میں سسرال والوں کے لیے سونے کی چڑیا ہوں...’گولڈ ڈِگر‘ کون مرد یا خواتین، سوشل میڈیا صارفین کے تنقید سے بھرپور تبصرے

image
 
’ایسے مرد بھی گولڈ ڈِگر ہیں جو اپنے والدین کے گھر کے لیے لڑکی سے جہیز لیں۔۔۔ اپنی اہلیہ کے زیورات بیچ دیں۔۔۔ اپنی بیوی کی پراپرٹی اپنے نام کرا لیں۔۔۔‘
 
ٹوئٹر پر ایک حالیہ تھریڈ میں ایک اکاؤنٹ کی جانب سے ایسے مردوں کی فہرست جاری کی گئی جو ان کی نظر میں ’گولڈ ڈِگر‘ ہیں۔
 
انگریزی کی یہ اصطلاح پاکستان میں بھی بے دریغ استعمال کی جاتی ہے، جس سے عام طور پر مراد ایسی خواتین ہیں جو ایک امیر شخص کی توجہ حاصل کرنا چاہتی ہیں تاکہ اس سے پیسے یا تحائف لیے جاسکیں۔ لیکن اب کئی خواتین نے نشاندہی کی ہے کہ معاشرے میں یہ دقیانوسی لقب عورتوں سے زیادہ مردوں پر زیادہ پورا اترتا ہے۔
 
یہ تھریڈ سوشل میڈیا پر شیئر کیے جانے کے بعد خواتین نے اپنے ذاتی تجربات کا اظہار کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مرد بھی اپنے مالی مفاد کے لیے خواتین سے تعلقات قائم کرتے ہیں۔ جبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ گولڈ ڈِگر جیسی اصلاحات خواتین مخالف ہیں جو عموماً انھیں نیچا دکھانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
 
'مجھے سب کہتے ہیں کہ تم سسرال والوں کے لیے سونے کی چڑیا ہو‘
رابعہ (فرضی نام) ایک ڈاکٹر ہیں جنھوں نے اپنی محنت اور والدین کے تعاون سے امریکہ میں امتحان پاس کیا۔
 
جب وہ واپس پاکستان آئیں تو والدین نے ان کی شادی کرنا چاہی۔ وہ بی بی سی کو بتاتی ہیں کہ ’مجھے آج بھی یاد ہے کہ رشتہ دیکھنے کے لیے ہر آنے والے شخص کے گھر والے پہلے یہ پوچھتے تھے کہ گھر بار کیسا ہے، زمین جائیداد کیا ہے، لڑکی کیسی ہے۔‘
 
وہ یاد کرتی ہیں کہ ان کا رشتہ امریکہ میں رہائش پذیر ایک خاندان میں طے ہوا اور انھیں بتایا گیا کہ ’ہمیں صرف بچی چاہیے، اور کچھ نہیں چاہیے۔ ہمارا بیٹا بھی ڈاکٹر ہے اور وہ بھی امریکہ میں نوکری کے لیے مقابلے کا امتحان دے رہا ہے۔‘
 
’سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ شادی سے چار روز قبل لڑکے کی ماں نے میرے گھر والوں کو فون کر کے کہا کہ آپ اپنی بچی کو کیا کیا دے رہے ہیں کیونکہ ہماری برادری میں تو لوگ دیکھتے اور پوچھتے ہیں۔‘
 
ان کے والدین کو اچانک ایک لمبی فہرست تھما دی گئی جس میں ’ساس کے لیے سونے کے کڑے، لڑکے کے لیے ہیرے کی انگوٹھی، گھڑی اور گھر والوں کے لیے دیگر سامان کا کہا گیا۔‘
 
انھیں اور ان کے گھر والوں کو لگا کہ اب بات یہیں تک محدود ہوگی مگر شادی کے بعد ان سے امریکہ منتقل ہونے کے لیے بیس لاکھ روپے مانگے گئے ’تاکہ وہ وہاں جا کر اپنے گھر کے لیے فرنیچر لے۔۔۔ میری ساس نے اس میں سے صرف پانچ لاکھ مجھے دیے اور باقی خود رکھ لیے۔‘
 
ان کے لیے سب سے تعجب کی بات یہ تھی جب ان کے شوہر نے اس کے ردعمل میں کہا کہ ’ایسا کون سا احسان کیا ہے تمھارے گھر والوں نے، سب ماں باپ یہ دیتے ہیں اپنی بیٹیوں کو۔‘
 
وہ کہتی ہیں کہ ان کی شادی کو پانچ سال ہوگئے ہیں مگر وہ اب تک اپنا اور اپنے سسرال والوں کا خرچہ خود اٹھاتی ہیں۔
 
’مجھے سب کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں کے لیے سونے کی چڑیا ہو۔ پہلے تو میں سمجھتی تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات ٹھیک ہو جائیں گے لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ میرے شوہر اور سسرال والوں نے مجھ سے رشتہ اس لیے جوڑا تاکہ وہ میرا فائدہ اٹھا سکیں۔‘
 
رابعہ اور ان جیسی کئی خواتین اپنے ایسے تجربات کی وجہ سے پریشان ہیں اور معاشرے میں اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہتی ہیں کہ لڑکیاں اور ان کے گھر والے پیسے دیکھ کر کسی مرد سے رشتہ قائم کرتے ہیں۔ بلکہ ان کا خیال ہے کہ ’اصل گولڈ ڈِگر تو مرد ہیں۔‘
 
image
 
’ہم ایسے رویوں کی حوصلہ افزائی کیوں کرتے ہیں‘
اس تھریڈ کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے خواتین کو لے کر کچھ دقیانوسی معاشرتی رویوں اور روایتوں کی بات کی جا رہی ہے۔
 
بعض خواتین نے ایسے مردوں کا تذکرہ کیا جو مثال کے طور پر جہیز کے نام پر لڑکی اور اس کے گھر والوں سے لاکھوں کروڑوں کا مال لیتے ہیں۔
 
مثلاً ارشد خان نے ٹوئٹر پر ایسی خواتین کا ذکر کیا ہے جو ’اپنے گولڈ ڈِگر بیٹوں کے لیے امیر رشتے ڈھونڈتی ہیں تاکہ انھیں مالی طور پر مستحکم بنا سکیں۔‘
 
سیفورا نامی اکاؤنٹ نے لکھا کہ ’میری خالہ کے شوہر نے ان سے اس لیے شادی کی کہ وہ امریکہ منتقل ہوسکیں۔ پھر انھوں نے اپنے والدین کو بھی وہاں بلا لیا۔‘
 
image
 
ہدا مرزا اپنی زندگی کے تلخ تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میں نے ایک ایئر فورس افسر سے شادی کی۔ ہماری شادی کو 10 ماہ ہوئے تھے اور میں نے اس سے خلع لے لی میرے سابقہ سسر نے مجھ سے 50 لاکھ کا مطالبہ کیا جبکہ میرے شوہر چاہتے تھے کہ میرے والدین اسے ایک کار خرید کر دیں۔ اب جب میں نے خلع لیا ہے تو انھوں نے میرا جہیز رکھ لیا ہے اور اب وہ مل کر اسے استعمال کر رہے ہیں۔‘
 
ٹوئٹر صارف حرا عظمت نے لکھا ہے کہ وہ مرد جو اپنی حاملہ بیویوں کو ان کے میکے بھیجتے ہیں تاکہ خواتین کے والدین بچے کی پیدائش اور اس سے جڑے دیگر معاملات کے اخراجات برداشت کریں، وہ بھی گولڈ ڈِگر ہیں۔
 
جبکہ ماریہ کے مطابق وہ مرد بھی گولڈ ڈِگر ہیں جو ’نوکری کرنے والی خواتین سے شادی کرتے ہیں تاکہ وہ اس کے اخراجات، بچوں کے اخراجات اور عیش و آرام کو برداشت کر سکیں۔‘
 
ایک صارف نے لکھا کہ وہ مرد گولڈ ڈِگر ہیں جو ’اپنی گرل فرینڈ یا منگیتر سے ان کی کم تنخواہ والی نوکری، تعلیم، یا پیشہ ورانہ سرٹیفیکیشن وغیرہ کے لیے مالی مدد کرنے کو کہتے ہیں اور جب انھیں بہتر معاوضے والی نوکری مل جاتی ہے تو وہ انھیں دھوکہ دے کر چھوڑ دیتے ہیں۔‘
 
جبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کسی کی زندگی کے فیصلوں کو اس قدر سطحی انداز میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ جیسے نور اعجاز چوہدری کہتی ہیں کہ ’میں اس بات سے تنگ ہوں کہ خواتین کو گولڈ ڈیگر کہا جاتا ہے، عموماً مخصوص آمدنی والے گھروں کی خواتین کو۔
 
’خواتین کو بغیر کسی ججمنٹ کے معاشرے میں اوپر جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔ خاص طور پر ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں کسی شخص کی قدر اس کی کلاس کو دیکھ کر ہوتی ہے۔‘
 
جہاں ایک طرف زیادہ تر خواتین اپنی زندگی سے جڑے تلخ تجربوں کے بارے میں بات کر رہی ہیں وہیں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر ہم ایسی روایات اور رویوں کی حوصلہ افزائی کیوں کرتے ہیں۔
 
ٹویٹر صارف عمران لکھتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں زیادہ تر لوگ ایسے رویوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اپنے لیے کھڑے ہونے والے شخص کو کوئی سہارا نہیں دیتے ’بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اس سب کو روکنے کے لیے متاثرین پر الزام تراشی بند کرنا ہوگی۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: