چین کی معاشی ترقی کا بلیو پرنٹ

باقی دنیا کی طرح چین کو بھی موجودہ وبائی صورتحال کے تناظر میں اقتصادی ترقی کی غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود چین اعلیٰ معیار کی ترقی کے حصول اور اصلاحات و کھلے پن کو گہرا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ چین کے پاس ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے جبکہ چینی معیشت میں اب بھی ترقی کی ایک وسیع گنجائش موجودہے.لہذا حقائق کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ چین کی طویل المدتی معاشی ترقی کا مثبت رجحان تبدیل نہیں ہوگا۔آج عالمی معیشت کی بحالی کے لیے دنیا کو چین کی ضرورت ہے، اور چین کو بھی اپنی ترقی برقرار رکھنے کے لیے دنیا کی ضرورت ہے ،یوں مسلسل انضمام اور کھلے پن سے ہی عالمی معیشت کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

چینی معیشت کے حوالے سے حالیہ دنوں جاری اشاریوں مطابق 2022 میں چین کی معیشت تیزی سے بحال ہو گی نیز شہروں اور قصبوں میں نئی ملازمتوں کی تعداد ایک کروڑ تیس لاکھ سے متجاوز رہنے کی توقع ہے۔ یہ امر قابل زکر ہے کہ رواں سال شہری علاقوں میں نئی ملازمتوں کے حوالے سے ایک کروڑ دس لاکھ کا ہدف قبل از وقت ہی پورا کیا گیا ہے۔معیشت کی اعلیٰ معیار کی ترقی ، معاشی ڈھانچے کی ترتیب نو اور اس میں بہتری کے حوالے سے نئی پیش رفت ہوئی ہے جس سے چودہویں پنج سالہ منصوبہ بندی کے ہدف کی تکمیل کے لیے سازگار بنیاد فراہم کی گئی ہے۔رواں برس چینی معیشت میں نئی قوتوں کی ترقی بھرپور رہی ہے بالخصوص ڈیجیٹل معیشت،نئی شفاف توانائی سے چلنے والی گاڑیوں اور انٹیلی جنٹ مینوفیکچرنگ کےشعبوں میں تیز رفتار ترقی دیکھی گئی ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین میں جدت پر مبنی صنعتکاری انتہائی تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔

اس ضمن میں ملک کے معاشی اہداف کو درست سمت پر گامزن رکھنے کے لیے سالانہ مرکزی اقتصادی ورک کانفرنس بھی بیجنگ میں منعقد ہوئی جس نے مستحکم معیشت کو آگے بڑھانے کا ایک مضبوط اشارہ دیا ہے۔اس سرگرمی کو چین کی اقتصادی پالیسی سازی میں اہم ترین درجہ حاصل ہے ۔کانفرنس کے دوران چین کی اعلیٰ قیادت نے واضح کر دیا کہ 2022 کے معاشی امور کو آگے بڑھاتے ہوئے اقتصادی استحکام برقرار رکھا جائےگا۔ اس دوران یہ عزم ظاہر کیا گیا کہ اقتصادی بنیاد کی مضبوطی، تکنیکی اختراع کی صلاحیتوں کا فروغ ، کثیرالجہتی پر عمل درآمد، بین الاقوامی اقتصادی اور تجارتی قوانین کو معیاری بنانے میں فوقیت کا حصول، اور گہری اصلاحات کو فروغ دیا جائے گا۔اس خاطر چین کی کوشش ہے کہ میکرو پالیسی درست اور موثر ہونی چاہیے ، مائیکرو پالیسیوں کو مارکیٹ اداروں کے لیے اہم محرک ہونا چاہیے، ساختی پالیسیوں کو قومی معاشی گردش کی ہمواری پر توجہ دینی چاہیے ،سائنس اور ٹیکنالوجی کی پالیسیوں کو ٹھوس طریقے سے لاگو کیا جانا چاہیے، اصلاحات اور کھلے پن کی پالیسی کے تحت ترقی کی رفتار کو متحرک رکھنا چاہیے، علاقائی پالیسیوں کو متوازن ترقی اور ہم آہنگی کو بڑھانا چاہیے اور اقتصادی ترقی کے فروغ اور لوگوں کے معاش کے تحفظ کو مربوط ہونا چاہیے۔

اس دوران چین نے یہ عزم بھی ظاہر کیا کہ مالیاتی پالیسی اور مستحکم کرنسی پالیسی کو نافذ کیا جائے گا۔ٹیکس اور فیس میں کمی کی نئی پالیسیاں لاگو کی جائیں گی جبکہ رئیل اکانومی بالخصوص چھوٹی اور مائیکرو انٹرپرائزز، تکنیکی جدت، اور سبز ترقی کے لیے مالیاتی اداروں کی جانب سے حمایت و امداد کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔اس وقت چین کی کوشش ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی میں خود انحصاری کی جانب بڑھا جائے۔یہی وجہ ہے کہ منصوبہ سازی کے عمل میں سائنس اور ٹیکنالوجی سے وابستہ پالیسیوں کے مضبوط نفاز کو یقینی بنایا گیا ہے۔چین چاہتا ہے کہ قومی اسٹریٹجک سائنسی اور تکنیکی طاقت کو مضبوط بنایا جائے اور بین الاقوامی تکنیکی تعاون کو بھی فروغ دیا جائے۔اسی طرح معاشی پلاننگ میں بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے سازگار پالیسیوں کی تشکیل بھی چین کا خاصہ ہے۔چین کا موقف واضح ہے کہ بیرونی دنیا کے لئے اعلیٰ سطح کے کھلے پن کو بڑھانا ہوگا، ملٹی نیشنل کمپنیوں سے مزید سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہوگا، اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے حامل بڑے منصوبوں پر عمل درآمد کو تیز کرنا ہوگا۔ان میں "دی بیلٹ اینڈ روڈ" کی مشترکہ تعمیر کا فروغ بھی شامل ہے۔یہ ایک غیر معمولی امر ہے کہ گزشتہ آٹھ سالوں میں "بیلٹ اینڈ روڈ" کی مشترکہ تعمیر ، ایک بلیو پرنٹ سے حقیقت کا روپ دھار چکی ہےجس کے ٹھوس نتائج برآمد ہوئے ہیں ۔ اس دوران چین کا "بیلٹ اینڈ روڈ" شراکت داروں کے ساتھ تجارتی حجم 9.2 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، متعلقہ ممالک میں چین کی غیر مالیاتی براہ راست سرمایہ کاری 136 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ چکی ہے جبکہ بی آر آئی شراکت داروں نے چین میں 60 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سے 27 ہزار نئے کاروباری ادارے قائم کیے ہیں۔اس دوران کئی بڑے منصوبے جیسے پاور سٹیشن، پل، سڑکیں ، ریلوے اور اقتصادی راہداریاں وغیرہ تیزی سے آگے بڑھے ہیں۔ چین۔یورپ ریل گاڑیاں 23 یورپی ممالک کے 175شہروں تک جاتی ہیں جو بلاشبہ یوریشیائی خطے میں اہم بین الاقوامی تجارتی شریان بن چکی ہیں۔رواں سال نومبر تک،چین نے بی آر آئی کی مشترکہ تعمیر کے تحت 140 ممالک اور 32 بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ 200 سے زائد تعاون کی دستاویزات پر دستخط کیے ہیں، اور 14 ممالک کے ساتھ "تھرڈ پارٹی" مارکیٹ تعاون کی دستاویزات پر دستخط کیے ہیں۔آج عالمی وبائی صورتحال کے تناظر میں چین "بیلٹ اینڈ روڈ" شراکت داروں کے ساتھ مل کر مشکلات پر قابو پانے اور عالمی انسداد وبا تعاون اور اقتصادی بحالی میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے مزید کوششیں اور متعلقہ ممالک کی مدد کر رہا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ باقی دنیا کی طرح چین کو بھی موجودہ وبائی صورتحال کے تناظر میں اقتصادی ترقی کی غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود چین اعلیٰ معیار کی ترقی کے حصول اور اصلاحات و کھلے پن کو گہرا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ چین کے پاس ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے جبکہ چینی معیشت میں اب بھی ترقی کی ایک وسیع گنجائش موجودہے.لہذا حقائق کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ چین کی طویل المدتی معاشی ترقی کا مثبت رجحان تبدیل نہیں ہوگا۔آج عالمی معیشت کی بحالی کے لیے دنیا کو چین کی ضرورت ہے، اور چین کو بھی اپنی ترقی برقرار رکھنے کے لیے دنیا کو چین کی ضرورت ہے ،یوں مسلسل انضمام اور کھلے پن سے ہی عالمی معیشت کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 617499 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More