بچے کے رونے کا سن کر دفتر میں بیٹھا نہیں جاتا تھا...پاکستانی شوہر جو گھروں پر رہ کر بچے پال رہے اور بیویاں کما رہی ہیں، انہوں نے ایسا فیصلہ کیوں کیا؟

image
 
’دوستوں اور عزیزوں کی محفل میں مجھ سے اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ ’آپ کیا کرتے ہیں؟‘ جب میں کہتا ہوں کہ ’میں بچے پالتا ہوں‘ تو اکثر لوگ آگے سے ہنستے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ میں ان سے مذاق کر رہا ہوں۔‘
 
روایتی مردوں کے برعکس عامر احمد گھر رہ کر اپنے دونوں بچوں زویا اور آذان کو پال رہے ہیں اور اسی کی مدد سے ان کی اہلیہ کا پی ایچ ڈی کرنے اور نوکری جاری رکھنے کا خواب ممکن ہو پایا ہے۔
 
شادی کے ایک سال بعد تک عامر پروڈکشن کے کام سے وابستہ تھے جس میں بقول ان کے نہ دن کا پتا نہ رات کی خبر۔ رات کے تین تین بج جاتے تھے مگر بیتا پولک سے شادی کے سال بعد ان کی پہلی اولاد زویا پیدا ہونے والی تھی تو تب عامر اور ان کی اہلیہ نے مل کر فیصلہ کیا کہ وہ یعنی عامر گھر پر رہ کر خود زویا کو پالیں گے۔
 
اس فیصلے کی وجوہات بتاتے ہوئے عامر کہتے ہیں کہ ’میری بیچلرز ڈگری تھی اور بیتا اس وقت پی ایچ ڈی کر رہی تھی، لہٰذا میں نے کہا کہ ’میں گھر سنبھالتا ہوں، بچے بھی میں پالتا ہوں، تم کام کرو جا کر۔‘ اس سے اگلی بات وہ ہنستے ہوئے بتاتے ہیں کہ میں نے اسے کہا ’جا تو آزاد ہو جا۔‘
 
ایک منفرد تعلق
عامر بتاتے ہیں کہ شروع میں انھیں سمجھ نہیں آئی کہ گھر پر رہ کر بچے پالنا کتنا مشکل ہو گا کیونکہ بچے بہت بڑی ذمہ داری ہیں اور ہر وقت ڈر رہتا ہے کہ کہیں وہ کسی سوئچ میں ہاتھ نہ دے لیں، کچھ غلط نہ کھا لیں۔
 
’لیکن جب میں نے گھر رہ کر زویا کو سنبھالنا اور اس کے ساتھ وقت بتانا شروع کیا تو مجھے ایک والد کے طور پر بہت مزا آنے لگا اور میرا اپنی بیٹی کے ساتھ جو تعلق بنا مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ شاید بہت کم باپوں کا اپنی بیٹی کے ساتھ بنتا ہو گا۔‘
 
بچے پالنے کا ایک اور فائدہ یہ ہوا کہ عامر نے اپنے بچپن کی وہ ساری چھوٹی چھوٹی باتیں دوبارہ سے سیکھیں جو وہ شاید بھول چکے تھے۔ عامر سمجھتے ہیں کہ یہی چھوٹی چھوٹی چیزیں جو اپ بچوں سے سیکھتے ہیں یہ آپ کو ایک بہتر انسان بناتی ہیں۔
 
image
 
عامر گھر رہ کر اپنے دونوں بچے پالنے کے ساتھ ساتھ بیٹی کو سکول چھوڑنے، واپس لانے، اپنی نگرانی میں گھر کی صفائی کروانے سے لے کر، خود سبزیاں لانے، بچوں اور بیگم کے لیے ناشتے سے لے کر دوپہر اور رات کا کھانا تک خود بنواتے اور اکثر پکاتے بھی ہیں۔
 
’صبح اٹھ کر میں سب کے لیے ناشتہ بناتا ہوں کیونکہ مجھ سے بہتر ناشتہ کوئی بناتا نہیں‘۔ اس لمحے ان کی اہلیہ بیتا کہتی ہیں ’اور صرف عامر ہی زویا کو ناشتہ کھلا سکتے ہیں، وہ کسی اور کے ہاتھ سے کچھ کھا ہی نہیں سکتی۔‘
 
عامر کے مطابق گھر کی ایک ایک چیز، حتیٰ کہ ایک سوئی تک کہاں پڑی ہے وہ صرف انھیں ہی پتا ہے۔
 
 
’والدہ اور بہنوں نے میری تربیت کی‘
عموماً پاکستانی معاشرے میں لڑکیوں کو تو گھر چلانے اور بچے سنبھالنے کی تربیت دی جاتی ہے، مگر مردوں کے معاملے میں ایسا کچھ نظر نہیں آتا، تو عامر نے بچے پالنا اور گھر چلانا کہاں سے سیکھا؟
 
اس کے جواب میں وہ بتاتے ہیں کہ ’چونکہ میرا کوئی بھائی نہیں تھا تو میری والدہ اور بہنوں نے میری تربیت کی، باقی سب کام کر کے سیکھنے والا حساب تھا۔ میں بچپن سے ہی اپنی بھانجیوں کے ڈائپر تبدیل کر رہا تھا، انھیں دودھ بنا بنا کر پلا رہا تھا، لہٰذا مجھے کچھ نہ کچھ پتا تھا کہ بچوں کو کیسے سنبھالنا ہے، البتہ میری بیوی کو کچھ نہیں پتا تھا۔‘
 
وہ بتاتے ہیں کہ جب زویا پیدا ہوئی تو بیتا نے کہا ’ڈائپر کیسے تبدیل ہو گا؟ اس موقع پر میں نے اسے کہا ’ایزی ہو جاؤ یار، پریشان نہیں ہو میں کر لیتا ہوں۔‘
 
عامر کے مطابق زویا کو نہلاتے ہوئے بیتا کو ڈر لگتا تھا لیکن میں بڑے آرام سے اسے اپنے بڑے بڑے ہاتھوں میں لے کر ٹب میں نہلا لیتا تھا اور جب بچے زیادہ روتے ہیں اور مجھے ساتھ کوئی کام کرنا پڑتا ہے تو میں آج بھی بچوں کو سٹریپ میں لٹکا کر گھر کے باقی کام بھی دیکھ لیتا ہوں۔
 
گھر رہ کر بچے پالنے کو انا کا مسئلہ کیوں نہیں بنایا؟
 
image
 
ہم اکثر سنتے ہیں کہ مردوں کی جگہ دفتر میں ہے اور خواتین گھر میں بچے پالتی اور گھر سنبھالتی اچھی لگتی ہیں مگر روایتی مردوں کے برعکس عامر نے بچوں کی پرورش اور بیوی کے کریئر کو خود پر ترجیح دی اور گھر رہ کر بچے پالنے کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔
 
ان کے بقول ’اس میں انا کہاں سے آ گئی کیونکہ آپ کے اپنے بچے ہیں، اگر اس میں بھی انا کو لانا ہے تو بچے کسی اور کو دے دیں۔‘
 
عامر کے مطابق جب تک آپ گھر بیٹھ کر پیسے نہیں کما رہے اور صرف بچے پال رہے ہیں تو اس میں شاید بندے کی انا کو ٹھیس لگ سکتی ہے۔ ’ایک وقت آتا ہے کہ آپ کہتے ہیں میں بچے بھی پال رہا ہوں اور آخر میں مجھے باتیں بھی سننی پڑ رہی ہیں۔‘
 
لہٰذا عامر نے گھر رہ کر اخراجات چلانے کے لیے اپنا ذریعہ آمدن بھی ڈھونڈا۔ وہ بتاتے ہیں کہ شروع میں انھیں گھر تک کلائنٹس لانے میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر ’نیت صاف تھی تو خدا نے مدد کی اور اہلیہ نے بھی بھرپور ساتھ دیا اور اس طرح مجھے نیا پروفیشن مل گیا۔‘
 
انھوں نے اپنے بچوں اور بھانجیوں کی پورٹریٹ فوٹوگرافی شروع کی اور گھر میں ہی ایک فوٹوگرافی سٹوڈیو کے ساتھ ساتھ فرنیچر کی ورکشاپ بھی بنائی جہاں وہ میز ڈیزائن کرتے ہیں مگر اس سب کے لیے انھیں وقت تب ملتا ہے جب ان کی اہلیہ پانچ بجے یونیورسٹی سے گھر واپس آتی ہیں۔ عامر کے مطابق پانچ بجے سے وہ رات گئے تک اپنا کام کرتے ہیں۔
 
اگر بیوی پاکستانی ہوتیں تو پھر بھی یہی قربانی دیتے؟
 
image
 
عامر کے مطابق چونکہ ان کی بیوی پاکستانی نہیں اس لیے یہ فیصلہ ان کے لیے بہت آسان رہا ہے لیکن اگر ان کی بیوی پاکستانی ہوتیں اور اُن کی پی ایچ ڈی کے وقت بھی ایسا ہی فیصلہ کرنا پڑتا کہ گھر رہ کر بچے کون پالے گا تو وہ تب بھی یہی فیصلہ کرتے۔
 
اگرچہ عامر نے گھر رہ کر بچے پالنے کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا تاہم وہ مانتے ہیں کہ یہ فیصلہ پاکستانی مردوں کے لیے آسان نہیں کیونکہ ’معاشرے کا دباؤ زیادہ ہے۔‘
 
’سب سے پہلے یہی پوچھا جاتا ہے کہ ’منڈا کی کردا اے؟‘ اور صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے بیشتر ممالک میں مردوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ گھر سے باہر جا کر نوکری کریں گے اور بیویاں گھر رہ کر گھر اور بچے سنبھالیں گی۔‘
 
تاہم جو مرد گھر پر رہنے والے والد بننا چاہتے ہیں مگر معاشرے کے ڈر سے ایسا کر نہیں پا رہے، عامر کہتے ہیں کہ اُنھیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے کہ باہر والے کیا کہتے ہیں، آپ کو صرف اپنے خاندان کا سوچنا چاہیے۔‘
 
’اکثر لوگ یہی پوچھتے ہیں کہ آپ کے شوہر کیا کرتے ہیں‘
بیتا بتاتی ہیں کہ اکثر ان کے کام کی جگہ یا لوگوں سے ملتے ہوئے ان سے ہمیشہ یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کے شوہر کیا کرتے ہیں؟ ’کبھی کبھار میں فخر سے بتاتی ہوں کہ یہ بچے سنبھالتے ہیں، اور کبھی کبھار میں انھیں کھل کر نہیں بتانا چاہتی اور میں کہہ دیتی ہوں کہ یہ ایک بزنس مین ہیں جو ایک آسان جواب ہے اور یہ ہیں بھی۔‘
 
’اکثر لوگوں کو لگتا ہے میں ان سے مذاق کر رہی ہوں اور کبھی کبھار تو لوگ مجھ پر ترس کھا رہے ہوتے ہیں۔‘ اس موقع پر عامر ہنستے ہوئے کہتے ہیں ’بیچاری پھنس گئی، ویلے سے شادی کر لی۔‘
 
بیتا کہتی ہیں کہ وہ اکثر ماؤں کو تین تین چار چار بچے سنبھالتے دیکھتی ہیں تو ان سے پوچھتی ہیں کہ تم شوہر کی مدد کے بغیر یہ کیسے کر رہی ہو؟ کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ وہ شاید یہ کبھی نہ کر پاتیں۔
 
تو کیا عامر ہمیشہ گھر پر رہ کر بچے ہی پالیں گے یا چند سال بعد جب بچے بڑے ہو جائیں گے تو وہ فل ٹائم نوکری کریں گے؟
 
عامر کے مطابق انھیں گھر رہ کر بچے سنبھالنے اور کام کرنے میں مزا آ رہا ہے لیکن اگر کوئی پراجیکٹ آ گیا تو وہ شاید اس پر کام کرنا چاہیں گے مگر چونکہ ابھی ان کے بچے چھوٹے ہیں لہٰذا انھیں کم از کم مزید پانچ سے دس سال دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔
 
عامر کو خوشی ہے کہ انھوں نے اپنا زیادہ سے زیادہ وقت بچوں کے ساتھ گزارا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ’زندگی بہت چھوٹی ہے، بڑے ہوتے ہی بچے اِدھر اُدھر نکل جائیں گے اور آخر میں آپ کو یہی وقت یاد آنا ہے کہ کاش اس وقت میں نے بچوں کے ساتھ وقت بتایا ہوتا، انھیں گلے لگایا ہوتا۔‘
 
image
 
بچوں اور ماں کے رشتے کے متعلق عامر کا کہنا ہے کہ وہ ماں اور بچوں کے درمیان پیار کو سمجھتے ہیں اور جب ان کی اہلیہ کام پر جا کر بچوں کو یاد کرتی ہے تو اس موقع پر وہ انھیں ویڈیو پر سب دکھاتے اور بچوں کے کھانے سے لے کر گھر کی صفائیوں تک سب بتاتے ہیں۔
 
عامر بتاتے ہیں کہ ’گذشتہ پانچ برسوں میں بچوں کے ساتھ رہنے سے مجھے احساس ہوا ہے کہ مائیں اپنے بچوں کے لیے کتنی قربانیاں دیتی ہیں۔ وہ راتوں کو جاگتی ہیں، دن رات ان کی دیکھ بھال کرتی ہیں، انھیں اپنے لیے باتھ روم جانے، نہانے حتیٰ کہ کھانا کھانے کا بھی وقت نہیں ملتا اور وہ اتنا کام کر رہی ہوتی ہیں جتنا مزدور کرتے ہیں۔ ماں ایسے ہی ماں نہیں ہوتی، وہ اپنے بچوں کے لیے بہت قربانیاں دیتی ہے اور میرے دل میں خواتین کے لیے عزت مزید بڑھ گئی ہے۔‘
 
’وہ کہتے ہیں کہ بچے پالنا آسان کام نہیں ہے مگر جو مرد یہ کرتا ہے میں اسے سیلوٹ کرتا ہوں۔‘
 
image
 
’تہمینہ کو لگتا ہے کہ میں نے اسے سہارا دیا ہے، حالانکہ اگر آپ غیر جانبدار ہو کر سوچیں تو میں نے صرف اپنی ذمہ داری نبھائی ہے۔‘
 
لاہور سے تعلق رکھنے والے 33 سالہ محمد عثمان بھی ایک ایسے ہی شخص ہیں جو گھر رہ کر نا صرف اپنے دونوں بچے پال رہے ہیں بلکہ گذشتہ کئی برسوں سے اپنی ڈاکٹر اہلیہ کی ان کے کریئر میں آگے بڑھنے میں مدد بھی کر رہے ہیں۔
 
عثمان کا کہنا ہے کہ جب آپ شادی کرتے ہیں تو ذمہ داریاں برابر ہوتی ہیں، اور بچہ صرف ماں کی ذمہ داری نہیں ہوتا کہ وہی اسے سنبھالے اور روئے تو ماں ہی اسے اٹھا کر چپ کروائے یا دودھ بنا کر دے۔ ’بچہ ماں اور باپ دونوں کی برابر ذمہ داری ہے۔‘
 
’بچے کے رونے کا سن کر دفتر میں بیٹھا نہیں جاتا تھا‘
 
image
 
شادی کی شروعات میں عثمان اور تہمینہ دونوں میاں بیوی بہت اچھی طرح اپنی اپنی نوکریاں کر رہے تھے، پھر کورونا وائرس کی وبا پھیلی اور ساتھ ہی ان کا بیٹا بھی پیدا ہوا، جس کے بعد انھیں فیصلہ کرنا پڑا کہ دونوں میں سے گھر رہ کر بچے کون سنبھالے گا۔
 
تو عثمان نے ہی گھر رہنے اور بچے سنبھالنے کا فیصلہ کیوں کیا اور اپنا کریئر ختم کر کے بیوی کے کریئر کو ترجیح کیوں دی؟
 
اس کی پہلی وجہ تو وہ یہ بتاتے ہیں کہ جب وہ دفتر میں بیٹھے کام کر رہے ہوتے اور گھر سے فون آتا کہ آپ کا بیٹا رو رہا ہے تو اس کے بعد وہ اتنے ڈسٹرب ہو جاتے کہ ان سے کام نہیں ہو پاتا تھا اور وہ فوراً گھر آ جاتے۔
 
دوسری وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ وہ ایک اوسط طالبعلم رہے ہیں لیکن جب وہ اپنی بیوی کی مارکس شیٹیں دیکھتے تو رشک کرتے ہوئے کہتے کہ ’یار تم نے تو تین بندوں کے نمبر خود لے لیے ہیں، اتنے نمبر نہ لیتی تو کوئی اور بیچارہ بھی پاس ہو جاتا۔‘
 
لہٰذا جب وہ اپنی اہلیہ کی محنت دیکھتے تو سوچتے تھے کہ ’نہیں یار یہ آگے پڑھنے (سپیشلائزیشن کرنے) کی مستحق ہے اور اگر میں نے اسے یہیں روک دیا تو شاید اسے امتحان پاس کرنے میں پانچ چھ سال لگ جائیں۔‘
 
چنانچہ اُنھوں نے اس موقعے پر اپنی اہلیہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور وہ پہلی بار میں ہی امتحان میں کامیاب ہو گئیں۔
 
’اتنا پڑھا کر بیوی کو گھر بٹھا کر ذہنی اذیت نہیں دینا چاہتا تھا‘
تہمینہ کے سپیشلائزیشن کے امتحانات پاس کرنے کے بعد ایک بار پھر سے عثمان نے گھر رہ کر بچوں کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ان کے مطابق وہ اتنا پڑھانے کے بعد اپنی اہلیہ کو گھر بٹھا کر ڈپریشن یا ذہنی اذیت نہیں دینا چاہتے تھے۔ ’میں چاہتا تھا کہ یہ گھر سے نکل کر کام کرے تاکہ تہمینہ کا دماغ تر و تازہ رہے۔‘
 
تو کیا خود گھر رہ کر انھیں ڈپریشن یا ذہنی اذیت نہیں ہوتی؟ اس کے جواب میں عثمان کہتے ہیں کہ ’یقیناً ہوتی ہے مگر جب بچہ مسکرا کر دیکھ لیتا ہے تو میری ساری پریشانی ختم ہو جاتی ہے۔‘
 
’مرد گھر میں چوڑیاں پہن کر بیٹھا ہے اور بیوی کما رہی ہے‘
اس سوال کے جواب میں کہ جب انھوں نے گھر رہ کر بچے پالنے کا فیصلہ کیا تو انھیں کس قسم کی باتیں سننی پڑیں، عثمان کہتے ہیں کہ ’میرے والد اور والدہ نے میری حمایت کی لیکن میں یہ نہیں کہوں گا کہ میرے خاندان یا تہمینہ کے خاندان یا میرے دوستوں نے باتیں نہیں کیں۔
 
’میرے لیے ’زن مرید‘ اور ’یار تُو تو فارغ ہو گیا ہے‘ جیسے الفاظ بھی استعمال کیے گئے۔ ایک دوست نے کہا ’تم تو گھر بیٹھ کر بیوی کا کھاتے ہو‘۔
 
image
 
ایک اور دوست کی والدہ نے کہا ’تمھاری بیوی تو خوب رعب جماتی ہو گی کیونکہ کماتی جو وہ ہے‘ حتیٰ کہ یہ تک کہا گیا کہ ’تو ہمارے دائرے سے ہی نہیں، اسلام کے دائرے سے بھی نکل گیا ہے۔‘
 
عثمان بتاتے ہیں کہ ’میرے بڑے بھائی جنھیں اپنے باپ کی جگہ سمجھتا ہوں، انھوں نے مجھے کہا ’میں نے پہلی بار دیکھا ہے مرد گھر میں چوڑیاں پہن کر بیٹھا ہے اور بیوی کما رہی ہے۔‘
 
تاہم ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب انسان اپنے سب سے عزیز رشتے سے ایسی باتیں سن لے تو پھر باقیوں کی باتیں اتنی اہمیت نہیں رکھتیں۔
 
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ انھیں اپنے اردگرد کے لوگوں، رشتہ داروں اور دوستوں سے باتیں تو سننی پڑتی ہیں مگر وہ انھیں اپنی گھریلو زندگی پر اثرانداز نہیں ہونے دیتے ’کیونکہ لوگوں کو یہ تو نہیں پتا کہ میں گھر رہ کر جو چھوٹا موٹا کاروبار کر رہا ہوں، جب اس سے کوئی پیسے نہیں آ رہے ہوتے تو میری بیوی ہی ہمارے گھر کو مالی طور پر چلا رہی ہوتی ہے۔‘
 
عثمان کا کہنا ہے کہ انھیں خوشی ہے کہ ان کی بیوی نے ناصرف ان کا ساتھ دیا بلکہ ’کبھی مجھے یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میں کُل وقتی نوکری نہیں کر رہا تو مجھے پیسوں کی کوئی کمی ہو یا میں کوئی چیز خرید نہ سکوں۔‘
 
وہ کہتے ہیں کہ ’میں ہمیشہ سے یہی چاہتا تھا کہ میری بیوی مجھ سے اتنی محبت اور مجھ پر اتنا ہی اعتماد کرتی ہو۔ اور مجھے ویسی ہی بیوی مل گئی اور اس کے لیے مجھے چاہے جتنی باتیں سننی پڑیں مجھے کوئی پروا نہیں۔‘
 
تو کیا وہ اپنے کسی عزیز یا دوست کی حوصلہ افزائی کا سبب بنے، اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ ایسا تو نہیں ہوا البتہ یہ سننے کو ضرور ملا کہ ’تمھاری وجہ سے اب ہماری بیویاں تمھاری مثال دیتی ہیں اور سپورٹ مانگتی ہیں۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: