تھینک یو آندرے بیرنگ بریوک

ناروے یورپ کا ایک اہم اور انتہائی خوشحال ملک ہے ۔ناروے کا رقبہ385252مربع کلومیٹر اور آبادی تقریباََ50لاکھ نفوس ہے۔اس کا دارالحکومت اوسلو ہے اور ناروے کی سرحدیں سویڈن،روس،فِن لینڈاورڈنمارک سے ملتی ہیں ۔ناروے کی 78%آبادی پروٹسٹنٹ عیسائیوں پر مشتمل ہے ناروے ایک پُرامن ملک ہے جہاں دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے ابتک دہشتگردی کی کوئی بڑی اور خوفناک کاروائی دیکھنے میں نہیں آئی ہے لیکن 22جولائی کے روز ناروے کا دارالحکومت اوسلواس وقت قیامتِ صغریٰ کا منظر پیش کرنے لگا جب یہاں ناروے کے وزیرِاعظم جینس سنولٹن کے دفتر کے بالکل قریب حکمران جماعت لیبرپارٹی کی طرف سے اپنے کارکنوں کیلئے ایک سمرکیمپ کا انعقاد کیا گیا تھاجس میں کثیرتعداد میں نوجوان شریک تھے ابھی یہ اجلاس جاری ہی تھا کہ پہلے دوکار بم دھماکے ہوئے اور پھر ایک نوجوان نے اجلاس کے شرکاءپر آٹومیٹک پستول گلوک،ایک آٹو میٹک رائفل اور شارٹ گن کے ذریعے اندھادھند فائرنگ کردی جس سے کئی افراد موقع پر ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے کچھ افراد نے قریبی سمندر میں چھلانگیں لگا دیں لیکن اس نوجوان کی گولیوں سے بچ جانیوالے یہ افراد سمندر کی بے رحم لہروں کے ہاتھوں نہ بچ سکے آخری اطلاعات آنے تک 100سے زائد افراد اس قتل ِ عام میں ہلاک ہو چکے ہیں جنکی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے ۔ قاتل کو گرفتار کرلیا گیا ہے جس نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیا ہے 32سالہ آندرے بیرنگ بریوک خود کو بنیاد پرست عیسائیوں کی ایک تنظیم knights templerکا نارویجن کمانڈر بتاتا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ قاتل نے اس واردات سے 6گھنٹے قبل نہ صرف اپنے اس منصوبے کا انکشاف خود ایک ویڈیو پیغام میں کیا بلکہ اس میں اُس نے بم بنانے کی ترکیب تک بھی بتائی جو اس نے دھماکے کیلئے استعمال کیا تھا ویڈیو میں اس نے اس''عزم''کا اظہار بھی کیا کہ اس کی تنظیم کا مقصد تمام یورپ سے سے مسلمانوں اور سیکولر افراد کو نکال باہر کرنا ہے اور وہ اس مشن کا آغاز اپنے خون سے کررہا ہے جس کو اس کے ساتھی جاری رکھیں گے اور یہ عمل کئی دہائیوں تک جاری رہے گا ۔

قارئین اگر ہم اس دہشتگردی کی واردات اور مجرم کے خیالات کو بغور دیکھیں تو فوری طور پر دو چیزیں ہمیں واضح طور پر نظر آتی ہیں ۔نمبر ایک مجرم کا اقرارِ جرم ۔

جس پر ہمیں بجا طوراس کاشکریہ ادا کرنا چاہئے ورنہ جس طرح آج دنیا جہاں میں کسی بھی جگہ ہونے والی کسی بھی واردات کو جس طرح اسلام اور مسلمانوں سے جوڑا جاتا ہے عین ممکن تھا کہ اس واقعے کو بھی القائدہ،طالبان یا قبائلی علاقہ جات کے پٹھانوں سے منسوب کردیا جاتا جس کی راہ پہلے ہی ہیلری کلنٹن یہ کہہ کر ہموار کرتی رہتی ہیں کہ ''پاکستان دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں تباہ کرے''اب اس واقعے کی کڑیاں بھی کسی نہ کسی طرح پاکستان سے جوڑکر اسے ناکام ریاست ثابت کرنے کی منظم سازش کو مزیدتقویت دی جاتی لیکن ''افسوس''بیرنگ بیریوک کے اعترافِ جرم نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا موقع نہ دیا۔

اس واقعے کا دوسرا اہم پہلو مغربی کنٹرولڈمیڈیا کا انتہائی گھناؤنا اور متعصبانہ رویہ ہے جو کسی بھی کسی بھی دہشتگردی کے واقعے کو اسلام،مسلمان اور پاکستان کے ساتھ جوڑنے کیلئے تو ہمہ وقت تیار نظر آتا ہے لیکن اپنے ''پیٹی بند''بھائی کی اس کھلے عام دہشتگردی اور اعترافِ جرم پر بھی اس کی زبان گنگ ہوچکی ہے۔پوری دنیا کو تحمل،برداشت اور رواداری کا درس دینے والا امریکہ و یورپ آج کیوں خاموش ہے ؟ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ نیویارک میں فیصل شہزاد نامی ایک پاکستانی نژاد باشندے کو محض اس لئے گرفتار کرلیا گیا کہ وہ نیویارک میں دہشتگردی کا منصوبہ بنا رہا تھا اس ایشو کو میڈیا نے اِتنا اچھالا کہ امریکہ نے پاکستان کو وارننگ تک دے دی کہ اگر آئندہ ایسا واقعہ ہوا تو امریکہ پاکستان پر حملہ کرنے سے بھی باز نہیں آئے گا ۔لیکن آج ایک انتہاپسند عیسائی کے سرِعام قتلِ عام پر وہی میڈیا مجرمانہ غفلت کا مرتکب کیوں ہو رہا ہے ؟کل تک مسلمانوں اور اسلام کے خلاف مسلسل ہذیان بکنے والی زبانیں کیا اب عیسائیت کے خلاف بھی زہر اگلیں گی ؟نہیں ایسا ہرگز نہیں ہو گا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دہشتگردی کا تعلق کسی بھی مذہب کے ساتھ نہیں کوئی بھی مذہب اپنے پیروکاروں کو کسی بے گناہ انسان کے قتل کی اجازت نہیں دیتااور دہشتگردی کے خلاف جاری موجودہ نام نہادجنگ تو خالصتاََ امریکی مفادات کی جنگ ہے جس نے نہ صرف لاکھوں انسانوں کا خون بہایا ہے بلکہ خودامریکی معیشت بھی نزاعی ہچکیاں لے رہی ہے ۔اور سب سے آخر میں یہ بات کہ اگر آج آندرے بیرنگ بریوک یورپ میں عیسائیت کے غلبے کیلئے قتلِ عام کر کے مجرم قرار پاتا ہے تو صدر بش اس سے ہزارگن بڑا مجرم ہے کہ اس نے بھی تو لاکھوں بےگناہوں کی جان لینے والی اس جنگ کو صلیبی جنگ کا نام دیا تھاکیا او آئی سی صدر بش پر عالمی عدالت میں مقدمہ کرنیکی جرات کریگی ؟
Qasim Ali
About the Author: Qasim Ali Read More Articles by Qasim Ali: 119 Articles with 100568 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.