ابھی حال ہی میں ایشیائی انفراسٹرکچر سرمایہ کاری بینک کے
قیام کی چھٹی سالگرہ منائی گئی ہے۔ایک عالمی مالیاتی ادارے کے طور پر چھ
برس قبل چین کے دارالحکومت بیجنگ میں اس بینک کا قیام عمل میں لایا گیا
تھا۔اپنے دائرہ کار اور نوعیت کے اعتبار سے یہ مالیاتی ادارہ دنیا میں ایک
طویل عرصے سے فعال قرض دہندگان اداروں جیسے کہ عالمی بینک، بین الاقوامی
مالیاتی فنڈ اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرز پر کام کرتا ہے۔پاکستان بھی
ایشیائی انفراسٹرکچر سرمایہ کاری بینک کے اُن ستاون بانی ممالک میں شامل ہے
جنہوں نے بنک کے ضوابط اور دائرہ کار پر اتفاق کیا تھا۔
پاکستان کی وزارت اقتصادی امور میں شعبہ چین کے جوائنٹ سیکرٹری اور ایشیائی
انفراسٹرکچر سرمایہ کاری بنک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ڈائریکٹرچوہدری اسلم
کے مطابق گزشتہ چھ برسوں میں بینک نے پاکستان اور ایشیائی ممالک میں بنیادی
ڈھانچے کی تعمیر اور موجودہ وبا ئی صورتحال سے نمٹنے میں زبردست تعاون کیا
ہے۔ پاکستان میں ایم فور نیشنل ہائی وے، تربیلا ہائیڈرو پاور توسیعی منصوبے،
بالا کوٹ ہائیڈرو پاور اسٹیشن ، کراچی اور لاہور کے فراہمی آب اور آلودہ
پانی کے اخراج کے منصوبوں اور کراچی بی آر ٹی منصوبے سمیت دیگر بنیادی
تنصیبات کی تعمیر کے لیے بینک نے ایک ارب پچاس کروڑ ڈالر سے زائد کے قرضوں
کی منظوری دی ہے۔ اس کے علاوہ وبا ئی صورتحال کے دوران بینک نے پاکستان کو
750 ملین ڈالر مالیت کے انسداد وبا قرض جاری کیے تاکہ پاکستان کو وبا کے
باعث معاشی اور سماجی اثرات سے نمٹنے میں مدد مل سکے۔
ایشیائی انفراسٹرکچر سرمایہ کاری بینک کا اقدام بھی چین کی گزشتہ چار
دہائیوں کی اصلاحات اور کھلے پن کی پالیسیوں کے تحت اُن قابل ذکر اقتصادی
اور سماجی کامیابیوں میں شامل ہے جنہیں عالمی سطح پر وسیع پیمانے پر سراہا
گیا ہے۔ایسے اقدامات نے نہ صرف چینی عوام بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کے عوام
کی فلاح و بہبود میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔ 20 برس قبل ورلڈ ٹریڈ
آرگنائزیشن میں چین کی شمولیت بھی اسی "کھلے پن" کا نتیجہ ہی ہے جس کی وجہ
سے عالمی معیشت کو ٹھوس فوائد حاصل ہوئے ہیں۔چین کی جانب سے باقی دنیا کے
ساتھ فعال انضمام اور اعلیٰ درجے کی شراکت داری نے جہاں چین کے عالمی اثر
ورسوخ کو بڑھایا ہے وہاں چین کی عالمی ذمہ داریوں اور توقعات میں بھی اضافہ
کیا ہے۔اس کا واضح ثبوت یہی ہے کہ چین کا عالمی معیشت میں اقتصادی پیداوار
کا شیئر 2001 میں 4 فیصد سے بڑھ کر 2020 میں تقریباً 17 فیصد ہو چکا ہے ،اس
سے دنیا کے لیے چین کی بڑھتی ہوئی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
چین نے بھی دنیا کو مایوس نہیں کیا ہے بلکہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر
آئی) اور ایشیائی انفراسٹرکچر سرمایہ کاری بینک جیسے کثیر الجہتی منصوبوں
سے خود کو عالمی معاشی گورننس کے ایک انتہائی اہم کھلاڑی کے طور پر منوایا
ہے۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ چین نے ملٹی پولر ورلڈ آرڈر کی جانب ابھرتے ہوئے
معاشی ماحول، مغرب کے مالیاتی طریقوں پر اعتماد کے بڑھتے ہوئے فقدان، ایشیا
میں مزید سرمایہ کاری کو متحرک کرنے کی ضرورت اور اہم عالمی کثیر الجہتی
اداروں میں ابھرتی ہوئی اقوام کی "واضح کم نمائندگی" جیسے تمام پہلوؤں کو
مدنظر رکھتے ہوئے اپنا "سلوشن" پیش کیا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ کی ہی بات کی
جائے تو رواں برس کے آغاز ہی سے چین اور بی آر آئی سے وابستہ ممالک کے
درمیان اقتصادی اور تجارتی تعاون میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔جنوری سے
نومبر تک چین کی مذکورہ ممالک میں غیر مالیاتی براہ راست سرمایہ کاری میں
پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 12.7 فیصد اضافہ ہوا، تعمیراتی منصوبوں
کے کاروبار ی حجم میں2.6 فیصد کا اضافہ ہوا . حال ہی میں چین۔لاؤس ریلوے
باقاعدہ طور پر فعال ہو چکی ہے۔ یہ ریلوے بیلٹ اینڈ روڈ کی مشترکہ تعمیر کے
لیے ایک مثالی منصوبہ ہے، جس نے چین اور آسیان ممالک کے درمیان تبادلے کے
لیے ایک مزید آسان بین الاقوامی چینل قائم کیا ہے۔اسی طرح ایشیائی
انفراسٹرکچر سرمایہ کاری بینک کے وہ نمایاں پہلو جو اسے دیگر کثیر الجہتی
تنظیموں سے الگ کرتے ہیں ان میں تیزی سے بدلتے ہوئے کاروباری منظرنامے کے
مطابق اپنی اپروچ کو ایڈجسٹ کرنا بھی شامل ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کی وسعت
اور دائرہ کار صرف ایشیا تک محدود نہیں رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موسمیاتی تبدیلی ہماری صدی کے سب سے اہم عالمی
چیلنجوں میں سے ایک ہے۔اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے بینک کے پورٹ فولیو
میں قابل تجدید توانائی اور سبز بنیادی ڈھانچے کے منصوبے شامل ہیں جو 2025
تک حقیقی مالیاتی منظوریوں کے نصف تک پہنچ جائیں گے یا اس سے تجاوز کر
جائیں گے۔اس اسٹریٹجک اقدام کا مقصد پیرس معاہدے کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کو
ہم آہنگ کرنا ہے۔ ماحولیات کے اہداف کے پیش نظر، بینک نے 2030 تک اپنے
سالانہ مالیاتی وعدوں میں 300 فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے ،یوں 2030 تک
موسمیاتی فنانسنگ 50 بلین ڈالرز تک پہنچ جائے گی۔اس کے علاوہ ٹیکنالوجی کی
ترقی ، پائیدار بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ، ڈیجیٹل ماحول کا فروغ ،صحت مند
سماج کا قیام اور دیگر بے شمار ایسے شعبہ جات ہیں جنہیں بینک اپنے شراکت
داروں کے ساتھ مل کر آگے بڑھا رہا ہے تاکہ حقیقی ترقی کے ثمرات سے مستفید
ہوا جا سکے۔
|