کھیل ' کھلاڑی ڈسپلن اور بسکٹ کے پلیٹ


کھیلوں سے وابستہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کھیلوں سے وابستہ افراد ملک کے سفیر ہوتے ہیں . ماشاء اللہ ان کھلاڑیوں کی " سفارت کاری" کا اندازہ ہمیں پشاور سپورٹس کمپلیکس میں بھی ہوا شکر ہے کہ یہ پشاور تھااگر یہ کہیں قومی سطح کا یا پھر بین الاقوامی سطح کی تقریب ہوتی اور ا س طرح ہوتا تو پھرلوگ کہتے " خوچہ پٹھا آن " بڑ ا پیٹو ہے
کھیل زندگی میں نظم و ضبط اور برداشت پیدا کرنے کا نام ہے اور کھیلوں سے وابستہ افراد میں نظم و ضبط اور برداشت سب سے زیادہ ہوتی ہیں یہ الفاظ اور جملے کھیلوں کے میدان سے وابستگی اور رپورٹنگ کی وجہ سے کئی سال سے سننے کو مل رہے ہیں لیکن صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ کسی بھی کھیل سے وابستہ افراد خصوصا کھلاڑیو ں میں نظم و ضبط دیکھنے کو نہیں مل رہی سوائے چند کھیلوں کے ' بیشتر کھیلوں کے میدان تو آباد ہیں اور کھلاڑی بھی نئے پیدا ہورہے ہیں مگر ان کی زندگی میں ڈسپلن دیکھنے کو نہیں مل رہا جس کی بنیادی وجہ یقینا کھیلوں میں اور کھیلوں کے میدان میں سیاست کا عمل دخل ہے جس کا شکار کھیلوں سے وابستہ تنظیمیں بھی ہیں اور اسی کے ساتھ ساتھ کھیلوں کی رپورٹنگ کرنے والے بھی صحافی بھی اس کی نذر ہونے لگے ہیں.باتیں یقینا بہت ساری ہے مگر کیا کھیلوں سے وابستہ ایسوسی ایشنز کے کوچز اور سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ملازمین کوچ کیا اپنے کھلاڑیوں کی صرف کھیل پر توجہ دینے کوضروری سمجھتے ہیں یا پھر ان کی تعلیم و تربیت بھی ضروری ہے یہ وہ سوال ہے جو کھیلوں ' ایسوسی ایشنز اور سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے وابستہ ہر ایک شخص کو اپنے آپ سے کرنے کی ضرورت ہے .
اتنی لمبی تمہید گذشتہ روز پشاور سپورٹس کمپلیکس میں منعقد ہونیوالے وکلاء سپورٹس گالاکے دوران فٹ بال سٹیڈیم میں کھیلنے والے کھلاڑیوںکی جانب سے چائے کی اطلاع ملتے ہی ملنے والی ہڑبونگ کی طرف ہے کیونکہ یہ چائے وکلاء اور آنیوالے مہمانوں کیلئے رکھی گئی تھی تاہم چائے کا اذن ہوتے ہی جس طرح پشاورسپورٹس کمپلیکس میں مخصوص کھیل کھیلنے والے کئی کھلاڑیوں نے میز پر جا کر بسکٹ اور دیگر لوازمات کے پلیٹ اٹھا کر اپنے بیگ میں ڈالے اور پھر بھی چائے اور بسکٹ کے پلیٹوں پرجھپٹے اس سے اندازہ ہوا کہ " ان کے پاس پیٹ " کچھ زیادہ بڑا ہے یا پھر یہ غریب" بھوکے ننگے "ہیں کہ دیکھتے ہی بھی نہیں کہ سپورٹس کمپلیکس میں پروگرام کن کا چل رہا ہے اور یہ لوگ " بن بلائے مہمان " بن گئے تھے .اگر کسی کو پشاور سپورٹس کمپلیکس میں آنیوالے ان افراد کی برداشت کا نظا رہ دیکھنا ہے تو پھر وہ لازما" سپورٹس کمپلیکس کے کیمروں میں " اگر کہیں پر لگے ہیں دیکھ لینا چاہئے کہ ان کھلاڑیوں میں" بسکٹ کی بھری پلیٹ دیکھ کر " کتنی برداشت ہے.
کھیلوں سے وابستہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کھیلوں سے وابستہ افراد ملک کے سفیر ہوتے ہیں . ماشاء اللہ ان کھلاڑیوں کی " سفارت کاری" کا اندازہ ہمیں پشاور سپورٹس کمپلیکس میں بھی ہوا شکر ہے کہ یہ پشاور تھااگر یہ کہیں قومی سطح کا یا پھر بین الاقوامی سطح کی تقریب ہوتی اور ا س طرح ہوتا تو پھرلوگ کہتے " خوچہ پٹھا آن " بڑ ا پیٹو ہے. خیر چھوڑیں یہ تو ایک ضمنی بات ہے لیکن کیا کھیلوں سے وابستہ افراد ' کوچز اورسپیشلی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے وہ ملازمین جن کے یہ شاگرد ہیں اگراپنے کھلاڑیوں کی تعلیم و تربیت پر بھی توجہ دیں تو آنیوالے وقت میں انہیں کم از کم اچھے الفاظ سے یاد بھی کیا جائے گا کیونکہ یہ کوچ بھی استاد کی حیثیت رکھتا ہے اور استاد روحانی باپ بھی ہوتا ہے .
