سود اور معاشی انحطاط

تحریر: زاہرہ امین، سیالکوٹ
عالمی معاشی نظام دورِ حاضر کا سب سے اہم نقطہ بحث ہے۔ قوموں کے ماضی، حال اور مستقبل کا جائزہ ان کی معاشی حالات کے پیشِ نظر لیا جاتا ہے۔ کسی ملک کی انفرادی، علاقائی اور عالمی حیثیت کا دارو مدار اس کی معاشی کارکردگی پر ہوتا ہے۔ گلوبلائزیشن کے نتیجے میں آنے والے انقلاب نے جہاں زندگی کے دیگر شعبوں پر اپنا گہرا اثر چھوڑا ہے وہیں معاشی نظام کو ملکوں کے انفرادی مسئلے کے بجائے ایک عالمی نوعیت کا مسئلہ بنا دیا ہے۔ معاشی امداد اور قرضوں کی آڑ میں عالمی معاشی ادارے تمام اقوامِ عالم کی نبض اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے ہیں۔ چونکہ ان اداروں میں سے پیشتر مغرب کے وجود سے نمودار ہوئے ہیں، اس لیے ان کا انحصار مغربی آئیڈیالوجی پر ہے۔ وہ معاشی فلسفے کی بنیاد سود کو سمجھتے ہیں۔ ان کا قائم کردہ نظام سود کا متبادل بھی سود کو ہی سمجھتا ہے۔

آج جب آپ معاشی پسماندگی کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے غریب ممالک کاحال دیکھتے ہیں تو اس میں آپ کو جدید دور کی متوقع معاشی خوشحالی کے منظر کے بجائے زمانہ جاہلیت کے قرض تلے دبے مفلوک الحال عرب قبائل کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ وہی قرض،اور سود کی چکی میں نسل در نسل پستے بھوکے عوام اور بندھے ہوئے ہاتھوں والے مجبور حکمران۔ ان میں اکثریت اپنے قرض پر سود کی ادائیگی کے لیے بھی نئے قرض لینے پر مجبور ہے۔ ایسی صورت حال سے نکلنے کے لیے انہیں عالمی اداروں کی (سود پر مبنی) پالیسیاں اپنانے کا مشورہ دیا جاتا ہے جو کہ در حقیقت اس غربت کے منحوس چکر کی وجہ ہیں۔

اگر تاریخ سے مدد لیتے ہوئے آپ اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں تو آپ کو اسلام کے اس معاشی نظام کو از سرِ نو اپنانا ہو گا جس نے آج سے ساڑھے چودہ سو برس قبل دنیا کو قرض اور سود کی نحوست سے آزادی دلوائی تھی۔ اگر ماضی کے اوراق پلٹیں تو آپ کو جناب رحمت للعالمینﷺ ہدایاتِ خداوندی کی مدد سے بدحالی کا یہ حصار توڑ تے ہوئے نظر آئیں گے۔ آپ کے نظروں میں وہ منظر ٹھہر جائیں گے جب ریاستِ مدینہ کے ابتدائی سالوں میں آسمان سے معاشی ترقی کا جو پیکیج اتارا جاتا ہے اس کی بنیاد زکوۃ اور حرمت سود پر رکھی جاتی ہے۔ سود کے لین دین کو اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ جنگ قرار دیا جاتا ہے اور پوری ایمانداری اور شرعی تاکید کے ساتھ ہر مالدار سے اس کی دولت کا صرف اڑھائی فیصد وصول کر کے اسلامی خرچ کے تقاضوں کے مطابق اپنی نگرانی میں غربا میں محنت کی تاکید کے ساتھ تقسیم کیا جاتا ہے۔

اس معاشی فارمولے کے انقلابی اثرات کا اندازہ اس حضرت معاذ بن جبل بطورِ والی یمن کی مثال سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند برس دیانتداری سے نفاذ زکوۃ کی بدولت دورِ فاروقی میں یمن میں زکوۃلینے والا کوئی نہیں بچتا اور جمع شدہ زکوۃ بیت المال ارسال کر دی جاتی ہے۔ نظام زکوۃ کی اہمیت کا اندازہ لگانا ہو تو جناب ابو بکر صدیق کے دور میں جھانکیں۔ دور نبوی کے بعد خلافت راشدہ کے آغاز میں خلیفہ اول منکرین زکوۃ کے خلاف جہاد کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

خلافتِ راشدہ کے اختتام اور مسلمانوں کی اندرونی خلفشار کی وجہ سے نظامِ زکوۃ میں جو خلل آتا ہے وہ پھر سے معاشی افرا تفری کو جنم دیتا ہے یہاں تک کہ جناب عمر بن عبدالعزیز کا زمانہ آتا ہے اور نظامِ زکوۃ اپنی شرعی صورت میں پھر سے لاگو کر دیا جاتا ہے۔ اب کے بار جب زکوۃ اکٹھی کی جاتی ہے تو مستحقین میں تقسیم کرنے کے بعد اس کا کثیر خصہ بچ جاتا ہے ۔ چونکہ زکوۃ کی رقم اگلے سال کے لئے جمع نہیں کی جا سکتی اس لئے خلیفہ کے حکم کے مظابق اسے زرعی ترقیاتی منصوبوں میں حسبِ ضرورت لگایا جاتا ہے ۔ مگر برکت اتنی ہے کہ رقم پھر بچ جاتی ہے۔حتی کہ اس رقم سے تمام ایسے نوجوان جو نکاح کی عمر تک پہنچ چکے ہوں مگر مالی استطاعت نہ رکھتے ہوں ، ریاستی خرچ سے ان کے نکاح کئے جاتے ہیں۔معاشی خوشحالی کی ایسی مثال مغربی آئیڈیالوجی آج سے سو سال بعد بھی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کیونکہ سود نہیں زکوۃہے وہ بنیاد جو دنیا کو اس معاشی انحطاط سے نکال سکتی ہے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عالمگیریت کے اس دور میں جب باہمی طور پر مربوط عالمی معیشت جو سود پر انحصار رکھتی ہے، سود کے بغیر کسی ایک ملک کے لئے چلنا کیسے ممکن ہے؟۔ بلاشبہ اس سوال کا جواب آسان نہیں ، مگر ممکن ضرور ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم عالمی معاشی نظام کو تبدیل نہیں کر سکتے۔نہ ہم آئی ایم ایف، ورلڈ بینک جیسے اداروں کو گِرا سکتے ہیں، نہ ان کی کمان اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔ہمیں ان کے ساتھ ہی چلنا ہے مگر ان پر انحصار کئے بغیر۔ ہمیں صرف اپنے محکمہء زکوۃکو سو فیصد ایماندار بنانا ہے۔

سیرتِ مصطفیﷺ کا گہرا مطالعہ کرنے والا محکمے کا سربراہ مقرر کرنا ہے،معاذ بن جبل کے نقشِ قدم پر چلنے والے زکوۃ آفیسرز تعینات کرنے ہیں، زکوۃ لینے والوں کو محنت کی تاکید کرنی ہے ، اور محمد مصطفیﷺ کے حقیقی پیروکار وں کے ہاتھ میں معاشی منصوبہ بندی کی کمان دینی ہے۔جس دن یہ نظام شروع ہو گیا، ہماری معاشی آزادی کا وہ پہلا قدم ہو گا۔ جب ہماری دولت بیرونی بینکوں کے کھاتوں میں پڑی رہنے کی بجائے گردش میں آگئی تو سرمایہ کاری کے لئے بیرونی قرض کی ضرورت کم سے کم تر ہوتی جائے گی۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے آسانی سے گزربسر کرنے لگیں گے۔ چھوٹے کاروبار کو وسعت ملے گی۔۔

معاشی خود مختاری گھرانوں میں خوشحالی لائے گی۔غربت کا منحوس چکر ٹوٹ جائے گا۔ دن بہ دن بہتری آئے گی اور سال بہ سال قرض اترتا جائے گا۔ایک دن ان شاء اﷲ قرض اتر جائے گا اور سود کی نحوست ختم ہو جائے گی۔ اگر یہ نظام ستاون اسلامی میں نافذ ہو جاتا ہے تو سود پر قرض لینے والا کوئی نہیں بچے گا۔اس وقت سود پر چلنے والے عالمی ادارے کس کو قرض دیں گے، یا ان کے نظام میں جو خلا آئے گا وہ اس کہ کیسے پر کریں گے یہ ان کا مسئلہ ہے۔ ہم اﷲ اور اس کے رسول ﷺ سے مزید جنگ کے متحمل نہیں ۔ ہم اﷲ سے امید رکھتے ہیں کہ ہم سے اگر اس نطام کے نفاذ میں ہم سے کوئی خلا رہ گیا، تو اﷲ کے نظام کی برکت اسے پر کر دے گی۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1023612 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.