا اور یہ بات بھی ہمیشہ یاد رکھنا کہ تُمہارے جُملہ اعمال اللہ کی نگاہ میں ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا میں سے اِس پہلی اٰیت کا پہلا مضمون اُس پہلی اٰیت کے اُس پہلے مضمون کا خاتمہِ کلام ھے جو اُس سے پہلے گزرچکا ھے اور اٰیاتِ بالا میں سے اِس دُوسری اٰیت کا مضمون اُس نۓ مضمون کا آغازِ کلام ھے جس میں حُکمِ حجاب کے بعد سیدنا محمد علیہ السلام کی ازواجِ مطہرات کو وہ نئی ھدایات دی گئی ہیں جو اِس اٰیت کے اس مضمون میں بیان ہوئی ہیں اور اِن دونوں اٰیت کا مُتعلقہ مضمون وہی پہلا مضمون ھے جس میں اَصحابِ محمد علیہ السلام کو محمد علیہ السلام کے گھروں میں آنے جانے والے اہلِ ایمان کو اَزواجِ مطہرات کے ساتھ حجابِ دَر کی اوٹ میں اوجھل رہ کر بات چیت کرنے کی اجازت دی گئی تھی اور اَب اِس مضمون کی اِس تیسری اٰیت میں اَزواجِ مطہرات کو بھی اُن کے گھروں میں آنے جانے والے اُن اَفرادِ مرد و زن کے آنے جانے کے بارے میں کُچھ خصوصی ھدایات دی گئی ہیں جو اِس سے پہلے عمومی طور پر سُورَةُالنُور کی اٰیت 58 سے لے کر اٰیت 61 تک تفصیل سے بیان ہو چکی ہیں اور قُرآنِ اِن دونوں مقامات پر بیان کی گئی اٰیات کے سارے حوالوں کے ساتھ اِس اَمر کی شہادت دے رہا ھے کہ محمد علیہ السلام کی ازواجِ مطہرات نے اُس وقت بھی اللہ کی اِن ھدایات سے انحراف نہیں کیا تھا جب اِن کو سُورَہِ نُور میں محض مُسلم خواتین کے طور پر یہ ھدایات دی گئی تھیں اور اُس کے بعد اِس وقت بھی اُنہوں نے اللہ تعالٰی کی اِن اٰیات سے اعراض نہیں کیا ھے جب اِن کو محمد علیہ السلام کی ازواجِ مطہرات کے طور پر یہ ھدایات دی گئی ہیں لیکن قُرآن کے دشمن اہلِ روایت قُرآنِ کریم کی اِن تمام سَچی شہادتوں کے علی الرغم اپنی جن جُھوٹی روایات میں محمد علیہ السلام کی اَزواجِ مطہرات پر بالعموم اور سیدہ عائشہ صدیقہ پر بالخصوص اللہ تعالٰی کے حُکمِ حجاب سے اعراض و انحراف کا بُہتان لگایا ھے اُس کی ایک مثال امام ابن ماجہ کی کتاب سُننِ ابن ماجہ کی حدیت 1943 ، اور امام ابو داؤد کی کتاب سُننِ ابو داؤ کی حدیث 2061 ھے جس کا اَحوال اِس سے پہلے گزر چکا ھے اور اہلِ روایت کی اُسی قُرآن دشمنی کا ایسا ہی ایک اور نمونہ امام بخاری کی کتابِ بخاری کی کتاب الغسل کی حدیث 251 ھے جس میں کہا گیا ھے کہ { حدثنا ابو بکر بن حفص قال : سمعت ابا سلمة یقول دخلت انا واخو عائشة علٰی عائشة فسالھا اخوھا غسل رسول اللہ فدعت باناء نحو من صاع فاغتسلت و افاضت علٰی راسھا و بیننا و بینھا حجاب } یعنی مُجھ سے ابو بکر بن حفص نے بیان کیا ھے اور اُس نے ابی سلمہ سے سنا ھے کہ میں سیدہ عائشہ صدیقہ کے بھائی کے ساتھ سیدہ عائشہ کے پاس گیا اور اُن کے بھائی نے اُن سے نبی اکرم کے نہانے کے بارے میں سوال کیا ، سیدہ عائشہ نے ایک برتن منگوایا جس میں صاع کے برابر پانی تھا ، پھر انہوں نے اِس طرح غسل کیا اور سر پر پانی بہایا کہ ھمارے اور اُن کے درمیان ایک پردہ پڑا تھا ، اِس جُھوٹی روایت کا تجزیہ کرنے کے لیۓ ھم عرض کریں گے کہ غسل کی دو قسمیں ہیں ، ایک غسلِ نفاست اور ایک غسلِ نجاست ، غسلِ نفاست کا مقصد سر سے پیروں تک جسم پر پانی بہانا ، جسم کی گاد ، میل اور کیچ و کثافت اُتار کر کثافت سے نفاست کی حالت پر واپس آنا ہوتا ھے ، غسل کی یہ صورت فطرت کا حصہ ھے اور فطرت کی انگیخت پر کبھی کبھی یہ عمل جسم و جان سے بیگانے اور دیوانے لوگ بھی کر لیتے ہیں جبکہ غسل کی دُوسری قسم جنابت بتائی جاتی ھے ، اِس سے قطع نظر کہ جنابت کا حقیقی مفہوم کیا ھے ، جنابت کی معروف تعریف کے مطابق غسلِ جنابت کا حاصل یہ ھے کہ پہلے جسم پر موجُود نجاست و کثافت کو دھویا جاۓ ، پھر وضو کے طریقے پر ناک و مُنہ اور حلق کو آب آشنا کیا جاۓ اور سب سے آخر میں جسم پر سر سے لے کر پیروں تک پانی بہایا جاۓ تاکہ جسم جنابت کی حالت سے طہارت کی حالت پر واپس آجاۓ ، بخاری کی اِس حدیث کی دل چسپ بات یہ ھے کہ بخاری کے یہ غائب دماغ راوی جو حدیثِ رضاعت میں سیدہ عائشہ کے رضاعی بھائی کا نام بھول گۓ تھے اور اِس حدیث میں اُن کو سیدہ عائشہ کے نسبی بھائی عبداللہ و عبدالرحمان کا نام بھی بھول گیا ھے ، اُن کے پہلے بھائی عبداللہ جو نبی اکرم کے سفرِ طائف کے ساتھی اُن کا عھدِ صدیقی میں انتقال ہو گیا تھا اِس لئے اُن کے دُنیا میں واپس آکر اپنی بہن سے غسل کرنے کا طریقہ معلوم کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اُن کے دُوسرے بھائی عبدالرحمان جن سے اہلِ روایت حدیث نقل کرتے ہیں اُن کا 53 ہجری میں انتقال ہو گیا تھا اِس لیۓ اُن سے بھی اِس بیخبری کا کوئی امکان نہیں ھے کہ وہ حدیث تو بیان کرتے ہوں لیکن غسلِ جنابت و غسلِ نفاست کے عمل سے ناآشنا ہوں ، اَب لے دے کہ ایک محمد بن ہی علی رہ جاتے ہیں جن کو اہلِ روایت نے محمد بن ابو بکر کے نام سے مشہور کر رکھا ھے کیونکہ حضرت علی کی مُبینہ نو بیویوں میں سے ایک مُبینہ بیوی اسماء بنت عمیس اِن کے نکاح میں آنے سے پہلے حضرت ابو بکر کے نکاح میں تھیں اور محمد بن علی ان ہی کے بطن سے پیدا ہوۓ تھے ، اِس صورتِ حال کی بنا پر ھم فرض کر لیتے ہیں کہ سیدہ عائشہ کے بھائی سے رواةِ بخاری کی مُراد یہی محمد بن ابو بکر ہیں مگر ھم یہ کیسے فرض کر سکتے ہیں کہ باب العلم کا یہ بیٹا بدن پر پانی بہانے کے اُس فطری احساس تک سے عاری تھا جو ہر انسان میں بھوک اور پیاس کی طرح موجُود ہوتا ھے اور بالفرض ایسا تھا بھی تھا تو کیا اَصحابِ محمد میں سے کسی ایک صحابی کو بھی غسل کا طریقہ نہیں آتا تھا جس سے وہ پُوچھتا اور اُس کو وہ بتاتا ، پھر یہ بھی کیا ضروری تھا کہ جو سوال ایک عورت دُوسری عورت سے پوچھتے ہوۓ بھی شرماتی ھے وہ سوال پوچھنے کے لیۓ وہ سیدھا اپنی بہن ام المؤمنین عائشہ صدیقہ کے پاس پُہنچ جاتا اور وہ اِس کی فرمائش پر غسل کا عملی مظاہرہ کر کے اِس کو غسل کا طریقہ سکھاتی اور سمجھاتیں ، حقیقت یہ ھے کہ درحقیقت تو یہ سوال سرے سے کوئی سوال ہی نہیں ھے جو اِن بد زبان راویوں نے سیدہ عائشہ کا اور اُس مُسلم معاشرے کا تمسخر اُڑانے کے لیۓ اُس قُرآنی معاشرے کے بارے میں بنایا اور پھیلایا ھے جو ایک مثالی مُسلم معاشرہ تھا لیکن بخاری کے یہ ذہنی بخار میں مُبتلا راویو نے دراصل اہلِ اسلام سے اہلِ اسلام کا تمسخرانہ اُڑانے کے لیۓ یکیا ھے جس کا مقصد اُن سے یہ پُوچھ کر اُن کا شرمندہ کرنا تھا اور شرمندہ کرنا ھے کہ یہی تھا تُمہارا وہ مثالی انسانی معاشرہ جس میں ایک بھائی ایک اَجنبی مرد کو لے کر اپنی بہن سے غسل کا طریقہ معلوم کرنے کے لیۓ پُہنچ جاتا ھے اور اُس کی بہن بھی اُس کو عام لفظوں میں بات سمجھانے کے بجاۓ ایک باریک پردے کی اوٹ سے غسل کا عملی مظاہرہ کر کے اُن کا غسل کو غسل کا طریقہ دکھاتی ھے اور یہی تُمہارا وہ مثالی اسلامی معاشرہ ھے جس پر تُم فخر کرتے ہو اور جس کی تُم دُنیا کو مثالیں دیتے پھر رھے ہو !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 529830 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More