ان روحانی والدین کواپنے کھلاڑیوں کی جسمانی تربیت کیساتھ ساتھ ان کے اخلاقی و ذہنی تربیت پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ آئے دن نت نئے سکینڈل تو بنتے رہتے ہیں مگر اگر یہ سکینڈل پشاور سپورٹس کمپلیکس میں " ٹک ٹاک" ویڈیو بنانے والوں کا اگر نکل آیا تو یقینا نقصان ان لوگوں کا ہوگا جوحقیقی معنوں میں کھیلوں کی تربیت حاصل کرنے کیلئے آتے ہیں اور ان کے والدین اپنے بچوں اوربچیوں کو بخوشی سپورٹس ڈائریکٹریٹ بھجواتے ہیں کہ وہ جا کر کھیلیں اور اپنی تربیت حاصل کریں .وفاق کے زیر انتظام پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر پشاور کے پرائیویٹ جیم کی طرف توجہ نئے تعینات ہونیوالے ڈائریکٹر جنرل اور انتظامیہ کو دینے کی ضرورت ہے جہاں پر مرد و خواتین کھلاڑی ایک ہی وقت میں تربیت حاصل کرنے کیلئے تو آتے ہیں مگر پھر اپنی حدود کراس کرکے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے سبزہ زار میں اٹھکیلیاں کرتے ہوئے ٹک ٹاک کرتے نظرآتے ہیں جس کی جانب ابھی تک کسی نے توجہ نہیں دی. قبل ازیں یہ سلسلہ صرف ہفتہ اور اتوار کو جاری رہتا اور مخصوص افراد سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے مین گیٹ پر بڑے شریف ہو کر داخل ہوتے مگر بعد میں چمن میں داخل ہونے کے بعد ان کی ٹک ٹاک کیلئے کئے جانیوالے شوٹس دیکھ کر لگتا کہ ہم کسی بالی ووڈ کی سیٹ پر آگئے ہیں جہاں پر ماڈلنگ ہورہی ہیں- خدارا ان چند لوگوں کی وجہ سے پورے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کا ماحول خراب نہ کیا جائے.
چلتے چلتے ایک بڑے اور اہم مسئلے کی جانب سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ کی توجہ دلانا ضروری ہے.کرونا کے اختتامی دنو ں میں پشاور سپورٹس کمپلیکس میں واقع طارق ودود ہال کے نئے بننے والے سنتھیٹک ہال جس پر مسلسل ببل بن رہے ہیں اور ہوا کے باعث بیڈمنٹن کے کھلاڑیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے . کھیلوں کے ایک ہزار سہولیات منصوبے میں بننے والے اس سنتیٹھک کورٹ کی ری انسٹالیشن کیلئے متعدد خطوط انجنیئرنگ ونگ سمیت سابق سیکرٹری سپورٹس کو بھی بھیجے گئے مگر اس پر ابھی تک خاموشی چھائی ہوئی ہیں حالانکہ تیس لاکھ روپے کی لاگت سے بننے والے اس سنھیٹک کورٹ کی پانچ سال کی گارنٹی اسے بنانے والے کنٹریکٹر نے لی تھی تاہم صرف تین ماہ کھیل کے بعد اب بیڈمنٹن ہال ببل بننے شروع ہوگئے ہیں او ر سنتھیٹک کورٹ کے نام پر عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ مخصوص جیبوں میں چلا گیا مگر ابھی تک اس کی ری انسٹالیشن کا عمل نہیں کیا گیا. خدا جانے راز کیا ہے.
ہمارے کچھ صحافی دوستوں کا موقف ہے کہ ہمیں " ان کی طرح " سب اچھا ہے" کا راگ الاپنا چاہیے کیونکہ اس سے " صاحب لوگ" خوش ہوتے ہیں ویسے یہ ان لوگوں کا حوصلہ ہے کہ وہ صاحب لوگوںکی خوشی کا خیال رکھتے ہیں نہ ہم "مزاحیہ اداکار "ہیں اور نہ ہی ہم نے صاحب لوگوں کو خوش کرنے کا ٹھیکہ لیا ہے.اللہ ان کو خوش رکھے ہم تو یہی کہیں گے کہ کھیل سے وابستہ کھلاڑیوں اورتنظیموں سمیت سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کو بھی ڈسپلن پر توجہ دین چاہیے تاکہ صورتحال بہتر سے بہترین بنے.

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 498921 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More