چھوٹے بچے تھکتے نہیں ہیں۔۔۔کم عمر گھریلو ملازماؤں کے ساتھ ہونے والا برا سلوک کب تک

image
 
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرا بچہ صرف چند ماہ کا تھا اور مجھے نوکری کو دوبارہ جوائن کرنا تھا۔۔۔گھریلو حالات اس بات کی اجازت نہیں دے رہے تھے کہ ایک کی تنخواہ میں گزارہ ہو سکے اس لئے اپنے میاں کا ہاتھ بٹانے کے لئے مجھے بچے کو چھوڑ کر ملازمت کے لئے جانا ہی تھا۔۔۔
 
کسی نے مشورہ دیا کہ اپنے والدین کے گھر چھوڑو گی تو لیکن اس کی دیکھ بھال کے لئے کسی کم عمر بچی کو رکھ لو۔۔۔کم عمر کا لفظ سن کر میں چونکی۔۔۔ہم گھر میں کسی چھوٹے بچے کو تھوڑی دیر بھی گود میں نہیں دیتے بچہ،ہم گھر کے بچوں پر کوئی ذمہ داری نہیں ڈالتے، ہم گھر کے بچوں سے بڑوں والے کام کروائیں تو سب ٹوکنا شروع کردیتے ہیں لیکن ننھے بچے کی دیکھ بھال کے لئے جب ملازمہ رکھنے کا سوچا تو سب ہی دوستوں اور جاننے والوں نے زور دیا کہ کم عمر بچی کو رکھو۔۔۔
 
وجہ یہی بتائی گئی کہ بچی کھیلے گی بھی اور کام بھی کر دے گی تو بچہ ہمیشہ خوش رہے گا۔۔۔اور ساتھ ہی ایک انوکھی وجہ بھی سنی ’چھوٹے بچے تھکتے نہیں ہیں‘‘
 
image
 
 یہ جملہ آج بھی کہیں میرے دماغ میں گونجتا ہے۔۔۔میرا بیٹا سات سال کا ہوچکا ہے اور میں نے اس کے ساتھ ایک ملازمہ رکھی ضرور لیکن اس بچی کے لئے اپنے دل میں مامتا بھی زندہ رکھی۔۔۔ اپنے بچے کی تھوڑی دیر کھیلنے کی تھکن تو نظر آتی ہے لیکن کام کرنے والی ملازمہ کی پورا دن دوڑ بھاگ کرنے اور بار بار سو کام کرنے کی تھکن کسی کو نظر نہیں آتی۔۔۔
 
لیکن مجھ جیسے لوگوں کو لوگ ایسے حیرت سے دیکھتے ہیں جیسے کوئی انوکھا کام کردیا ہو۔۔۔ ان بچوں کو تو حقارت کی نظر سے دیکھا اور رکھا جاتا ہے۔۔۔حالانکہ ان کو جو خزانہ دیا جاتا ہے اس کی حفاظت کے بدلے تو انہیں بھی وزیروں کی جیسی مراعات تو ملنی ہی چاہئیں۔۔۔
 
حال ہی میں ایک ننھی بچی پر ظلم کی کہانی دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوگئے۔۔۔ کس طرح برتن ٹوٹ جانے پر اسے ایک ماہ تک کمرے میں قید رکھا گیا بھوکا پیاسا۔۔۔اس کا سر دیواروں پر مارا گیا۔۔۔ اس کے جسم کو جلایا گیا۔۔۔اسے ایسی اذیت دی گئی جو کسی سزائے موت کے قیدی کو بھی نہیں دی جاتی۔۔۔
 
 
انسانیت کے کونسے درجے پر ہم کھڑے ہیں جہاں ہمیں اپنے سوا کسی کا درد محسوس نہیں ہوتا۔۔۔جہاں ہمیں کسی کو مار کر دلی خوشی محسوس ہوتی ہے۔۔۔ معصوم بچے کی آہ لے کر مزہ آتا ہے۔۔۔پنجاب اور سندھ میں کم عمر بچیاں جن کی عمریں نو سے پندرہ سال کے درمیان ہیں کام کی غرض سے بنگلوں میں دی جاتی ہیں۔۔۔
 
ماں باپ بس مہینے کے مہینے ان کے کام کے پیسے لے کر جاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ کام کرتی یہ بچیاں بھی اپنے گھر والوں سے ملنے کو تڑپتی ہیں، انہیں بھی چھٹی کے نام پر ہفتہ میں ایک یا دو دن چاہئیں۔۔۔
 
لیکن ان بچیوں کے لئے ہم نے یہی جملہ محفوظ کرلیا ہے۔۔۔چھوٹے بچے تھکتے نہیں ہیں
YOU MAY ALSO LIKE: