کیا اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے
کیا یہ کہا جا سکے گا اسلام سلامتی اور مسلمان صلح جو لوگ ہیں اور کیا یہ
بات اب مانی جاے گی کہ پاکستانی قوم بہت ہی مہمان نواز اور اسوہ رسول ﷺ کی
تابع فرمان قوم ہے.افسوس صد افسوس جو کچھ بھی کر لیا جاے نقصان مگر ہو
چکا.اﷲ ہم پہ رحم کرے ،اس قوم اور لیڈروں کو شیرخدا حضرت علی رض کی فہم
وفراست کے چند قطرے ہی عطا کر دے کاش ،دور نبوی میں ایک گستاخ شاعر کو پکڑ
اور جکڑ کر دو جہانوں کے عظیم المرتبت سردار ﷺکے سامنے پیش کیا گیا.جرم
بلند آواز میں بتایا گیا جس نے دربار نبوت میں موجود بہت سے لوگوں کے تن
بدن میں آ گ لگا دی.بہت سے لوگ غصے سے کھولنے لگے کچھ گستاخ کا سرتن سے جدا
کرنے کو بے چین تاہم اﷲ کے محبوبﷺ نے ایک نظر مجرم دوسری اپنے اصحاب پرڈالی
اور فرمان جاری کیا اس گستاخ کو علیؓ کے حوالے کر دو وہ اس کا فیصلہ کریں
گے ،گستاخ کو شیر خدا ؓکے حوالے کر دیا گیا اسد اﷲؓ نے گستاخ کو پکڑا اپنی
تلوا اٹھائی اور مجمعے سے باہر نکل گئے.کچھ گردن ماری کا تماشہ دیکھنے
پیچھے ہو لیے تھوڑادور جا کے داماد رسول نے تلوار نیام سے باہر نکالی گستاخ
کی رسیاں کاٹیں گرہ سے دو ہزار درہم نکالے اور ایک بہترین اونٹ دے کر مجرم
سے کہا بھاگ جا اس سے پہلے کہ کوئی جزبات میں آکر سنگین قدم اٹھا لے تو
یہاں سے نکلنے کی کر.مجرم جھٹ اونٹ پہ بیٹھااور اپنی راہ لی دیکھنے والوں
نے شدید احتجاج کیااور دربار نبوت ﷺمیں شدید شکوہ کناں ہوے یا رسول اﷲﷺ
!علیؓ نے آپ کے گستاخ کو بھگا دیا اﷲ کے رسول نے فرمایا اس مجرم کے لئے دل
نبی ﷺکو سمجھا تو صرف علیؓ سمجھا تم نہیں سمجھے ،یہی بہتر فیصلہ ہے جوعلی
ؓنے کیا اور پھر اگلے دن انہیں معترضین کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہی
مجرم جسے علیؓ نے بھگا دیا تھا صبح نبی ﷺ کی مسجد میں فجر کے وقت وضو کر
رہا تھا.وضو کے بعد اﷲ کے رسولﷺ کے قدموں میں گر گیا اور گر کر ایسا عروج
پایاکہ شاید ہی کسی شاعر کو نصیب ہوا ہو مدحت نبوی کے ایسے ایسے اشعار کہے
جو نہ پہلے کسی نے کہے نہ شاید آئندہ کو ئی کہہ سکے گا یہ تھے ہمارے نبیﷺ
اور ان کے چاہنے والے اور پھرآج اپنا موازنہ بھی کیجئیے ہم کیا ہیں وہ کیا
تھے اسلام سلم سے جس کا مطلب سلامتی اور کوئی ہمارے شر سے محفوظ نہیں پھر
بھی عشاق.حیرت اور افسوس کے ساتھ بے حسی و ڈھٹائی کے سمندر میں غوطہ زن
،کون ہے جو ہمارے نبی کی شان گھٹاسکے کوئی کچھ بھی کر لے جس کو اﷲ نے معرفت
عزت اور بلندی عطا کی کسی ایرے غیرے کی کیامجال ،مگر ہم ہیں کہ تماشا بننے
اور بنانے کو بے چین.اس رسول ﷺکے نام دین اور تعلیمات کو ہم نے دنیا میں
تماشہ بنا دیا لوگ ان کو پڑھتے اور پھر ہمیں دیکھتے ہیں تو حیران و پریشان
ہو جاتے ہیں ایسے عظیم ترین انسان کے نام لیوا اور ان کے پیروکارہونے کے
دعویداروں کے کرتوت انسان تو انسان حیوانوں اور شیطان کو بھی شرما رہے
اوریہ سب کچھ ان کی عظمت اور ان کے نام پر جنہوں نے پرندوں اور حلال
جانوروں اور حرام جانوروں پر بھی ظلم زیادتی ن کرنے کا حکم دیا ،جنہوں نے
اپنے مجاہدین کو جنگپر بھیجنے سے پہلے فرمایا دیکھنا خبردار کسی کمزور
بوڑھے عورت اور بچے پر حملہ نہ کرنا ،جب کسی قوم کو فتح کر لو تو اس کے
کمزوروں پر رحم کرنا جنگ میں مارے جانے والے بھلے دشمن اور غیر مسلم ہی
کیوں نہ ہوں ان کی لاشوں کی بے حرمتی نہ کرنا ،یہ تھے ہمارے نبی کامل ﷺ او
ر ہم کیا ہیں ،ہم کیا کر رہے ہیں ایک ایسا شخص جو غیر مسلم جسے اردو آتی نہ
پنجابی.سری لنکا جیسے ملک کاباسی جو دنیا بھر کو آنکھوں کا عطیہ دینے میں
نمبر ون اور ان سے آنکھیں وصول کرنے والوں میں ہم نمبر ون.پریانتھا کمارا
جب تعلیم مکمل کر کے ڈگری لے کر گھر پہنچا ہو گا تو ماں باپ خوشی کے مارے
نہال ہو گئے ہوں گے پھر فیصلہ ہوا ہو گا کہ کہاں جاب کی جاے دنیا کے کس
کونے کو اپنا ہنر دان کیا جاے والدین اور بھائیوں نے کہا ہو گا بھائی دور
جانے کی ضرورت نہیں یہ انڈیا کے ساتھ ہنستا بستا پاکستان امن و سکونکا
گہوارا جو اسلام کے نام پر بنا جو امن اور محبت کے ساتھ رواداری کا درس
دیتا ہے جہاں کے باسی پکے سچے مسلمان وہاں شاید تمہیں گھرسے دور ہونے کا
احساس بھی نہیں ہوگا کہ بلا کے مہمان نواز.اس نے آو دیکھا نہ تاو ماں باپ
کو خدا حافظ کیا بیوی بچے وہیں چھوڑے اور سیدھا پاکستان کے شہر سیالکوٹ آن
پہنچا اور پھر ادھر کاہی ہورہا پوری کمٹمنٹ اورایمانداری سے اپنا کام جاری
رکھا ایک عام سی فیکٹری کو فیفا کی منظورشدہ لسٹ میں لاکھڑا کیا.وقت پرآتا
وقت پر جاتا نہ خود کام چور تھا نہ کام چوری برداشت کرتا تھا اور یہی اس کا
سب سے بڑا جرم تھاجو اس کی جان لے گیا اسے پتہ نہیں تھا یہ اندھے اور کانے
لوگوں کا دیس ہے یہاں آئینے نہیں فتوے اور تبرے بکتے ہیں یہاں کام چوری دو
نمبری دھوکہ بازی فریب،مکاری اور بد اخلاقی قومی نشان بننے کے قریب
ہیں،فیکٹری کو بیرون ملک سے آنیوالے وزیٹر کے لیے صفائی کرواتے کرواتے ایک
پوسٹر اتروا بیٹھا اور کام چور لوگ جو موقعے کی تاک میں تھے آنا فانا اس پر
چڑھ دوڑے اور پھر جو کچھ ہوا اس نے اس ملک اور باسیوں کے ساتھ ساتھ دنیا
بھر کے مسلمانوں کا سرجھکا دیا،ہجوم مارنے کے بعد جو ڈائیلاگ بازی کر رہا
تھا ان کی زبان و بیان سے ان کی فصاحت و قابلیت کا اندازہ ہو رہا تھا،قائدا
عظم اور علامہ اقبال نے کبھی شاید خواب میں بھی نہ سوچا ہو گا کہ ہم اسلام
اور کلمہ کے نام پر جو اسلامی ریاست قائم کرنے جا رہے ہیں اس پر ایک وقت
ایسا آئے گا جب انصاف مفلوج ہو جاے گا اور فیصلہ ساز جتھے وجود میں آ کر
خود ہی مدعی خود ہی منصف اور خود ہی جلاد بن کر فیصلہ کیا کریں گے،کوٹ
رادھا کشن میں دو میاں بیوی بھٹے میں ڈال دیے گئے مشال خان کو گستاخی کی
سزا دی گئی اسی شہر سیالکوٹ میں چند سال قبل جتھوں کے ہاتھوں د و حافظ قرآن
بھائی جتھانہ انصاف کی نظر ہو گئے مگر ان د و بھائیوں کی ماں مشال خان اور
نقیب اﷲ محسود کا والد اور اب یہ سری لنکن فیملی شاید پیشی پیشی کا کھیل
دیکھ دیکھ کر تھک کر اپنا فیصلہ قدرت پر چھوڑ دیں گے کیوں کہ بقول وزیر
اعظم صاحب کے یہاں کمزور کے لیے قانون الگ جبکہ طاقتور کے لیے الگ ہے ،رہا
نظام انصاف تو جس قاتل نے ایک نوجوان لڑکی کو قتل کرنے کے بعد اس کا سر تن
سے جدا کر دیا اور تمام ثبوت موجود مجرم اقرار جرم بھی کر چکا کیس بھی نور
مقدم کے نام سے عالمی شہرت حاصل کر چکا مگر نہ جانے فیصلہ ہے کہ ہونے کا
نام نہیں لے رہا، جب تک جتنے قتل اور ان کے برابر پھانسیاں نہ ہوں گی بھول
جائیں کہ جان و مال یہاں محفوظ ہو گا، حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا فرمان عالی
شان ہے کہ ظلم پر تو معاشرہ قائم رہنا ممکن ہے مگر نا انصافی پر نا ممکن
،تو کیا ہم اپنے انجام کے قریب ہیں ، موجودہ نظام سے کسی کو امید ہو تو ہو
خواب دیکھنے پر کون کب پابندی لگا سکا ہے مگر ایک غیر ملکی کو یوں بیچ سڑک
پر دن دیہاڑے اس کے جسم کی ایک ایک ہڈی توڑ کر قتل کر کے لاش بھی جلا دینے
کے بعد کیا اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے کیا یہ کہا
جا سکے گا اسلام سلامتی اور مسلمان صلح جو لوگ ہیں اور کیا یہ بات اب مانی
جاے گی کہ پاکستانی قوم بہت ہی مہمان نواز اور اسوہ رسول ﷺ کی تابع فرمان
قوم ہے ،فسوس صد افسوس جو کچھ بھی کر لیا جاے نقصان مگر ہو چکا.اﷲ ہم پہ
رحم کرے ،اس قوم اور لیڈروں کو شیرخدا حضرت علی رض کی فہم وفراست کے چند
قطرے ہی عطا کر دے کاش.۔۔۔۔۔
|