سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کو درپیش چیلنجز

دوسری طرف سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ایسے ملازمین بھی کوچز کے طور پر بھرتی ہوئے ہیں جن کا کام صرف " جی حضوری"کرنا ہے اور انہی جی حضوری کی بنیاد پر وہ ڈیپارٹمنٹ میں ہیں حالانکہ وہ دوسرے اداروں کیساتھ وابستہ ہیں اور وہاں سے بھی تنخواہیں لے رہے ہیں ایسے متعدد ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کام کررہے ہیں جو بنیادی طورپر مختلف ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں اور ان سے تنخواہیں لے رہے ہیں مگر ساتھ میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی بہتی گنگا میں بھی ہاتھ دھو رہے ہیں. بعض ایسے اہلکار بھی اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا حصہ ہیں جن کی ڈیوٹیاں کہیں اور پر لگی ہوئی ہیں مگر وہ اپنے متعلقہ اضلاع میں ڈیوٹی کے بجائے پشاورمیں ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں
وزیراعلی خیبر پختونخواہ کے پاس اضافی چارج کے طور پر رہنے والے وزارت کھیل و ٹورازم میں حال ہی میں ہونیوالی تبدیلیوں اور ٹرانسفرہو کرنئے تعینات ہونیوالے سیکرٹری کھیل سمیت ڈی جی سپورٹس کو متعدد اہم چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سب سے بڑا چیلنج حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں نئے بننے والے کرکٹ سٹیڈیم سمیت پشاورشہر میں بننے والے ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم کی بروقت تکمیل بھی شامل ہے جس کے بارے میں دعوی کیا جارہا ہے کہ اس میں نہ صر ف اگلے سال ہونیوالے پی ایس ایل کے میچز سمیت بین الاقوامی مقابلے بھی کروائے جائینگے . پی سی بی کی ٹیم سمیت وزارت کھیل کے حکام بھی متعدد مرتبہ ان دونوں جگہہوں کا دورہ کر چکے ہیں کنٹریکٹر بروقت کام مکمل کرنے کی یقین دہانی بھی کروا چکے ہیں مگر کا م کی رفتار کو دیکھتے ہوئے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ حیات آباد سپورٹس کمپلیکس اور ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم میں کام مکمل بروقت مکمل ہوگا. اسی طرح کھیلوں کی ایک ہزار سہولیات منصوبے میں بھی متعدد سکیمیں التواء کا شکار ہوگئی ہیں کیونکہ کم و بیش دو سو سکیمیں کرانے کے بعد اب بتایا جارہا ہے کہ یونین کونسل کی سطح پر کام کیا جائیگا اور جو کام ابھی تک کیا گیا ہے اسے مکمل کرنے کے بعد دیگر منصوبے شروع کئے جائینگے اسی باعث بہت سارے سکیمیں خاموشی کا شکا ر ہوگئی ہیں بعض جگہوں پر کنٹریکٹر کو ادائیگی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے کام سست رفتاری کا شکار ہوگیا ہے اور یوں کھیلوں کی ایک ہزار سہولیات منصوبہ صوبائی حکومت کی ناقص پالیسی کی وجہ سے فنڈز کی کمی کا شکار ہوکر رہ گیا ہے
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ملازمین کی کمی کا سامنا ہے ' حال ہی میں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے آئے ہوئے متعدد ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کو ان کے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ میں جانے کی ہدایت کی گئی جس کی وجہ سے کئی سالوں سے کھیلوں کی ڈیپارٹمنٹ میں کا م کرنے والے متعدد اہلکار اپنے ڈیپارٹمنٹ کو واپس چلے گئے ان لوگوں کی وجہ سے کسی حد تک کھیلوں کی سرگرمیاں چل رہی تھی تاہم صوبائی حکومت کی جانب سے جاری شدہ اعلامیہ کے بعد ان ڈی ایس اوز کے واپس جانے کے باعث مختلف اضلاع میں کھیلوں کی سرگرمیاں مکمل طور پر ختم ہو کر رہ گئی ہیں.نئے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفسران کی بھرتی کیلئے صوبائی حکومت نے احکامات تو جاری کئے ہیں مگر ان پر بھرتی کب ہوگی اور پھر کب انکے کام کا آغاز ہوگا .یہ وہ سوال اور چیلنج ہے جو نئے آنیوالے سپورٹس سیکرٹری اورڈائریکٹر جنرل کو سامنا کرنا پڑے گا موجودہ حکومت کھیلوں کی سرگرمیوں کو ہر سطح پر لانا چاہتی ہے ایسے میں کھیلوں کی سرگرمیاں بعض اضلاع میں مکمل طور پر بند ہے پھر ان میں کھیلوں کی سرگرمیاں کیسے ممکن ہے جس پر سپورٹس ڈائریکٹریٹ اور صوبائی وزیر کھیل محمود خان کو خو د سوچنے کی ضرورت ہے.
دوسری طرف سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ایسے ملازمین بھی کوچز کے طور پر بھرتی ہوئے ہیں جن کا کام صرف " جی حضوری"کرنا ہے اور انہی جی حضوری کی بنیاد پر وہ ڈیپارٹمنٹ میں ہیں حالانکہ وہ دوسرے اداروں کیساتھ وابستہ ہیں اور وہاں سے بھی تنخواہیں لے رہے ہیں ایسے متعدد ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کام کررہے ہیں جو بنیادی طورپر مختلف ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں اور ان سے تنخواہیں لے رہے ہیں مگر ساتھ میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی بہتی گنگا میں بھی ہاتھ دھو رہے ہیں. بعض ایسے اہلکار بھی اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا حصہ ہیں جن کی ڈیوٹیاں کہیں اور پر لگی ہوئی ہیں مگر وہ اپنے متعلقہ اضلاع میں ڈیوٹی کے بجائے پشاورمیں ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں .ان میں بعض ایسے افراد بھی شامل ہیں جو حال ہی میں تبدیل ہونیوالے ڈائریکٹر جنرل سپورٹس سے قبل کے بنائی ہوئی ڈی ایس او کی بھرتی کی پالیسی کے خلاف ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ صرف کھیلوں کا انعقاد ہی ڈی ایس او کی ذمہ دار ی ہے باقی کوئی ذمہ داری نہیںحالانکہ ان سے قبل کے ڈائریکٹر جنرل نے واضح پالیسی دی تھی کہ ڈی ایس اوز نہ صرف کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کرے گا بلکہ اس حوالے سے پی سی ون بھی تیار کرے گا مگر. برا ہو پرائیویٹ یونیورسٹیوں سے سپورٹس کے شعبے میں ماسٹر کی ڈگری دینے والوں کا ' ڈگری تو مل جاتی ہے مگر پھر خیر خیریت ہی ہوتی ہے.اور یہی خیر خیریت بہت سارے کوچز کو " مکھن بازی " پر مجبور کرتی ہیں. حال ہی میں صوبے میں ضم ہونیوالے قبائلی اضلاع کے ڈی ایس اوز اور کوچز بھی کچھ ایسے ہی ہیں ان میں بعض ایسے کوچز بھی ہیں جو ایک مخصوص شعبے کی وجہ سے بھرتی ہوئے اور چونکہ اس وقت پولٹیکل نظام موجود تھا اس لئے ایسے لوگ بھی لئے گئے ہیں جن کی قابلیت کسی اور شعبے میں ہیں مگر انہیں کسی اور مہارت کی بنیاد پر بھرتی کیا گیا حالانکہ جس شعبے میں انہیں لیا گیا ان کا انہیں کچھ پتہ ہی نہیں.ضم اضلاع میں بھرتی ہونیوالوں کا ریکارڈ بھی چیک کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر ان کے پاس کونسی مہارت ہے جس کی وجہ سے آج کی حکومت جو میرٹ میرٹ کی رٹ لگا رہی ہیں انہی کے دور میں بغیر میرٹ کے لوگ بھرتی ہوکر تنخواہیں لے رہے ہیں .سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں میرٹ کی بالادستی کو قائم رکھنا وزیراعلی کی بھی ذمہ داری ہے تاہم شائد وہ اپنے پارٹی کے ایم پی ایز سے مجبور ہیں اس لئے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ڈیلی ویجز کی بھرتی میں مخصوص حلقوں کے ایم پی ایز کا اثر بھی کم کرنا ضروری ہے کیونکہ انہی کی بنیاد پر سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں گروپنگ بھی ہوتی ہیں جو بعض اوقات بڑے بڑے مسائل کو جنم دیتی ہیں.
خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں نئے آنیوالے سیکرٹری سپورٹس اور ڈائریکٹر جنرل سپورٹس کو اس وقت مختلف ایسوسی ایشنز کے بارے میں چھان بین کی بھی ضرورت ہے کیونکہ بعض ایسوسی ایشنز میں کھیلوں سے وابستہ صحافیو ں کا بھی قبضہ ہے جس کی وجہ سے وہ صرف مخصوص کھیلوں کی فروغ کرتے ہیں حال ہی میں بیرون ملک جانیوالے ایک مخصوص کھیل سے وابستہ افراد کے افراد کے خلاف انکوائری بھی اسی سلسلے میں وفاقی حکومت کررہی ہیں کیونکہ اس سے قبل متعدد افراد کھلاڑیوں کی روپ میں غائب ہو گئے ہیں جبکہ متعلقہ کھیل کی کارکردگی بھی زیرو ہی ہے اسی طرح بعض مخصوص کھیلوں سے وابستہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کوچز کی دوسرے کھیلوں سے وابستگی کے بارے میں چھان بین بھی ضروری ہے تاکہ پتہ تو چل سکے " کنفلیکٹ آف انٹرسٹ" کا یہ نہ رکنے والا سلسلہ تو ختم ہو جائے.ساتھ میں کھیلو ں کی ایسوسی ایشنز سے ان کے انڈر12 ' انڈر 14 اور انڈر 18 کے کھلاڑیوں کی فہرستیں گذشتہ دس سال کی منگوائی جائے تاکہ پتہ تو چل سکے کے "کتنے نئے کھلاڑی اس شعبے میں آئے " اور کتنے کئی سالوں سے ایک ہی جگہ پر براجمان ہیں لیکن ان ایسوسی ایشنز کی بدمعاشیاں بھی ختم نہیں ہورہی حالانکہ وہ حقیقت میں نئے کھلاڑی پیدا ہی نہیں کررہے.
سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے سابق ڈی جی اسفندیار خان خٹک کی بڑی خواہش تھی کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں فیسوں کی مد میں داخل ہونیوالی رقم کمپیوٹرائزڈ ہو جائے تو اس سے بہت حد تک گڑ بڑ کا سلسلہ رک جائیگا وہ اس منصوبے میں کامیاب تو نہیں ہوئے البتہ انہوں نے کھیلوں میں نمایاں پوزیشن ہولڈر کھلاڑیوں کو ماہانہ دئیے جانیوالے وظیفے کو کمپیوٹرائزڈ اور بینک کے ذریعے کردیا تھا جو ایک بڑا کارنامہ ہے اب فیسوں کی سلسلے کو اگر کمپیوٹرائزڈ اور بینک کے ذریعے کیا جائے تو گڑ بڑ گھوٹالے کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے.
سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں قانون سب کیلئے یکساں ہو اس کی ذمہ داری نہ صرف سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ کی بھی ہے بلکہ اس محکمے کے انچارج وزیر ہونے کی حیثیت سے وزیراعلی کی بھی ہے حال ہی میں نئے تعینات ہونیوالے ڈی جی نے گاڑیوں کی غیر ضروری انٹرنس تو ختم کردی ہے مگر پشاور کے ڈپٹی کمشنر جو اپنی ذاتی حیثیت میں پی ایس بی کے پرائیویٹ جیم میں کھیلنے کیلئے آتے ہیں ان پر قانون لاگو نہیں ہوتا اور ان کی گاڑی جیم کے سامنے کھڑی ہوتی ہیں کیا ڈپٹی کمشنر پشاور قانون سے بالاتر ہے وہ ذاتی حیثیت میں اور اپنے جسم کو فربہ ہونے سے بچانے کیلئے ورزش کرنے آتے ہیں اس لئے ان کی گاڑی بھی متعلقہ ایریا میں ان کی گاڑی کی آمد پر پابندی عائد کی جائے کیونکہ یہ نہ صرف سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے بارے میں غلط تاثر پیدا کررہی ہے بلکہ کھیلوں سے وابستہ کھلاڑی بھی اب یہی سوچنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ کھیلوں کے میدان میں بھی جس کا ڈنڈا اس کی بھینس والا سلسلہ چل نکلا ہے جوکھیلوں اور کھلاڑیوں کو متاثر کررہا ہے اس لئے اس سلسلے میں نئے تعینات ہونیوالے افراد تو کچھ نہ کرسکیں لیکن وزیراعلی خیبر پختونخواہ جو اس شعبے کے انچارج وزیر بھی ہیں انہیں اس سلسلے میں فوری طور پرایکشن لینے کی ضرورت ہے.
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 419878 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More