شجر کاری کے ثمرات

چین میں دوران قیام بارہا مشاہدے میں آیا ہے کہ چینی شہری فطرت کے دلدادہ اور قدرت کے سبھی رنگوں سے بہت پیار کرنے والے ہیں۔فطرت کا ہر رنگ چاہے وہ پودوں ،پھولوں ،دریاوں یا پھر حیاتیاتی تنوع کی کوئی بھی صورت ہو ،چینی لوگوں کی طرزفکر اور طرزعمل دونوں ہی فطرت کے تحفظ پر مرکوز ہوں گے۔ماحولیات کے تحفظ اور قدرتی وسائل کی بات کی جائے تو چین کے مختلف علاقوں کی سیاحت کے بعد آپ لازماً چینی حکومت اور چینی عوام کو داد دیں گے کہ کیسے انہوں نے ان دلکش فطری رنگوں کو محفوظ کیا ہے۔یہاں رہتے ہوئی کم ازکم کوئی ایسی انسانی سرگرمی نہیں دیکھی جسے قدرتی وسائل کے لیے نقصان دہ قرار دیا جا سکے۔بیجنگ میں کئی مرتبہ شجرکاری کی سرگرمیوں میں شرکت کا موقع بھی ملا جہاں دیگر غیر ملکی افراد کے ساتھ ساتھ چینی شہریوں بالخصوص اسکولوں کے بچوں ، نوجوانوں حتیٰ کہ بزرگ شہریوں کو بھی پودے لگاتے دیکھا ۔ایسی سرگرمیوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چین میں شادابی اور ہریالی کو کس قدر اہمیت حاصل ہے۔

ایک سبز چین کی تعمیر و ترقی میں ملک کا ہر شہری پیش پیش نظر آتا ہے اور رضا کارانہ طور پر پودے لگائے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آپ کسی بھی شہر میں چلے جائیں شاہراہوں کے اطراف میں گرین بیلٹس آپ کو لازمی ملیں گی۔اسی طرح شہری تعمیراتی سرگرمیوں میں بھی گرین تصورات اپناتے ہوئے پودوں کی گنجائش ایک ترجیح ہے۔یہ بات قابل زکر ہے کہ چین میں آج سے 40 سال قبل 1981 میں پانچویں قومی عوامی کانگریس کے چوتھے اجلاس میں "قومی رضاکارانہ شجرکاری مہم سے متعلق قرارداد" منظور کی گئی تھی ، جس میں شجرکاری اور ملک کی شادابی کو ہر شہری کے فریضے کے طور پر اجاگر کیا گیا۔ گزشتہ 40 برسوں کے دوران ملک بھر کے عوام نے اس عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور عوام کی رضاکارانہ شجرکاری کے شاندار نتائج برآمد ہوئے ہیں۔حیرت انگیز طور پر ان چالیس برسوں میں 78 بلین سے زائد پودے لگائے ہیں۔ یوں شجر کاری کے عمل میں شریک رضا کاروں نے موسمیاتی تبدیلی کا فعال طور پر جواب دینے سمیت ایک ماحولیاتی تہذیب اور ایک خوبصورت چین کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ہے۔شجرکاری کو فروغ دینے کی خاطر چینی شہری پودے لگانے سمیت 50 سے زائد طریقوں سے اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں جن میں درختوں کی افزائش کی ذمہ داری اٹھانے سمیت عطیات دینا وغیرہ شامل ہیں۔ چینی شہری متعدد سرگرمیوں میں آن لائن بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ان کاوشوں کی بدولت چین کے جنگلاتی وسائل کی نشوونما کو بھی مؤثر فروغ ملا ہے، آج چین میں جنگلات کا مجموعی رقبہ ملک کے مجموعی رقبے کا 23.04 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ یوں چین عالمی سطح پر جنگلاتی وسائل میں سب سے زیادہ اضافے کا حامل ملک بن چکا ہےجبکہ مصنوعی جنگلات کے رقبے کے اعتبار سے بھی چین دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔

مصنوعی جنگلات کا زکر کیا جائے تو چین کا سائی ہان با دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل کہلاتا ہے۔ یہ جنگل دنیا کو بتاتا ہے کہ چین جسے اپنی مصنوعات کی وسیع پیداوار کے لحاظ سے دنیا کی فیکٹری کہا جاتا ہے ،نہ صرف صنعتکاری پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے بلکہ فطرت سے ہم آہنگ گرین ترقی کے اعتبار سے بھی ٹھوس اقدامات پر عمل پیرا ہے۔سائی ہان با کو اگر مختلف نسلوں کی ایک بے مثال اور عظیم جدوجہد سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ تقریباً 93 ہزار ہیکٹر رقبے پر محیط سائی ہان با 1950 کی دہائی میں درختوں کی بے دریغ کٹائی کی وجہ سے بنجر زمین میں بدل چکا تھا۔انیس سو ساٹھ کے عشرے میں سائی ہان با میں چاروں جانب ریت ہی ریت تھی اور یہاں سے صرف 180 کلومیٹر دور واقع دارالحکومت بیجنگ کو تقریباً ہر سال ریت کے طوفانوں کا سامنا رہتا تھا۔سنہ 1962 میں سائی ہان با میں ایک مصنوعی جنگل قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیااور آج نصف صدی کے بعد تین نسلوں کی سخت کوششوں سے یہاں جنگل کا رقبہ 11.4 فیصد سے بڑھ کر 82 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔یوں سائی ہان با دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل بن چکا ہے۔ یہاں سے دارالحکومت بیجنگ کو تقریباً 137 ملین مکعب میٹر صاف پانی بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ اس وقت سائی ہان با نہ صرف چین بلکہ دنیا میں بھی ماحولیاتی تحفظ کی ایک عظیم مثال تصور کیا جاتا ہے۔ اس منصوبے کو عالمی سطح پر بھی بے حد سراہا گیا ہے ،سائی ہان با کو 2017 میں" چیمپئنز آف دی ارتھ ایوارڈ" بھی دیا گیا ہے جو اقوام متحدہ کی جانب سے اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین کی اعلیٰ قیادت بھی اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں نظر آتی ہے اور اسی ماڈل کی بنیاد پر ملک کے دیگر علاقوں میں گرین ترقیاتی فلسفے کو فروغ دے رہی ہے۔

چین نے اپنی دانش اور مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے کئی دہائیوں تک سبز ترقی کے لیے بے پناہ کوششیں کی ہیں ، اس ضمن میں 1980 کی دہائی میں ماحولیاتی تحفظ کو بنیادی قومی پالیسی کے طور پر شامل کیا گیا اور 1990 کی دہائی میں پائیدار ترقیاتی حکمت عملی تشکیل دیتے ہوئے اس پر موئثر عمل درآمد کیا گیا۔ ماحولیاتی تہذیب کی ترقی کو 2012 کے بعد سے صدر شی جن پھنگ کے ایک نئے تصور "صاف پانی اور سرسبز پہاڑ انمول اثاثے ہیں" کی روشنی میں انتہائی تیز رفتاری سے آگے بڑھایا گیا اور سبز انقلاب کی ایک مضبوط بنیاد فراہم کی گئی ۔انہی کوششوں کا ثمر ہے کہ آج چین کے جنگلات کا ذخیرہ 17.56 بلین کیوبک میٹر ہو چکا ہے۔چین کی کوشش ہے کہ ملک میں قدرتی ماحول کو بنیادی طور پر بہتر بنانے کے لیے شجرکاری کی کوششوں کو سائنسی پیمانے پر آگے بڑھایا جائے تاکہ ماحولیاتی استحکام کی صلاحیت کو بہتر بنایا جا سکے۔اس مقصد کی خاطر جنگلات کے فروغ اور جنگل کے وسائل کے تحفظ کے لیے مزید کوششوں پر زور دیا جا رہا ہے تاکہ ایک گرین چین کے تحت ترقیاتی سفر جاری رکھا جا سکے اور دنیا کے لیے بھی ایک مثال قائم کی جا سکے۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 617572 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More