اٰیاتِ حجاب اور روایاتِ حجاب !! { 2 }

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 53 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیت !!
یٰایھاالذین
اٰمنوالاتدخلوابیوت
النبی الّا ان یؤذن لکم الٰی
طعام غیر ناظرین انٰه ولٰکن اذا
دعیتم فادخلوا فاذاطعمتم فانتشروا
ولا مستاسنین لحدیث ان ذٰلکم کان یؤذی
النبی فیستحی منکم واللہ لایستحی من الحق
واذاسالتموھن متاعا فسئلوھن من وراء حجاب ذٰلکم
اطھر لقلوبکم وقلوبھن وماکان لکم ان تؤذوارسول اللہ ولا
ان تنکحواازواجه من بعدهٖ ابدا ان ذٰلکم کان عنداللہ عظیما 53
اے اہلِ ایمان ! تُم اپنے نبی کے گھروں میں بن بلاۓ مہمان بن کر نہ جایا کرو اور اگر بلاۓ جانے پر کبھی جایا کرو تو کھانے کے وقت سے پہلے نہ جایا کرو اور کھانے کے بعد باتوں میں مشغول ہونے کے بجاۓ رُخصت ہو جایا کرو کیونکہ تُمہارا یہ بے نظم طرزِ عمل تُمہارے نبی کی دل آزاری کا باعث ہوتا ھے لیکن وہ اپنی نرم دلی کے باعث تُم پر اپنی ناراضی ظاہر نہیں ہونے دیتے اِس لیۓ اللہ نے تُمہاری تعلیم و تربیت کے لیۓ تُم پر یہ حقیقت ظاہر کردی ھے تاکہ اِس حُکم کے بعد جب تُم اللہ کے نبی کے کسی گھر میں جاؤ اور نبی کو گھر میں موجُود نہ پاؤ اور نبی کی بیویوں سے کام کی کوئی بات کہنی سننی چاہو تو تُم در پر لگے پردے کی اوٹ میں رہ کر اپنی وہ بات کہہ سن لیا کرو کیونکہ گھر میں آنے اور گھر میں رہنے والوں کی پاکیزہ دلی کا یہی ایک پاکیزہ طریقہ ھے اور تُم پاکیزہ دل لوگوں کے لیۓ تو یہ بات کسی طرح بھی مناسب نہیں ھے کہ تُمہاری کوئی بات تُمہارے نبی کی دل آزاری کا باعث بن جاۓ !
مطالبِ اٰیت و مقاصدِ اٰیت !
اٰیتِ بالا کے مفہومِ بالا سے یہ بات یقین کے ساتھ معلوم ہوجاتی ھے کہ سیدنا محمد علیہ السلام کی ذات کوئی ایسی تنگ دست و تہی دست ذات نہیں تھی جیسی اہلِ روایت اپنی روایات میں یہ دکھانے کے لیۓ دکھاتے اور متعارف کراتے ہیں کہ سیدنا محمد علیہ السلام سیدہ خدیجہ کی دولت و امارت پر گزر بسر کرتے تھے اور اسی وجہ سے آپ نے پچیس سال کی عُمر میں چالیس سال کی عُمر والی سیدہ خدیجہ سے شادی کی تھی حالانکہ ان ہی اہلِ روایت میں حافظ عمادالدین ابنِ کثیر بھی ایک روایت پرست مُفسر اور مؤرخ جنہوں نے اِس اَمر کی تصریح کی ھے کہ { انه کان عمر رسول اللہ حین تزوج خدیجة خمسا و عشرین سنة وکان عمر ما اذ ذاک خمسا و ثلثین و قیل خمسا و عشرین سنة } یعنی اِس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ نبی اکرم نے جب سیدہ خدیجہ سے نکاح کیا تو اُس وقت آپ کی عُمر پچیس سال تھی جبکہ سیدہ خدیجہ کی عُمر ایک قول کے مطابق پینتیس سال اور دُوسرے قول کے مطابق صرف پچیس سال تھی لیکن ھمارے نزدیک اھم بات صرف یہ ھے کہ قُرآنِ کریم اپنی اِس اٰیت میں نہ صرف آپ کی عسرت و تنگ دستی کی تردید کر رہا ھے بلکہ وہ اپنی اِس اٰیت میں اِس اَمر کی بھی تصریح کر رہا ھے کہ محمد علیہ السلام کی ہستی اہلِ ایمان کے درمیان اُس کشادہ دل و کشادہ دست ہستی کے طور پر جانی جاتی تھی جس ہستی کے اکثر اَصحاب و احباب ہی اُس ہستی کے بلاۓ جانے پر اُس کے گھر پر کھانا کھانے کے لیۓ نہیں جات تھے بلکہ آپ کے اُس کشادہ دستر خوان کی خبر سُن کر وہ مفلوک الحال نو مُسلم بھی آپ کے گھر کی طرف چلتے چلے آتے تھے جن کو یقین ہوتا تھا کہ آپ کے گھر سے اُن کو کسی بھی وقت کھانے کے لیۓ کُچھ نہ کُچھ ضرور مل جاۓ گا اور پھر اِن بلاۓ ہوۓ اَصحاب اور اِن بن بلاۓ اَحباب کی یہ آمد و رفت زیادہ ہوتے ہوتے اتنی زیادہ ہوگئ تھی کہ اللہ تعالٰی نے اٰیتِ بالا میں اُن کے لیۓ وہ قوانین جاری فرماۓ جن قوانین میں قُرآن کا وہ قانُونِ حجاب بھی شامل ھے جس قانُونِ حجاب کے بارے میں اہل روایت ایک طرف تو اپنی روایتی شانِ نزول میں یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ واقعہ اُس روز وقوع پزیر ہوا تھا جس روز زینب کے ساتھ آپ کے نکاح کی دعوتِ ولیمہ ہوئی تھی اور اُس دعوت میں آپ کو کُچھ لوگوں کا قبل اَز وقت آنا اور کُچھ لوگوں کا کھانے کے بعد دیر تک بیٹھے رہنا ناگوار گزرا تھا جس پر اللہ تعالٰی نے اِس اٰیت کی صورت میں یہ تہدید نازل فرمائی تھی اور دُوسری طرف یہی دو رُخے اہلِ روایت اللہ تعالٰی کی اِسی تہدید کے بارے میں حضرت انس کے حوالے سے امام بخاری کی کتاب التفسیر میں لائی گئی وہ حدیث 4791 بھی پیش کرتے ہوۓ نہیں شرماتے ہیں جس حدیث میں کہا گیا ھے کہ { قال عمر ، قلت یا رسول اللہ یدخل علیک البر والفاجر فلو امرت امھات المؤمنین بالحجاب فانزل اللہ اٰیة الحجاب } یعنی حضرت انس نے بتایا ھے کہ اُن سے حضرت عمر نے کہا ھے کہ میں نے نبی علیہ السلام سے عرض کیا تھا کہ آپ کے گھر میں شریف اور بد کار ہر طرح کے لوگ آتے رہتے ہیں اِس لیۓ مناسب ہو گا کہ آپ امہات المؤمنین کے لیۓ پردے کا حُکم جاری فرمائیں جس کے بعد پردے کی یہ اٰیت نازل ہوئی تھی ، اہلِ روایت کی اِس پہلی خیالی شانِ نزول میں صرف ایک نکاح و لیمے کے اُس ایک واقعے کا ذکر کیا گیا ھے جس ایک واقعے کا وہ ذکر کرنا چاہتے تھے لیکن اُنہوں نے اپنی اِس روایت کو جس اٰیت کی شانِ نزول بتایا ھے وہ اٰیت اُن مُتععدد واقعاتی اَحوال کی نشان دہی کرتی ھے جو ایک تواتر کے ساتھ رُونما ہوتے تھے اور ہو رھے تھے اِس لیۓ قُرآن کی اِس اٰیت کے اُس مُختلف الجہات مضمون اور اہلِ روایت کی اِس حدیث کے مضمون کے مابین کوئی معنوی مطابقت ہی موجُود نہیں ھے اور جہاں تک اہلِ روایت کی اِس دُوسری روایتِ حدیث کی دُوسری خیالی شانِ نزول کا تعلق ھے تو اِس بات میں ہر گز کوئی شک و شبہ نہیں ھے کہ سیدنا عمر اصحابِ محمد علیہ السلام کے درمیان اپنی دینی فراست و بصیرت کے حوالے سے ایک امتیازی شان اور شناخت رکھتے تھے لیکن بخاری کی اِس روایتِ حدیث میں اُن کی جو عظمت و شان ظاہر کی گئی ھے اگر اُن کی وہ عظمت و شان کسی انسان کے مقابلے میں ظاہر کی گئی ہوتی تو یہ ضرور ایک قابلِ فہم بات ہوتی لیکن اِس حدیث میں تو اُن کی یہ عظمت و شان اللہ تعالٰی اور اللہ تعالٰی کے رسولِ مقبول کے مقابلے میں کُچھ اِس طرح پر ظاہر کی گئی ھے کہ اِس حدیث کے مطابق جو نیک و بد لوگ سیدنا محمد علیہ السلام کے گھروں میں آتے تھے اُن لوگوں کے اَحوالِ نیک و بد کے بارے میں حضرت عمر تو سب کُچھ جانتے تھے لیکن اللہ تعالٰی اور اُس کا رسُول دونوں ہی کُچھ بھی نہیں جانتے تھے اور وہ تو خیر گزری کہ حضرت عمر نے اپنی اِس راۓ کا اظہار کردیا جس راۓ کے مطابق یہ اٰیت نازل ہو گئی جس میں حجاب کا حُکم بھی آگیا اور آپ کی ازواجِ مطہرات نے اُمت کی مائیں ہونے کا بھی درجہ حاصل کر لیا ، اگر حضرت عمر اپنی اِس راۓ کا اظہار نہ کرتے تو اللہ اور اُس کا رسول دونوں ہی اِس صورتِ حال سے بیخبر کے بیخبر ہی رہ جاتے اور قُرآنِ کریم میں اللہ تعالٰی کا یہ فرمان کبھی نازل ہی نہ ہوتا جو اُن کی اِس راۓ کے بعد اِس اٰیت کی صورت میں نازل ہوا ھے ، اہلِ روایت اپنی اِن روایات سے اٰیتِ بالا کے جن مقاصد کو تحلیل کر نے کے بعد اپنے جن مقاصد کی تَکمیل کرنا چاہتے ہیں اُن مقاصد میں سے اُن کا پہلا مقصد یہ ثابت کرنا ھے کہ عورت گھر کے اندر اور گھر کے باہر ہر ایک جگہ پر کپڑے میں لپیٹ اور سمیٹ کر رکھنے کی ایک چیز ھے اور اِس کو صرف اُس وقت اِس پردے سے باہر لانا ہوتا ھے جس وقت اُن کے نفسِ اَمارہ کو اِس کے جسمِ حاجت روا سے اپنی حاجت روائی مطلوب ہوتی ھے ، اہلِ روایت نے اِس مقصد کے حصول کے لیۓ پہلے تو حجاب اور جلباب کو ایک دُوسرے کا ہم معنی بنا کر ایک دُوسرے میں ضم کیا ھے اور اُس کے بعد اُنہوں نے وہ باطل روایات وضع کی ہیں اور پھر اُن باطل روایات سے یہ ثابت کرنے کی سعی کی ھے کہ حجاب کا یہ حُکم تو خود ازواجِ مطہرات نے ہی عھدِ نبوی اور حیاتِ نبوی میں رَد کر دیا تھا ، اگر ھم اِس ترتیبِ کلام کے مطابق پہلے مقصد کا پہلے ذکر کریں تو اُس کے لیۓ ھم بخاری کی کتاب المغازی کی اُس روایتِ حدیث 4141 کو پیش کریں گے جس روایتِ حدیث میں اہلِ روایت نے پہلے سیدہ عائشہ صدیقہ کے ایک گُم شدہ ہار کی ایک کہانی وضع کی ھے اور اِس کے بعد اُنہوں نے اپنی اُس وضعی کہانی کے درمیان سیدہ عائشہ صدیقہ کی زبان سے یہ الفاظ کہلواۓ ہیں کہ { فبینا انا جالسة فی منزلی غلبتنی عینی فنمت وکان صفوان بن المعطل السلمی ثم الذکوانی من وراء الجیش فاصبح عند منزلی فراٰی سواد انسان نائم فعرفنی حین راٰنی وکان راٰنی قبل الحجاب فاستیقظت باسترجاعه حین عرفنی فخمرت وجھی بجلبابی } یعنی جب میں ہار ڈھونڈنے میں ناکام ہو کر قافلے میں واپس آئی تو قافلہ وہاں سے جا چکا تھا اِس لیۓ میں تھک ہار کر ایک جگہ پر بیٹھ گئ اور پھر نہ جانے کس وقت میری آنکھ لگ گئی اور میں گہری نیند میں چلی گئی یہاں تک کہ اگلی صبح صفوان بن معطل جو اِس غرض سے لشکر کے پیچھے رہا کرتا تھا کہ وہ اِس لشکر کی گری پڑی چیزیں اُٹھاۓ ، وہ میرے اِس ٹھکانے پر آیا اور اُس نے مجھے سوتے ہوۓ پایا اور دیکھتے ہی مجھے پہچان گیا کیونکہ حجاب کا حُکم نازل ہونے سے پہلے اُس نے مجھے دیکھا تھا ہوا تھا اِس لیۓ اُس نے مجھے پہچان کر انا للہ و انا الیہ راجعون کہا تو میں جاگ گئی اور میں نے اُس کو دیکھ کر فورا ہی اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانپ لیا ، امام بخاری کے اِس راوی نے اِس روایت میں حصولِ مقصد کے لیۓ صرف حجابِ دَر اور جلبابِ سینہ و سر کو ہی ایک دُوسرے کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا ھے بلکہ اُس نے حجاب کے ایک سال بعد نازل ہونے والے حُکم کو بھی دو سال پہلے نازل ہونے والا ایک حُکم ظاہر کیا ھے حالانکہ جس برس کے جس واقعے کا اُس نے ذکر کیا ھے اُس برس کا وہ واقعہ ماہِ شعبان 6 ہجری بمطابق 626 عیسوی کو پیش آیا ھے اور حجاب کا حُکم اُس کے بھی ایک سال بعد ماہِ ذیقعد 7 ھجری بمطابق 627 عیسوی میں نازل ہوا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 470101 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More