کیا آپ میری بیٹی کو بھی قبول کریں گے؟ دوسرے شوہر اور اس کے گھر والوں نے لڑکی اور اس کی بیٹی کو کس طرح قبول کیا؟

image
 
‘میری پہلی شادی آج سے سات سال پہلے ہوئی۔ وہ لوگ ہمارے جاننے والے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میرے سابقہ شوہر کے گھر والے میرا رشتہ لینے آئے تو انھوں نے ہماری اتنی خوش آمد کی اور پیار دکھایا کہ میرے گھر والوں سمیت، میں بھی اس رشتے کے لیے فوراً تیار ہو گئی۔ ’بیٹی بنا کر رکھوں گی‘، ’تمھیں زندگی میں کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوگی‘ وغیرہ وغیرہ۔۔۔‘
 
یہ کہنا تھا عائشہ وقار (فرضی نام) کا جن کے لیے پہلی شادی کی ابتدا کسی خواب سے کم نہیں تھا۔ شروع میں اپنے سابقہ شوہر کا رویہ دیکھ کر انھیں لگا جیسے ’اس شخص سے زیادہ تو دنیا میں مجھے کوئی پیار نہیں کر سکتا۔‘
 
انھوں نے شادی کے لیے فوراً ہاں کر دی اور کراچی سے لاہور آگئیں۔ ’شادی کے بعد میں نے دوبارہ نوکری پر جانا شروع کر دیا۔ لیکن شادی کے پہلے مہینے ہی معاملات تھوڑے عجیب ہونے لگ گئے۔‘
 
پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے کئی ملکوں میں خواتین کے لیے اپنی مشکلات کے حل میں طلاق لینا قابل قبول نہیں سمجھا جاتا جس کی وجہ سے خواتین کو اکثر ساری زندگی بدسلوکی اور ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
 
عائشہ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’میری ساس اور شوہر مجھے کہنے لگے کہ تمھیں اپنے گھر والوں سے جائیداد میں حصہ مانگنا چاہیے۔۔۔ جب میری تنخواہ آئی، میرے شوہر نے وہ ساری تنخواہ مجھ سے لے لی۔‘
 
اور پھر یہ سب عام ہونے لگا۔ ’وہ مجھے خرچہ نہیں دیتا تھا لیکن مجھ سے لیتا تھا۔ میں جب اس بات کا ذکر گھر والوں سے کیا تو کہنے لگے کہ کوئی بات نہیں میاں بیوی کا پیسہ ایک ہی ہوتا ہے، اس لیے تم زیادہ فضول مت سوچو۔‘
 
'یہ تو میرا بچہ ہے ہی نہیں'
عائشہ اور ان جیسی کئی خواتین کے لیے شادی کا تجربہ اس قدر خوبصورت نہیں ہوتا جیسا عام طور پر تصور کیا جاتا ہے۔
 
سسرال والوں کے اعتراضات دور کرنے کے لیے ان کے گھر والوں نے جائیداد بھی ان کے نام کردی۔ مگر ایک، ایک کر کے مطالبات بڑھنے لگے اور رویے بھی بدل گئے۔
 
وہ بتاتی ہیں کہ ’میرے شوہر نے مطالبہ کرنا شروع کر دیا کہ ’تم اپنا پلاٹ میرے نام کر دو میں، وہاں آفس بنا لوں گا‘۔ میں نے یہ بات ٹال دی۔۔۔ اس کے بعد مجھے رویوں میں واضح تبدیلی نظر آنے لگی۔ میری ساس اور شوہر مجھ سے بدتمیزی سے بات کرنے لگے۔ جب میں دفتر سے گھر آتی کو آکر گھر کے سارے کام کرتی۔ حالانکہ گھر میں ملازموں کی فوج تھی۔‘
 
ایسے حالات میں والدین بھی اس مشکل سے دوچار ہوتے ہیں کہ بیٹی کا گھر بسانے میں بھلا انھیں کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔
 
‘میں جب بھی اپنی تکلیف کا اظہار اپنے گھر والوں سے کرتی تو وہ مجھے ایک ہی جملہ کہتے کہ ’بیٹا لڑکیوں کو گھر بسانے کے لیے بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے‘۔‘
 
مگر یہ جملہ عائشہ کو مزید کمزور کر دیتا تھا۔ جب نئے گھر میں ایک، ایک کر کے راز کھلنے لگے تو ان کی برداشت کی حد ختم ہوگئی۔
 
’میرا شوہر شراب نوشی بھی کرتا ہے۔ کیونکہ شراب کے نشے میں دھت وہ مجھ سے بدتمیزی کرتا۔ شادی کے چند ماہ بعد ہی میں امید سے ہو گئی۔ جب میرے شوہر کو یہ پتا چلا اس نے کہا کہ 'یہ تو میرا بچہ ہے ہی نہیں'۔ جب میں نے یہ سنا تو میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ اس دن کے بعد وہ گھر میرے لیے جہنم بن گیا۔‘
 
وہ کہتی ہیں کہ پھر ایک دن ان کے شوہر نے ان پر گندے الزامات لگائےاور انھیں حمل کی حالت میں مارا پیٹا اور رات کے وقت گھر سے نکال دیا۔
 
image
 
عائشہ کہتی ہیں کہ اس وقت وہ لاہور شہر میں اکیلی تھیں لیکن انھیں بہت حیرانی ہوئی جب ان کے گھر والے پھر بھی ان کی صلح کرانا چاہتے تھے۔ انھیں محسوس ہونے لگا کہ ان کی ’اپنی کوئی ذات، کوئی گھر نہیں۔‘
 
بیٹی کی پیدائش پر بھی ان کے سابقہ شوہر نے دہرایا کہ ’یہ میری بچی نہیں ہے۔ آپ کی بیٹی کے غیر مردوں سے تعلقات تھے، ان میں سے کسی کی بچی ہوگی۔‘
 
انھوں نے آخر کار یہ فیصلہ کر لیا کہ اب وہ اپنے ماں باپ کے گھر ہی رہیں گی۔ شادی اور پھر طلاق عائشہ کے لیے ذہنی دباؤ کا باعث بنا اور اس دوران وہ اس قابل بھی نہیں ہوسکیں کہ اس حوالے سے کسی سے مدد مانگ سکیں۔
 
طلاق کے بعد ان کے گھر والے انھیں سمجھانے لگے کہ ان کے مسائل کا حل دوسری شادی میں ہوگا۔
 
’کیا آپ میری بیٹی کو بھی قبول کریں گے؟‘
عائشہ یہ نہیں چاہتی تھیں کہ انھیں دوبارہ پہلی شادی جیسے تجربے سے گزرنا پڑے۔ دوسری شادی کے لیے ان کی یہی شرط تھی کہ کیا انھیں طلاق کے بعد مجرم سمجھا جائے گا۔
 
’میرے ابو کے دوست کے بیٹے کے لیے میرا رشتہ آیا۔ میں پریشان تھی کہ ایک طلاق یافتہ لڑکی کے لیے ایسا رشتہ کیسے آگیا۔۔۔۔ دل میں ڈر بھی تھا کہ کہیں پھر کسی لالچ یا مفاد کے لیے کوئی شادی کرنا چاہتا ہو۔ میں نے اس لڑکے سے ملنے کا کہا اور پھر اس سے ملنے اور اس کے بارے میں جاننے کے بعد ہی اس سے شادی کا فیصلہ کیا۔‘
 
انھوں نے دوسری شادی سے قبل یہ سوال رکھا کہ ’کیا آپ میری بیٹی کو بھی قبول کریں گے؟‘ جب یہ جواب ملا کہ ’میں انھیں اپنی اولاد مانتا ہوں‘ تو وہ اس بارے میں مطمئن ہوگئیں۔
 
طلاق یافتہ خاتون سے شادی کرنے پر ان کے نئے گھر والوں نے ’لوگوں کی تلخ باتوں اور معاشرتی رویوں‘ کا مقابلہ کیا۔
 
’انھوں نے خود تو مجھے خوش رکھا لیکن ساتھ ہی ساتھ مجھ تک کبھی کوئی تکلیف نہیں آنے دی۔ اس رشتے سے میرا اعتبار اور اعتماد دوبارہ بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے میں اب ایک خوشگوار زندگی گزار رہی ہوں۔‘
 
’لوگ طلاق لینے والی عورت کو مجرم بنا دیتے ہیں‘
ماہر نفسیات رائحہ آفتاب نے طلاق یافتہ عورتوں کی طرف معاشرتی رویوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان، انڈیا اور چند دیگر ممالک میں عورت کو یہ محسوس کروایا جاتا ہے جیسے اس کی اب اپنی کوئی شناخت نہیں رہی۔
 
’ہمارے ہاں ایک لڑکی کی زندگی کا مقصد صرف شادی کو ہی بنا دیا جاتا ہے۔ بچپن سے لے کر شادی کی عمر تک ماں باپ اس کی شادی کے لیے چیزیں بنانا شروع کر دیتے ہین جس کی وجہ سے شادی کو ایک سرمایہ کاری کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ گھر والے شادی پر پیسے خرچ کرتے ہیں اور اس کے بعد اگر لڑکی طلاق لے کر گھر واپس آجائے تو عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ سارا پیسہ بھی ضائع گیا۔‘
 
وہ کہتی ہیں کہ شادی سے پہلے ایک عورت باپ کے نام سے منسوب ہوتی ہے اور شادی کے بعد شوہر کے نام سے۔ لڑکی کو یہ بات قبول کرنا ہوتی ہے کہ اب شوہر کا گھر ہی اس کا گھر ہے۔ ’یہ کسی بھی انسان کے لیے نفسیاتی طور قبول کرنا مشکل کام ہے۔‘
 
رائحہ آفتاب کے مطابق اکثر لڑکیوں کو گھر والوں کی طرف سے کھلے دل سے خوش آمدید نہیں کہا جاتا جس سے انھیں یہ لگنے لگتا ہے کہ ان کا کوئی گھر نہیں ہے۔ ’یہ چیز شناخت کا بحران پیدا کرتی ہے جس سے دیگر نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔‘
 
’ایشیا کے کئی ممالک میں شادی کو ہی لڑکی کی اصل کامیابی مانا جاتا ہے اور اگر وہ اس امتحان میں کہیں کامیاب نہیں ہو پاتیں تو اس کی زندگی کو بے مقصد سمجھا جاتا ہے۔‘
 
ان کا کہنا ہے کہ سب کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طلاق کوئی دھبہ نہیں بلکہ ’یہ ایک ناخوشگوار رشتے سے نکلنے کا ذریعہ ہے، اس لیے ایسے وقت میں اگر گھر والوں کا ساتھ ہوگا تو وہ ایک پریشانی سے نکل کر دہری پریشانی میں مبتلا نہیں ہوں گی۔‘
 
وہ یہ تسلیم کرتی ہیں کہ ایسے بہت کم گھر ہوں گے جہاں دوسری شادی کرنے والی لڑکی کو کھلے دل سے قبول کیا جاتا ہے۔
 
’دوسرا شوہر اور سسرال والے اگر اچھے ہوں تو لڑکی کو اس رشتے پر سے کھویا ہوا اعتبار واپس مل جاتا ہے اور اس کی شخصیت میں اعتماد مزید بڑھ جاتا ہے اور اسے زندگی کے بُرے تجربے کو بھلانے میں مدد ملتی ہے۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: