دنیا میں وبائی صورتحال کی وجہ سے عالمی معیشت کو بدستور
شدید دباؤ کا سامنا ہے۔اسی باعث دنیا کے اکثر خطوں میں مہنگائی ، بے
روزگاری اور غربت میں اضافے جیسے مسائل سامنے آئے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ
معاشی اشاریے بھی تنزلی کا شکار ہیں اور بعض ممالک میں کرنسی کی قدر میں
شدید کمی جیسے مسائل بھی درپیش ہیں۔ اقتصادی کساد بازاری سے نمٹنے کے لیے
دنیا کے سبھی ممالک معاشی بحالی پر زور دے رہے ہیں اور اس حوالے سے مختلف
حکمت عملیاں متعارف کروائی جا رہی ہیں۔عالمی سطح پر دنیا کی دوسری بڑی
معیشت کی حیثیت سے چین کے معاشی اشاریوں پر ہمیشہ نمایاں توجہ دی جاتی ہے
اور ہر سہ ماہی کے دوران چین کے معاشی اعداد و شمار دنیا میں زیر بحث ہوتے
ہیں۔ ایک جانب جہاں وبائی صورتحال ، عالمی معیشت اور تجارت میں رکاوٹ کا
سبب ہے تو دوسری جانب چین نے اپنی زبردست پالیسی سازی کی وجہ سے دنیا بھر
میں سرمایہ کاری میں کمی کے رجحانات کی نفی کی ہے اور شاندار ترقی کی ہے۔
ابھی حال ہی میں چین کی وزارت تجارت نے کہا کہ جنوری سے نومبر تک چین میں
براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 15.9
فیصد اضافے سے 1.04 ٹریلین یوآن یا 157.2 بلین ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔ چین
کے خدماتی شعبے میں کراس بارڈر سرمایہ کاری کی آمد میں گزشتہ سال کی اسی
مدت کے مقابلے میں 17 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ ہائی ٹیک صنعتوں کے حوالے سے
ایف ڈی آئی میں 19.3 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔چین کے قومی شماریات
بیوروکے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پہلی تین سہ ماہیوں میں چین کی جی
ڈی پی میں شرح اضافہ 9.8 فیصد رہی ہے، جو 6 فیصد کے سالانہ نمو کے ہدف سے
کافی زیادہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں چینی مارکیٹ میں اپنی
سرمایہ کاری کو وسعت دے رہی ہیں کیونکہ چین کے مؤثر وبائی ردعمل کی بدولت
ملک میں اقتصادی سماجی سرگرمیاں دیگر خطوں کی نسبت تیزی سے بحالی کی جانب
گامزن ہیں۔ نومبر کے اقتصادی اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مینوفیکچرنگ
سیکٹر میں بڑی کمپنیوں کے لیے ویلیو ایڈڈ آؤٹ پٹ میں تیزی سے اضافہ دیکھا
گیا، جبکہ ہائی ٹیک صنعتوں میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔نومبر میں صنعتی
روبوٹس کی پیداوار میں سال بہ سال 27.9 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ نئی توانائی
والی گاڑیوں کی پیداوار میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 112 فیصد اضافہ ہوا۔
انسداد وبا کے بہتر اقدامات کی بدولت "رئیل اکانومی" مضبوط ہو رہی ہے اور
مثبت معاشی اشاریوں میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔چین نے جہاں وبا کے منفی اثرات
پر نمایاں حد تک قابو پا لیا ہے وہاں اپنے معاشی نظام کی خوبیوں سے بھرپور
فائدہ اٹھاتے ہوئے جامع سپلائی چینز اور مینوفیکچرنگ انڈسٹری کی مضبوط
بنیادوں سے بھی خاطر خواہ استفادہ کیا ہے، جس سے عالمی طلب اور رسد کے
درمیان فرق کو پُر کیا گیا ہے۔عالمی تناظر میں بیلٹ اینڈ روڈ ممالک اور
آسیان کی جانب سے چین میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں اضافے کا تناسب
بالترتیب 24.7 فیصد اور 23.7 فیصد رہا۔یہ بات اچھی ہے کہ چین بیلٹ اینڈ روڈ
کے تحت انسداد وبا، خوراک، توانائی، پیداواری صلاحیت ، سرمایہ کاری،
انفراسٹرکچر، کوالٹی کے معیارات اور دیگر بے شمار شعبہ جات میں شراکت دار
ممالک کے ساتھ تبادلہ و تعاون کو تعمیری طور پر آگے بڑھا رہا ہے۔ تاحال چین
دنیا کے 145 ممالک و خطوں اور 32 بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ "بیلٹ اینڈ
روڈ" کی مشترکہ تعمیر کے لیے 200 سے زائد تعاون کی دستاویزات پر دستخط کر
چکا ہے۔
چین نے غیر ملکی سرمایہ کاری سے متعلق منفی فہرست کو مزید مختصر کرنے، غیر
ملکی مالی اعانت سے چلنے والے اداروں اور منصوبوں کے لیے خدماتی سہولت
فراہم کرنے اور عالمی سطح پر اپنی مارکیٹ کے مواقع کو بانٹنے کے لیے قانون
پر مبنی، بین الاقوامی اور با سہولت کاروباری ماحول کو مزید فروغ دینے کا
عزم ظاہر کیا ہے۔چین نے ٹیرف کی مجموعی شرح کو 15.3 فیصد سے کم کرتے ہوئے
7.4 فیصد کر دیا ہے، جو کہ عالمی تجارتی تنظیم کے ساتھ کیے گئے 9.8 فیصد کے
وعدے سے کم ہے۔
بیرونی سرمایہ کاری کے مزید فروغ کی خاطر چین نے رواں سال ہائی نان فری
ٹریڈ پورٹ پر کراس بارڈر ٹریڈ ان سروسز کے لیے منفی فہرست متعارف کروائی ہے
تاکہ آزادانہ سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے اور غیر ملکی سرمایہ کاری تک
رسائی کو بڑھایا جا سکے۔اسی طرح رواں سال کے پہلے 11 ماہ میں چین کی
درآمدات اور برآمدات کا حجم گزشتہ سال کی سطح سے بڑھ چکا ہے۔ ایک جامع
مینوفیکچرنگ سسٹم پر انحصار کرتے ہوئے چین بین الاقوامی مارکیٹ اور صارفین
کی ضروریات کو مسلسل پورا کر رہا ہے۔ چینی پالیسی ساز پر امید ہیں کہ ملک
کے بیرونی تجارت کے درآمدی اور برآمدی ڈھانچے میں مزید بہتری آئے گی، اعلیٰ
معیار کی ترقی کو مزید آگے بڑھایا جائے گا اور چین کی ایک بڑے تجارتی ملک
کی ساکھ کو مزید مضبوط بنایا جائے گا۔ |