بسم اللہ الرحمن الرحیم
پاکستان بنانے کے لیے جس طرح ہمارے آباؤاجداد نے قربانیاں دی تھیں اس کا
مقصد صرف یہی تھا کہ مسلمانانِ ہند کسی ایسے ملک کی بنیاد رکھیں کہ جہاں ہم
اللہ کے قانون ::: قرآن و سنت::: کے مطابق زندگی گزار سکیں اور اس طرح آخرت
میں سرخرو ہوسکیں اس پاک مقصد کے لیے مسلمانوں نے اپنی جان، مال، عزت و
آبرو کی قربانی دی اور پاکستان کا مطلب بھی یہی کیا کہ لا الہ الا اللہ
یعنی پاکستان میں اللہ کے قوانین چلیں گے انگریز یا انسانوں کے بنائے
قوانین نہیں چلیں گے، مگر افسوس صد افسوس کہ آج پاکستان کی عمر ۶۴ سال ہونے
کو آئی مگر یہ عوام کا خواب شرمندہ تعمیر نہیں ہوسکا اور آج یہاں ابھی تک
انگریز کا بناہوا قانون ہی چل رہاہے، کیا اُس وقت کے مسلمانوں نے ۱۵۰۰۰۰۰،
لاکھ عورتوں، بچوں، جوانوں اور بڑھوں نے اس لیے قربانیاں دیں تھیں کہ یہاں
پھر وہی کافروں کا نظام نافذ العمل رہے؟؟؟
کیا ہماری وہ ہزاروں مائیں بہنیں جن کو ہندو اور سکھوں نے اغوا کر لیا تھا
اور ان کے ساتھ انسانیت سوز مظالم کیے گے، کیا وہ یہی چاہتی تھیں جو آج کا
پاکستان ہے؟؟؟
مسلمانوں کے وہ معصوم بچے جنہوں نے ابھی زندگی کی کوئی خوشی نہیں دیکھی تھی
اور جنہوں نے اپنے والدین کی ہاں میں ہاں ملا کر پاکستان کی تحریک میں شرکت
کی اور اپنی جان کی قربانی پیش کی کیا وہ ایسا ہی پاکستان چاہتے تھے کہ
جہاں ظلم کا راج ہو انصاف کو قیدی بنالیا گیا ہو؟؟؟
وہ مناظر آج بھی جب ہم دیکھتے ہیں تو ہماری روح کانپ جاتی ہے کہ کتنے ظلم و
ستم کے پہاڑ توڑے گے مسلمانانِ ہند پر اور یہ ظلم صرف اس لیے کیے گئے کہ
مسلمان اپنا ایک علیحدہ ایسا ملک چاہتے تھے جہاں انگریزی نظام نہ ہو بلکہ
وہاں اللہ کا دیا نظام ہو اور ہم آزادی سے اس نظام کے تحت زندگی گزار سکیں۔
مگر افسوس کہ ہمارے آباؤاجداد کی وہ تمنا و آرزو آج تک پوری نہیں ہوسکی کہ
جس کی خاطر پندراں لاکھ مسلمانوں نے قربانی پیش کی تھی۔
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ نام کے دانشور یہ ثابت کرنے
کی کوشش کرتے ہیں کہ محمد علی جناح صاحب نے پاکستان اسلامی سٹیٹ بنانے کے
لیے نہیں بنایا تھا بلکہ وہ لبرل ریاست بنانا چاہتے تھے اور وہ اس کے لیے
دلیل کے طور پر محمد علی جناح صاحب کی وہ تقاریر پیش کرتے ہیں جن میں انہوں
نے ایسے الفاظ کا استعمال کیے تھے کہ جو ان کے لبرل ازم کو تقویت دیتے ہیں،
اس بات سے قطع نظر کہ محمد علی جناح صاحب کیا چاہتے تھے یہ بات ۱۰۰ فیصد طے
ہے کہ ہندوستان کے مسلمان بہرحال یہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان میں لبرل
قسم کا کوئی نظام چلے بلکہ وہ پاکستان کا مطلب یہ کرتے تھے کہ پاکستان
کامطلب کیا لا الہ الا اللہ اگر مسلمانانِ ہند پاکستان کو کیمونسٹ ،لبرل یا
