بابائے قوم قائداعظم رحمتہ اﷲ علیہ کا نام جیسے ہی سننے،
دیکھنے اور پڑھنے کو سامنے آتا ہے تو فورادل ودماغ میں وہ روشن چراغ، وہ
شمع، وہ مشعل روشن ہو جاتی ہے جس نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں اور
اقلیتوں کو ہندو و انگریز کے مظالم سے نجات دلانے کے لیے ایسے ایسے جو ہر
دیکھائے کہ ہندو و انگریز آج تک اس گھتی کو نہیں سلجھا سکے کہ آخر اِن میں
ایسا کیا کرشمہ تھا؟ کیا طلسم تھا؟کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے مذہبی، گروہی
اور علاقائی اختلافات کو بھلا کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح قائداعظم کے
پرچم تلے کھڑے ہوگئے ۔فضاء قائداعظم زندہ باد کے نعروں سے ایسے گونجتی اور
جیسے ہی وہ اپنی انگشت شہادت بلند کرتے اور انہیں خاموش رہنے کی تلقین کرتے
تو لاکھوں کا ہجوم یک لخت خاموش ہو جاتا جیسے طالب علم کلاس میں ٹیچر کو
دیکھتے ہی مؤدب ہو جا تے ہیں۔مشہور کہاوت ہے جب قدرت کسی قوم پر مہربان
ہوتی ہے یا اس قوم کی تقدیر سنوارنا مقصود ہوتی ہے تو انہی میں سے بے لوث،
نڈر، باہمت، مضبوط اعصاب کے قائد پیدا کرتی ہے جو اس قوم کی ڈوبتی کشتی کو
اپنی خداداد صلاحیتوں سے ، تدبر ، فہم و فراست، دوراندیشی سے ساحل تک لے
جاتا ہے۔
کون جانتا تھا 25 دسمبر کو کراچی میں پیدا ہونے والا یہ بچہ کل برصغیر پا و
ہند کا نقشہ بدل کر ایک عظیم سیاسی رہنما بن کر ،اصول پرستی کو رواج دے کر
مسلمانوں کے لیے ایک الگ خطے کے حصول کی آواز بلند کرنا کرے گا۔ قائداعظم
اور ان کے رفقائے کار کی کوششیش ثمر بار ہونے لگیں اور 1940 کو لاہور کی
قرار داد پاکستان اور اس کے چھے برس بعد 1946 کے انتخابات نے پاکستان کے
لیے راہیں ہموار کرنا شروع کردیں۔جدوجہد آزادی کی اس تحریک میں بہت سے نامی
گرامی لیڈرز شامل تھے مگر ان سب میں قائد اعظم نمایاں تھے۔ ان کی شخصیت کا
اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ سخت بیمار ہونے کے باوجود دن
رات آزادی وطن کی خاطر ان تھک محنت میں مصروف تھے ۔ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ
جناح جب ان کی گرتی صحت اور ہندوستان بھر کے طوفانی دوروں کے حوالے سے
تشویش کا اظہار کرتیں اور کچھ روز آرام کا مشور دیتیں تو قائداعظم فرماتے
تم نے کبھی سنا ہے کہ کوئی جنرل چُھٹی پر جائے جبکہ اس کی فوج میدان جنگ
میں ملکی بقا کی جنگ لڑ رہی ہو؟ یہاں تک کہ تحریک آزادی کی خاطر انہوں نے
اپنا مرض بھی چُھپائے رکھا ۔اسی لیے تقسیم ہند کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے
اپنی سوانح نگار میں کہا تھا کہ اگر معلوم ہوتا ہے کہ جناح کی زندگی اتنی
مختصر ہے تو ہندوستان کی تاریخ کچھ اور ہوتی اور پاکستان جناح کی زندگی میں
نہ بن سکتا اور دوسرا کوئی جناح تھا ہی نہیں۔
پاکستان اﷲ پاک کی بیش بہا نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔سردار عبدالرب نشتر
نے قائداعظم کے بارے میں اپنی کتاب میں ایک دلچسپ واقعہ تحر یر کیا تھا کہ
جب ہم مانکی سے رخصت ہو رہے تھے تو قائداعظم آگے آگے تھے اور پیر صاحب
مانکی شریف سمیت پیران، ان کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے جب قائداعظم موٹر پر
بیٹھ گئے تو میں بھی ساتھ بیٹھا اور موٹر روانہ ہوگئی تو میں کہا قائد میں
نے اپنی ہنسی ضبط کی ہے ۔ قائداعظم نے پوچھا کیوں؟ میں نے عرض کیا جب ہم ان
پیروں کے پاس جاتے ہیں تو بہت عزت و احترام سے ان کے سا منے بیٹھ جاتے ہیں
لیکن آج تمام پیر آپ کے پیچھے پیچھے آرہے تھے تو مجھے ہنسی آ رہی تھی ۔
قائد فرمانے لگے تمہیں معلوم ہے اور انکو بھی معلوم ہے کہ میں متقی ، پرہیز
گار اور زاہد نہیں ہوں۔ میری شکل زاہدوں کی سی نہیں ہے۔ مغربی لباس پہنتا
ہوں لیکن اسکے باوجود یہ لوگ میرے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیوں کرتے ہیں؟ اس
کی وجہ یہ ہے کہ ہر مسلمان کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کے
حقوق میرے ہاتھ میں محفوظ ہیں اور میں اپنی قوم کو کسی قیمت پر بھی فروخت
نہیں کر سکتا۔
1928میں کانگریس لیڈر جواہر لال نہرو کو ہندوستان کا نیا آئین تیار کرنے کی
ذمہ داری سونپی گئی تھی جو تاریخ میں نہرو رپورٹ کے نام سے مشہور ہے اس کے
ردعمل کے طور پر 28 مارچ 1929 کو آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ میں قائداعظم نے
14 نکات پیش کیے جنہیں ہندو اکثریت نے مسترد کر دیا، دل برداشتہ ہو کر
قائداعظم نے کانگریس کو خیر باد کہہ دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ نہر رپورٹ نے
قائداعظم کی سیاسی فکر میں تبدیلی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ نے
خود مختار ، ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ کی خاطر مشہور
چودہ نکات پیش کیے ۔ یہ چودہ نکات تحریک پاکستان میں سنگ میل کی حیثیت
رکھتے ہیں۔ان نکات پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ تصور پاکستان کی
ابتداء اسی سے ہوئی تھی۔
15نومبر 1942کو قائداعظم نے آل انڈیا اسٹوڈینٹس فیڈریشن کے اجلاس سے بصیرت
افروز اور چشم کشا خطاب کیا۔جس کی ضیاء باری سے آج بھی تاریخ پاکستان روشن
ہے۔ قائداعظم نے فرمایا مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت
کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں ