#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 63 تا 68 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یسئلک
الناس عن الساعة
قل انما علمھا عند اللہ
وما یدریک لعل الساعة قریبا
63 ان اللہ لعن لکٰفرین واعدلھم
سعیرا 64 خٰلدین فیھاابدا لایجدون
ولیا ولانصیرا 65 یوم تقلب وجوھھم فی
النار یقولون یٰلیتنا اطعنا اللہ واطعنا الرسولا
66 وقالواربنا انا اطعنا سادتنا وکبراءنا فاضلونا
السبیلا 67 ربنا اٰتھم ضعفین من العذاب والعنھم
لعنا کبیرا 68
اے ھمارے رسُول ! آپ سے آپ کے عھد کے جو منافق اَچانک آنے والی جس فیصلہ
کُن گھڑی کے بارے میں پُوچھتے ہیں تو آپ اُن کو بتادیں کہ اُس گھڑی کے آنے
کا علم صرف اللہ کو ھے لیکن بعید نہیں ھے کہ وہ گھڑی تُمہارے سر پر ہی کھڑی
ہو اِس لیۓ کسی انسان کو اِس اَمر میں شُبہ نہیں ہونا چاہیۓ کہ جو لوگ اُس
فیصلہ کُن گھڑی کے مُنکر ہیں وہ اللہ کے دُھتکارے اور پِھٹکارے ہوۓ لوگ ہیں
اور اُن لوگوں کو اُن کا یہی انکار سزا کے اُس مقام میں لے چانے والا ھے جس
مقام میں اُنہوں نے ہمیشہ رہنا ھے اور جس مقام پر اُن کا کوئی حامی و مدد
گار بھی نہیں ھے اور اُس جگہ پر جب اُن کے سامنے ایک سزا کے بعد دُوسری سزا
آۓ گی تو پہلے وہ پہلے گُم راہ لوگوں کی طرح یہ افسوس کریں گے کہ اگر انہوں
نے اللہ و رسُول کی بات مان لی ہوتی تو آج ہر گز اِس ذلت سے دوچار نہ ہوتے
اور بعد ازاں وہ اللہ سے یہ استدعا بھی کریں گے کہ اُن کو جن اہلِ سیادت و
قیادت کی اَندھی تقلید نے اِس اَنجام تک پُہنچایا ھے اُن کے اُن اہلِ سیادت
و قیادت کو بھی یہی سزا دی جاۓ بلکہ اُن کو تو پہلے خود گُم راہ ہونے اور
بعد میں ہمیں گُم راہ کرنے کی دُھری سزا دی جاۓ !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کی ہر سُورت کے افتتاحِ کلام اور اختتامِ کلام کا ایک خاص علمی
و فکری انداز ھے اور قُرآنِ کریم اپنے اُس خاص علمی و فکری انداز کے تحت ہر
سُورت کے ابتداۓ کلام کے اُس ابتدائی کلام کو انسانی فہم کی سہولت لحاظ سے
ایسی فکری ترتیب کے ساتھ آگے بڑھاتا ھے کہ انسان اُس کلام کو اپنی رُوح میں
جذب کر کے اُس میں جذب ہوتا چلا جاتا ھے اور قُرآنِ کریم ہر سُورت کے
انتہاۓ کلام میں اپنے اُس کلام کے نتائجِ کلام کو بھی اِس طرح سمیٹ کر
سامنے لے آتا ھے کہ اُس سُورت کو ترتیب سے پڑھنے والا انسان اُس سُورت کے
نتائجِ کلام کو بھی اپنے حافظے میں محفوظ کر سکتا ھے ، سُورَةُالاَحزاب میں
خُداۓ قادر نے اپنی قُدرت سے اپنا جو کلام جمع کیا ھے وہ کلام بھی اپنے
خاتمہِ کلام کی اِن اٰیات تک پُہنچ کر اُس مقام تک پُہنچ چکا ھے جہاں اُس
کے اُن نتائجِ کلام کو اُجاگر ہونا چاہیۓ جن نتائجِ کلام کو انسان نے اپنے
حافظے میں محفوظ کرنا ھے اِس لیۓ اِس سُورت کے اِس خاتمہِ کلام پر حافظے
میں محفوظ کی جانے والی جن دو باتوں کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ھے اُن
دو باتوں میں سے پہلی بات انسانی تاریخ کی ایک تاریخی دلیل ھے جس کا ذکر
موجُودہ اٰیات میں کیا گیا ھے اور دُوسری بات انسانی تاریخ کی وہ تاریخی
تمثیل ھے جس کا ذکر اِن اٰیات کے بعد آنے والی اٰیات میں آۓ گا اور اِن دو
نتیجہ خیز باتوں میں سے جس نتیجہ خیز بات کا پہلے ذکر کیا گیا ھے وہ انسان
کی وہ اَندھی تقلید ھے جو ہر اندھی قوم اپنے اپنے زمانے میں اپنے اپنے
زمانے کے اُن بڑوں کی اندھی تقلید کرتی رہی ھے جن بڑوں کو وہ قوم اپنے خیال
کے مطابق اپنی اُس اندھی تقلید کا مُستحق سمجھتی رہی ھے ، قُرآنِ کریم نے
"سادتنا" کے اِس لفظی مُرکب میں اُن ہی جُہلاۓ تقلید و جُہلاۓ اہلِ تقلید
کا تعارف کرایا ھے جنہوں نے اپنے اپنے زمانے میں اپنے اپنے"سادات" کے بُت
بناکر تقلید کے نام پر اُن کی پرستش شروع کی تھی اور اِس اعتبار سے اسلامی
