میونسپل کارپوریشن میں چند روز قبل انعقاد پذیر ہونے والے
’’متقی اور پرہیزگاروں ‘‘کے اجلاس کے ہر طرف چرچے ہیں جس میں کارپوریشن کے
نام نہاد نیکو کاروں نے کارپوریشن دفاتر کو’’ مقامات مقدسہ‘‘ قرار دیتے
ہوئے وہاں صحافت کالبادہ اوڑھ کر سارا دن بیٹھے رہنے والے غیرصحافیوں
اورانکی سرگرمیوں کی مذمت کی مگر اس بہانے سے’’ اپنے اپنے بے وفاؤں‘‘ کوسنے
اور فلاں ایسا ہے اورفلاں ویسا ہے کے قصے بھی بیان کئے اس موقع پر میڈیاسے
تعلق رکھنے والے ہمارے کئی ذاتی دوست بھی موجود تھے جن میں سے بعض ایک کا
کہنا تھا کہ انہیں تو اجلاس کے اغراض ومقاصد کے بارے میں وہاں جا کر ہی علم
ہوا ،صحافیوں میں موجود کالی بھیڑوں کی کسی بھی صورت حوصلہ افزائی نہیں کی
جاسکتی اور نہ ہی ان سطور کا مقصد کسی غیر صحافی یا غیر ذمہ دار شخص کو
سہارا فراہم کرنا ہے مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ میئر شیخ ثروت اکرام اور
کارپوریشن افسران کو دوسروں کے بارے لب کشائی کرتے ہوئے اپنے وہ ’’بغل
بچے‘‘دکھائی نہ دیئے جن کا کوئی حلقہء انتخاب ہے نہ وہ سرکار کے ملازم ہیں
لیکن ان عناصر کے بغیر کارپوریشن میں کوئی میٹنگ انعقاد پذیر نہیں ہوتی
کارپوریشن کا بلڈنگ ڈپارٹمنٹ کتنا بدنام ہے اور کیاکیا گل کھلا رہا ہے
میونسپل افسران کے پیٹ میں حرام کی کمائی کس کس کے ذریعے سے جارہی ہے کاش
اجلاس میں کوئی باضمیر اور باہمت انسان یہ بھی تذکرہ کرتا بلڈنگ انسپکٹروں
نے شہر میں غیر قانونی تعمیرات کرا کے کرپشن لوٹ مار اور بدمعاشی کی کیسی
مثالیں قائم کی ہوئی ہیں ، سینکڑوں بغیر نقشہ عمارتوں کی فائلیں کہاں دب
گئی ہیں ، جعلی نقشہ فائلوں کا دھندہ کیسے چمک رہا ہے ،کارپوریشن عملے سے
لے کر افسران تک کے ہاتھ منہ پاؤں تک اس لوٹ مار کی کالک میں لتھڑے پڑے ہیں
یہ لوگ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے غیر صحافیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں
اور پھر اپنا لوٹ کا مال بچانے کے لئے سہارے ڈھونڈتے پھرتے ہیں اس بار یہ
سہارے صحافیوں کے اندر سے ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے پہلے روز سے اپنے چند
پیاروں میں گھرے ہوئے میئر شیخ ثروت اکرام جان بوجھ کر بھولے بھالے بنے
ہوئے ہیں اور اقربا پروری کی عادت کی وجہ سے چیئرمینوں کی ایک بڑی تعداد
انکے اس رویے سے نالاں ہے لیکن انہوں نے غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا
کالی بھیڑوں کے نام پر سازش کی دیگ چڑھانے کی بجائے اگر کسی صحافی کے بارے
میں کوئی شکایت سامنے آئی تھی تو اسکی ذات تک مذمت کی جاتی اورایکشن لیا
جانا چاہئے تھا لیکن ایسا کرنے کی بجائے’’ اجتماعی نوحہ خوانی‘‘ کا فیصلہ
کیا گیامیئر کارپوریشن شیخ ثروت اکرام جو ویسے بھی اپنی مدت پوری کرنے والے
ہیں اور20ماہ معطلی کے بعد انہوں نے دوبارہ اپنے عہدے کا عدالتی حکم پرچارج
لیا ہے اپنے ارد گرد موجودکرپٹ عناصر کے جھانسے میں آنے سے بچ جاتے تو ان
کی ساکھ کے لئے اچھا تھا ، نام نہاد پرہیزگاروں کے اس اجلاس میں صحافیوں کو
تبری ٰ کرتے ہوئے بلیک میلر تو قرار دینے میں دیر نہیں لگائی گئی لیکن شہر
کے چپے چپے سے مال اکٹھا کرکے منہ کالا کرنے اور شہریوں کو دن رات نوچنے
والی میونسپل کارپوریشن کے ’’ڈاکو‘‘ا پنے دامن پہ لگے سیاہ داغ بھی دیکھ
لیتے تو شاید انہیں تھوڑی بہت شرم محسوس ہوجاتی بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ
پریس کلب کاپلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے صحافی بھائیوں کو شعبہء
صحافت کے مسائل ، شہر میں سرگرم غیر صحافتی عناصر اور صحافیوں میں پائی
جانے والی کالی بھیڑوں کی نشاند ہی کرنے کے لئے کارپوریشن کے اس ’’گندے
جوہڑ ‘‘میں جاکربیٹھنے کی ضرورت محسوس ہوئی ، کاش گوجرانوالہ شہر میں
رجسٹرڈ پریس کلب موجود ہوتا تو صحافیوں کی کسمپرسی بے توقیری اور’’
یتیمی‘‘کا یہ عالم نہ ہوتا اور غیر صحافی عناصر سے متعلق شکایات وہیں سنی
جاتیں اور کارپویشن کے میلے کچیلے بدبودار کردار والے افسران صحافیوں کو
اپنے ماتحت عملے کی طرح طلب کرنے کی بجائے خودسائل بن کر انکے پاس آتے
افسوس کہ ورکر صحافیوں کے حقوق کے لئے دلفریب نعرے لگانے والے صحافی راہنما
شہر کو آج تک ایک پریس کلب بھی نہیں دے سکے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ
گوجرانوالہ کی زرخیز دھرتی پر صحافی تو بہت بڑے بڑے موجود ہیں مگر پریس کلب
نام کا کوئی چھوٹا سا ادارہ بھی موجود نہیں ہے
|