جمہوری ریاست بنانا چاہتے ہوتے تو وہ پاکستان کا مطلب لا الہ الا اللہ ہرگز
نہ کرتے۔
پیغامِ آزادی:
آج بھی اگر ہم کو اسلام اور پاکستان سے محبت ہے تو اس کا تقاضہ یہی ہے کہ
ہم آج بھی پاکستان میں صحیح اسلامی نظام کے لیے کوشش کریں کہ جس کے لیے
ہمارے آباؤاجداد نے پاکستان بنانے اور پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے
لیے قربانیاں دی تھیں، ہر تحریک اور انقلاب ہمیشہ قربانیاں دینے سے ہی
کامیاب ہوتے ہیں اگر ہم واقعی اسلامی نظامِ حیات کے تحت زندگی گزارنا
چاہتےہیں تو اس کے لیے سب سے پہلے ہم سب کو آپس میں متحد ہونا ہوگا آپس کے
اختلافات کو ختم کرنا ہوگا، ہمارے درمیان جو قوم پرستی کی دیواریں کھڑی کی
گئی ہیں ان کو گرانا ہوگا، ہم کو دین اسلام کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا
ہوگا اور آپس کے تعلقات کو اسلامی تعلیمات کے مطابق مستحکم کرنا ہوگا، ہم
سب کو مل کر اللہ کی رسی :::قرآن و سنت::: کو مضبوطی سے پکڑنا ہوگا، اور
نئے نئے فتنوں اور فسادات سےخود بھی بچنا ہوگا اور اپنے مسلمان بھائیوں کو
بھی ان فتنوں سے بچانا ہوگا، پاکستان میں جو علم کی کمی اور جہالت ہے اس کو
سب مل کرہی ختم کرسکتے ہیں اس لیے بھی ہم سب کو مل جل کر تعلیم کے فروغ کے
لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا، اتحاد میں برکت ہے یہ ہم سب کو علم ہے
مگر کیا وجہ ہے کہ ہم پھر بھی آپس میں متفرق ہیں؟؟؟ آئیں آج عہد کریں کہ
آپس کے چھوٹے بڑے سبھی اختلافات کو قرآن و سنت کی روشنی میں حل کریں گے اور
امتِ محمد ﷺ کو متحد کرنے کے لیے کوشش کریں گے نہ کہ اس کو مزید منتشر کریں
گے، اسلام میں رنگ و نسل، زبان ومکاں، حسب و نسب کا کوئی امتیازی حکم نہیں
ہے جس نے بھی اللہ کی ایکتائی کا اور محمد ﷺکی رسالت کا اقرار کیا اور اس
کلمے کے تقاضے پورے کیے وہ اب مسلمان ہے اور سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی
ہیں سب پر ایک دوسرے کا خون، مال، عزت اور آبرو حرام ہے، کوئی کسی کی غیبت
نہ کرئے، کوئی کسی پر بہتان نہ لگائے، کوئی کسی کا مال ناحق نہ کھائے، کوئی
کسی کو دھوکہ نہ دے، کوئی کسی کو قتل نہ کرئے، کوئی کسی کو حقیر نہ جانے،
کوئی کسی کو ذلیل نہ کرئے، کوئی کسی کی عزت پامال نہ کرئے ، کوئی کسی کا حق
غصب نہ کرئے، تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پھر ہمارا معاشرہ ایک اسلامی
معاشرہ بننے کی طرف اپنا پہلا قدم اُٹھائے گااس لیے بہنوں اور بھائیو آؤ آج
اس بات کا عہد کریں کہ ہم سب اپنے اندر سے ایسی برُائیاں ختم کرنے کی اپنی
سی کوشش کریں گے جو معاشرے کے بگاڑ کا سبب بنتی ہیں ۔
باتیں تو بہت ہیں مگر مختصراً اتنا ہی کافی ہے اگر ہم ان پر بھی عمل کرلیں
تو ہم ایک بہترین معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں ۔ |