تاریخ کے جتنے بھی فقیہوں کے اہلِ فقہ ، جتنے بھی مسالک کے اہلِ مسلک اور
جتنے بھی خانقاہی تصوف کے اہلِ تصوف ہیں وہ سب کے سب اپنی اپنی جگہ پر وہی
سادات ہیں جن کے پہلے اندھے مُقلد مدینے کے وہ منافق تھے جو پہلے اپنے
منافق سادات کے اشارے پر قُرآنی ریاست میں زبانی افواہیں پھیلاتے اور عملی
سازشیں کرتے رھے تھے اور بعد ازاں اپنے اُن ہی سادات کے حُکم پر ریاست بدر
ہو کر اَطرافِ زمین کے اُن علاقوں میں پھیل گۓ تھے جن علاقوں میں رہ کر وہ
اپنے منافق سادات کے حُکم پر قُرآن کے مُثبت انقلاب کے مقابلے میں اپنا
کوئی ایسا مَنفی انقلاب برپا کر سکتے تھے جو قُرآنی اَحکام کے خلاف ہوتا
اور قُرآنی اَحکام کو نقصان پُہنچاسکتا ، اٰیاتِ بالا میں "الساعة" کے بارے
میں جو سوال کیا گیا ھے وہ اُن پہلی اٰیات کے اُسی پہلے مضمون کا ایک حصہ
ھے جس مضمون میں اُن منافقینِ مدینہ کا ذکر ہوا ھے جو قیامت کے بارے میں
اِس خیال سے یہ سوال کیا کرتے تھے کہ ہر روز اُن کی بات سے ایک نئی بات
نکلتی رھے اور ہر روز وہ اپنی اِن مذموم باتوں سے مُسلم اہلِ ریاست کے
ذہنوں کو مسموم کرسکیں ، اٰیاتِ بالا میں جس "الساعة" کا ذکر ہوا ھے
اُس"الساعة" سے معروف معنوں میں تو یومِ حساب کا وہ معروف لَمحہِ مُستقبل
ہی مُراد لیا جاتا ھے جس کا معروف نام قیامت ھے لیکن "القیامة" اور
"الساعة" سے زندہ انسانوں کی زندگی میں آنے والا وہ فیصلہ کُن لَمحہِ حال
بھی مُراد ہوتا ھے جو کسی قوم یا فرد کی زندگی میں اُس کی اُس انقلابی
اُٹھان کی صورت میں آتا ھے جو اُٹھان اُس کی زندگی کو بدل کر رکھ دیتی ھے ،
اِس لحاظ سے انسانی زندگی میں اور تو جو بھی فیصلہ کُن لَمحات آتے ہیں سو
آتے ہیں لیکن زندگی کا وہ آخری لَحہِ قیامت جو انسان کی موت کی صورت میں
آتا ھے وہ انسان کو ایک جہان سے اُٹھا کر اُس دُوسرے جہان میں کھڑا کر دیتا
ھے جس میں اُس کا پہلا حسابِ حیات ختم ہونے کے فورا بعد ایک دُوسرا حسابِ
حیات بھی شروع ہو جاتا ھے لیکن منافقینِ مدینہ غالبا یہ سوال زیادہ تر اُن
دنوں میں کر تے رھے تھے جن دنوں میں کفار کے احزاب مدینے کے باہر کھڑے ہو
کر اہلِ مدینہ کو فنا کے گھاٹ اُتارنے کے اعلانات کر تے رھے تھے اور اِن
حالات میں منافقینِ مدینہ کے اِس ایک سوال میں جو بہت سے ذُومعنی سوال
چُھپے ہوتے تھے اُن میں شاید سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ تُمہارا مُٹھی بھر
کا یہ تین ہزاری لشکر کب تک بیرونی اَحزاب کے سامنے کھڑا رھے گا ، بعد کے
زمانوں میں جب اہلِ تقلید نے اپنے مقلدین کے لیۓ باقاعدہ تقلیدی ادارے قائم
کر لیۓ تو اِن اداروں کے سارے سادات نے اپنے آباو اجداد کے اُن سابقہ
تجربات کے بعد اجتماعی طور پر یہ اعلان کر دیا کہ مُسلم ریاست کے ہر باشندے
کو اِن کے اِن فقہی مسالک میں سے کسی ایک فقہی مسلک کی تقلید کرنی ہوگی اور
یہ تقلید ہی اُس کے مُسلم ہونے کی واحد علامت ہو گی اور مُسلم ریاست کے جس
باشندے کے پاس اپنی تقلید کی یہ علامت نہیں ہوگی اُس کو مُسلم نہیں سمجھا
جاۓ گا ، یہ منصبِ نبوت پر باقاعدہ طور پر اُن کے قبضے کا اور کتابِ اٰیات
کے بجاۓ اُن کی کتابِ خیالات کے مطابق زندگی گزارنے کا ایک اعلان تھا جس
اعلان کو اُس وقت کے نام نہاد مُسلم خلفاء کی اشیر باد کے بعد جاری کر دیا
گیا تھا اور اِن چالباز فقہی سادات نے اُس وقت کے اُن مُسلم حُکمرانوں کے
نام اپنے خطباتِ جمعہ میں شامل کر کے اُن کو رام کرلیا تھا اور اِس طرح
مُسلم دُنیا میں مُلا و ملوکیت کا وہ مُشترکہ راج قائم ہو گیا تھا جس کو
مسلمان آج تک ختم نہیں کر سکے لیکن اہلِ اسلام کو یہ بات یاد رکھنی چاہیۓ
کہ اہل روایت کے جن فرقوں نے اپنی شخصی تقلید کا جو یہ ساداتی پروگرام شروع
کر رکھا ھے وہ ایک وارداتی پروگرام ھے اور قُرآن اِس وارداتی پروگرام کی
مُکمل تردید کرتا ھے !!
|