اسلام میں جتنی تاکید کے ساتھ انسان کے قتل کی حرمت کو
بیان کیا گیاہے،عصرحاضرمیں اس کی اتنی ہی بے حرمتی ہورہی ہے۔ معمولی باتوں
پرقتل ناحق کے واقعات روزانہ اخباروں کی سرخیاں بنتے ہیں۔افسوس!بعض مسلمان
تواس جرم کاارتکاب دینی خدمت سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن وحدیث میں کسی انسان
کوناحق قتل کرناپوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔
سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں سری لنکن
مینجرپریانتھاپربہیمانہ تشددکرکےاسے جان سے مارڈالااوربعد ازاں اس کی لاش
کوگھسیٹ کر بازار میں لیجاکرآگ لگادی۔مجھے یوں محسوس ہورہاہے کہ یہ جلنے
والی لاش سری لنکن کی نہیں،اس ملک کے مستقبل کی،اس ریاست کی ہے،اس سماج کی
ہے اوراس معاشرے کی ہے۔بدنصیبی تویہ ہے کہ اس سری لنکن کوبچانے کی بجائے
کثیرتعداداس ہولناک دلدوزواقعہ کی سیلفی بنارہے تھے۔اس سارے مجمعے میں صرف
ایک شخص پرتشددہجوم کے سامنے ہاتھ جوڑکران کومنع کرتانظرآیااوردوسراشخص
تواس سری لنکن کے اوپرلیٹ بھی گیاتھالیکن اسے گھسیٹ کردورپھینک دیا گیا۔آپ
دیکھ لیں گے کہ یہ سیلفی تاریخ انسانی کی سب سے بدترین سیلفی تصورکی جائے
گی اوراسے شائدلاکھوں ڈالرزمیں فروخت کرکے کسی بڑے عجائب گھرکی زینت
بنایاجائے گاکہ کیسے بائیس کروڑانسانوں کاملک ایک شرپسندانہ مذہبی فکرنے
یوں نگل لیا کہ اس کو بھاگنے کا وقت بھی نہ ملا۔ہم نے یہ بھی نہ سوچاکہ سری
لنکادنیاکاواحدملک ہےجوپاکستانیوں کوآنکھیں عطیہ کرتاہے اوراب
تک22ہزارپاکستانیوں کومفت آنکھیں فراہم کرچکاہے اورجس دن اس کے شہری کوآگ
لگا کر جلایاجارہاتھا،اسی دن ہم نے سری لنکاسےمزید62/افرادکیلئے آنکھیں
وصول کیں۔
مشتعل ہجوم کے ہاتھوں سری لنکن مینیجرپریانتھاکے قتل نے ایسے سوالات کوجنم
دیا ہے کہ ایسے واقعات میں ملزمان کی شناخت کیسے ہوتی ہے اورآیاقانون کے
مطابق انہیں سزائیں دی جاتی ہیں۔اس ویڈیو میں جو افراد سری لنکن شہری
پریانتھا پر تشدد کر رہے ہیں اوراسے جان سے ماررہے ہیں وہ سب نظر آرہے
ہیں۔اس کے علاوہ فیکٹری کے اندرکی سی سی ٹی وی فوٹیج سے بھی یہ ثابت کیاجا
سکتاہے کہ پریانتھاکے ساتھ اس سارے تنازع کی بنیادکس نے رکھی۔اس دن کون کون
ڈیوٹی پرموجودتھااوراس وقت جب یہ تنازع شروع ہواتوکس نے
کیاکرداراداکیاتھا۔نجانے مجھے اس بہیمانہ قتل پرمیرے سارے دکھ ایک مرتبہ
پھر تازہ ہوگئے ہیں۔
سابق گورنرپنجاب سلمان تاثیرکوانہی کے محافظ ممتازقادری نے گولیوں سے بھون
دیاتھا،توپاکستان میں لوگوں کی رائے منقسم تھی کہ ممتازقادری
کوہیروماناجائے یا قاتل۔سلمان تاثیرکے قتل کے ایک ماہ بعداس قانون کی
مخالفت پر مذہبی اقلیتوں کے وزیر شہباز بھٹی کو بھی اسلام آباد میں گولی
مار کر ہلاک کردیاگیا۔ جب 2016 میں سلمان تاثیرکے قاتل ممتاز قادری کوسزائے
موت دی گئی توان کے جنازے میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔
2017مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کے طالب علم مشال
خان پُرتشدد ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوئے تویہ سب مناظرکیمرے کی آنکھ نے محفوظ
بھی کئے۔بعدمیں اس واقعے کی تصاویراورویڈیوزسوشل میڈیاپروائرل ہوگئیں۔گزشتہ
برس پشاور ہائی کورٹ نے مشال خان قتل کیس میں مرکزی ملزم عمران علی کی
سزائے موت کوعمرقیدمیں تبدیل کردیاہے اورباقی تمام ملزمان کورہاکردیاگیاہے۔
2010میں سیالکوٹ کے نواحی علاقے بٹرمیں پولیس کی موجودگی میں بہت سے لوگوں
نے دوسگے بھائیوں حافظ مغیث اورمنیب کورسیوں سے باندھااوراس کے بعددونوں
بھائیوں پرڈنڈوں سے تشددکرکے انھیں ہلاک کردیا۔ہجوم نے دونوں بھائیوں کی
لاشوں کوپہلے الٹا لٹکایااوربعدمیں ان بھائیوں کی لاشوں کوشہرمیں گھمایا۔ان
دوبھائیوں کے قتل کے ذمہ داران کوسنائی جانے والی سزائے موت کو گزشتہ برس
سپریم کورٹ نے عمرقید میں بدل دیا۔
2015میں لاہورکے یوحناآبادکے علاقے میں مسیحی برادری کی دوعبادت گاہوں پربم
دھماکوں کے بعدمشتعل علاقہ مکینوں نے احتجاج کے دوران شک کی بنیادپرنعمان
اورحافظ نعیم پرتشدداوربعدازاں تیل چھڑک کرآگ لگادی گئی۔پولیس نے ایک طویل
تفتیش کے بعد 40سے زائد ملزمان پرانسدادِ دہشتگردی سمیت قتل اوردیگرکئی
دفعات کے تحت مقدمات درج کئے تھے۔شنیدیہ بھی ہے کہ اس سلسلے میں بیرونی
ممالک کے جمہوریت پسنداورانسانی حقوق کے چیمپئن بھی ان عیسائیوں کورہائی
دلوانے کیلئے کافی متحرک ہوگئے تھے۔ بعدمیں لواحقین نے اس مقدمے میں صلح
کرلی،جس کے بعدایک نئی بحث چھڑگئی کہ ایسے واقعات میں صلح کی بھی گنجائش
ہوتی ہے۔
مارچ2019 میں گورنمنٹ صادق ایجرٹن کالج بہاولپورمیں شعبہ انگریزی کے ایسوسی
ایٹ پروفیسرخالدحمیدکواسی کالج کے بی ایس انگریزی پروگرام کے پانچویں سمسٹر
کےطالب علم خطیب حسین نے اسٹاف روم میں چھری کے پے در پے وار کرکے قتل
کردیااورآج پونے تین سال کے بعدعدالت نے اسے سزائے موت کاحکم دیاہے۔ ہمارے
ملک میں وکلاء کومعاشرہ کاسب سے زیادہ معززاورپڑھالکھا طبقہ ماناجاتاہے
لیکن وکلاء گردی کے عدالتوں میں جاری واقعات اورمعاشرہ کے مسیحاڈاکٹرزکی
دھینگامشتی کاذکرتوانتہائی قابل شرم ہے۔آخرہم کس طرف چل پڑے ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کیلئے اپنے رسول،اصحابہ کرام اورقرآن سے
وابستگی ایمان کاحصہ ہے اوریہ بڑاجذباتی عمل ہے لیکن اس نازک اور حساس
معاملے کی آڑمیں پاکستان میں ایک خطرناک ڈاکٹرائن متعارف کروادی گئی ہے۔وہ
افرادجواس ظالمانہ کھیل کاحصہ بن رہے ہیں،اورجواپنے اس فعل پربڑے فخریہ
بیانات دیکرہیروبننے کی کوشش کررہے ہیں۔ اب ضرورت اس امرکی ہے کہ سختی کے
ساتھ ایسے تمام افرادکے ساتھ اس خطرناک ڈاکٹرائن کوبھی پھانسی دی جائے
اوراس عمل کے فیصلے کیلئے عدلیہ کی کمزوریوں کوبھی فوری دورکرکے تیزترین
اورانتہائی کم وقت میں جاندارفیصلے کئے جائیں۔اگرایسافوری نہ کیاگیاتو مجھے
اس بات کاخوف ہے کہ کہیں کوئی نیاہلاکوخان ہم پرمسلط نہ کردیاجائے۔
اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں
وہ ہمیشہ رہے گا اور اللہ اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور
اللہ نے اس کے لئے بڑا عذاب تیار کررکھا ہے۔
|