السلام علیکم! محترم جناب ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختون خواہ


اسی طرح پشاور سپورٹس کمپلیکس کے لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم میں کھلاڑیوں کی چینجنگ روم کو قبضہ بھی آپ کو وراثت میں ملا ہے جس کی وجہ سے آج بھی پشاور جیسے شہر کے ہاکی سٹیڈیم میں نہ صرف مرد بلکہ خواتین کھلاڑی بھی باتھ رومز میں کٹس تبدیل کرنے پر مجبور ہیں .جس پر متعدد مرتبہ کھلاڑیوں کی جانب سے شکایت کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لیا گیا . حال ہی میں ہونیوالے ہاکی لیگ کے پہلے ایڈیشن کے فاتح ' رنر اپ اور تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے ٹیم کیلئے اعلان کردہ رقوم بھی ابھی تک نہیں ملی . جشن آزادی میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کو بھی انعامی رقوم نہیں ملی ہیں شائد یہ فنڈز کی کمی ہو یا کچھ اور مسئلہ. لیکن اس کے اثرات نہ صرف کھیل بلکہ کھلاڑیوں پر بھی پڑ رہے ہیں.

جناب عالی !

امید ہے کہ آپ بخیریت ہونگے ماحولیات سے سپورٹس ڈیپارٹمنٹ کا سفر یقینا الگ ہی ہے لیکن یہ بھی پاکستانی بیورو کریسی کی اپنی ہی روش ہے کہ جو بندہ کسی فیلڈ میں ماہر ہو جائے اسے اسی شعبے سے نکال کر دوسرے شعبے میں بھیجا جاتا ہے. وہ کیا کہتے ہیں ماسٹر آف آل .. خیر چھوڑیں.. یقینا آپ کو سپورٹس کا شعبہ ماحولیات کے شعبے سے الگ ہی نظر آئیگا . یہاں فیلڈ میں کام ہوتا ہے جو سب کو نظر آتا ہے جس کی بہت ساری وجوہات بھی ہیں .ماحولیاتی آلودگی کو رپورٹ کرتے ہوئے وہاں کے ماحو ل کا بھی اندازہ ہوا ہے . خیر یہاں سپورٹس ڈیپارٹمنٹ میں آپ کو الگ ہی کام نظر آئیگا. اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اس شعبے میں کس طرح ایڈجسٹ ہوتے ہیں. اور کس طرح" ماحول " بناتے ہیں.
جناب ڈائریکٹر جنرل صاحب!
میرے اس خط کا بنیادی مقصد کچھ ایشوز کی طرف آف کی توجہ دلانا ہے. بھلے سے آپ کو یہ چیزیں بری بھی لگے لیکن اس خط کا بنیادی مقصد آپ کا ہی بھلا ہے.مجھے یقین ہے آپ اس کو برا نہیں مانیں گے.
اس ڈیپارٹمنٹ میں آکر آپ کو ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار و افسران سمیت " سب اچھا " کی رپورٹ دینگے لیکن آپ خود ان چیزوں کا پتہ کریں اور کچھ چیزوں کی تہہ تک خود پہنچیں تو آپ کو انداز ہ ہو جائے گا کہ کس چیز کو کس طرح ہینڈل کرنا ہے.بیورو کریسی ویسے بھی بہت ساری چیزو ں کو ہینڈل کرنا جانتی ہے.اس ڈیپارٹمنٹ میں آپ کے پیش رو " اسفندیار خٹک" صاحب بہت زیادہ شریف آدمی تھے اس لئے کچھ چیزوں میں وہ بھی مار کھا گئے.جبکہ شریف آدمی کی اس ڈیپارٹمنٹ میں اتنی ہی عزت ہوتی ہے جتنی کہ پرائے کھیت میں گھسنے والے گدھے کی..
یہ مثال آپ کو شائد بری بھی لگے لیکن ڈائریکٹر جنرل صاحب !
نیب کی کچھ انکوائریاں آپ کو اس ڈیپارٹمنٹ سے وراثت میں ملی ہیں جن میں انڈر 21 کے مقابلوں میں ہونیوالی مبینہ گھپلوں سمیت ٹھیکیوں ' ٹینڈرنگ کے عمل میں من پسند افراد کو نوازنے کی انکوائریاں بھی شامل ہیں جس کی تحقیقات ہورہی ہیں اور مستقبل میں آپ ہی اس میں ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے پیش ہونگے اسی طرح بعض ممبران اسمبلی کی جانب سے زبردستی بھرتی کئے جانیوالے ڈیلی ویجر ملازمین بھی شامل ہیں جن کی تنخواہیں وزیراعلی کی ڈیپارٹمنٹ کو ادا کرنی پڑرہی ہیں . وزیراعلی خیبر پختونخواہ تو پارٹی سے مجبور ہیں کیونکہ انہوں نے ڈیپارٹمنٹ اور پارٹی دونوں چلانی ہی ہیں.
اسی طرح پشاور سپورٹس کمپلیکس کے لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم میں کھلاڑیوں کی چینجنگ روم کو قبضہ بھی آپ کو وراثت میں ملا ہے جس کی وجہ سے آج بھی پشاور جیسے شہر کے ہاکی سٹیڈیم میں نہ صرف مرد بلکہ خواتین کھلاڑی بھی باتھ رومز میں کٹس تبدیل کرنے پر مجبور ہیں .جس پر متعدد مرتبہ کھلاڑیوں کی جانب سے شکایت کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لیا گیا . حال ہی میں ہونیوالے ہاکی لیگ کے پہلے ایڈیشن کے فاتح ' رنر اپ اور تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے ٹیم کیلئے اعلان کردہ رقوم بھی ابھی تک نہیں ملی . جشن آزادی میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کو بھی انعامی رقوم نہیں ملی ہیں شائد یہ فنڈز کی کمی ہو یا کچھ اور مسئلہ. لیکن اس کے اثرات نہ صرف کھیل بلکہ کھلاڑیوں پر بھی پڑ رہے ہیں.
جناب ڈائریکٹر جنرل صاحب!
آپ کے ہی ڈیپارٹمنٹ میں کچھ ایسے کوچز بھی ہیں جو سرکار کی ڈیپارٹمنٹ میں اپنی مقررہ مدت پوری کر چکے ہیں لیکن ابھی تک وہ ڈیلی ویجز پر کام کررہے ہیں جبکہ ایسے بھی ہیںجن کی ذرا سی " محنت" نے انہیں مستقل ملازمین کی فہرست میں شامل کردیا ہے ' کچھ لوگ "بیورو کریسی " کے آنکھ کے تارے ہوتے ہیں انہی آنکھوں کی تاروں کی وجہ سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو بدنامی بھی ملی.یہ سن گن اور چہ میگوئیاں آپ کو اپنے ڈیپارٹمنٹ سے ہی مل جائینگی کیونکہ بہت سارے لوگ " اوپن " بولتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کہیں تبدیلی کا شکار نہ ہو جائیں یا پھر سرکار کی " بھینگی" آنکھ کا شکار نہ بنیں کیونکہ سرکار کی ایک آنکھ اگر ٹھیک ہے تو دوسری بھینگی " اور جو بھینگی آنکھوں کے سامنے آگیا تو پھر...
محترم ڈائریکٹر جنرل صاحب!
آپ کو سپورٹس ڈیپارٹمنٹ سے ملنے والی وراثتی چیزوں میںایک چیز کچھ ملازمین کے کیسز بھی ہیں جن کے ساتھ ڈیپارٹمنٹ نے ناانصافی کی اور وہ انصاف کے حصول کیلئے عدالت کا دروازہ کٹھکٹھانے پر مجبور ہوگئے اسی طرح ایک خاتون ڈائریکٹر کیساتھ ہونیوالی ناانصافی کا ذکر نہ کرنا بھی ظلم ہوگی کہ کس طرح اسے گریڈ انیس سے گریڈ بیس میں متعلقہ پیریڈ گزارنے کے باوجود پروموشن نہیں دی جارہی .اور وہ غریب خاتو ن ہونے کی بناء پر اپنی ہی ڈیپارٹمنٹ میں ناانصافی کا شکار ہورہی ہیں.حالانکہ اس کی ترقی آپ کا آپشن بھی آپ ہی کے ڈیپارٹمنٹ میں موجود ہیں. لیکن اس پر سنجیدہ طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے تو شائد آپ اپنے ڈیپارٹمنٹ کو ایک نئے مقدمے سے بچا سکیں گے.
اسی ڈیپارٹمنٹ کی بہت ساری چیزوں میں سست روی کا شکار ایک اور چیز " رائٹ ٹو انفارمیشن" ہے کہ اگر کوئی شخص انفارمیشن مانگے تو وہ میسر نہیں کی جاتی اور کئی ماہ گزرنے کے باوجود بھی متعلقہ صارف کو " لارا لپا " لگایا جاتا ہے. یہی نہیں بلکہ آپ اپنے ڈیپارٹمنٹ میں عصر کے بعد داخل ہونیوالی بلیک شیشوں والی گاڑیوں کی فہرست منگوا کر دیکھ لیں کہ ان گاڑیوں میں داخل ہونے والے کس طرح سپورٹس کمپلیکس کو استعمال کرتے ہیں.اپنے ان ملازمین کی فہرست بھی منگوا لیں جو مذہب کی آڑ لیکر اپنی حرام کی کمائی کو" فتوئوں " کے ذریعے حلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اور کئی مہینے ڈیوٹی سے غائب رہتے ہیں .تنخواہیں سرکار سے غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی کے لیتے ہیں اور...
میری کچھ باتیں آپ کو یقینا بری ہی لگی ہونگی کیونکہ یہ سچ ہے اور سچ بہت کڑوا ہوتا ہے یقینا کچھ " لوگ " آپ کو ہی وفد کی صورت میں ملے ہونگے. جن کا بنیادی کام " خوشامد " اور مکھن لگانا "ہی ہے اور اس کی آڑ میں وہ بہت سارے کام نکال لیتے ہیں.لیکن ایسے خوشامدی افراد سے دور رہیں کیونکہ یہی نہ صرف آپ کے بلکہ پورے ڈیپارٹمنٹ کے لئے ناسور اور صحیح معنوں میں" جمعدار"ہیں وہ جمعدار نہیں جو کسی زمانے میں سیکورٹی والوں کو کہا جاتا ہے بلکہ پشاوریوں کی زبان میں وہ لوگ جو " جارو " لگا کر صفائی کرتے ہیں اور زبان سے چوم اور چاٹ کر صفائی کرنے کے بھی ماہر ہیں.
امید ہے کہ آپ ان گزارشات پر غور کرینگے اور نئے لائحہ عمل سے کام کرنے کی کوشش کرینگے.

والسلام..
سپورٹس رپورٹر

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 498796 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More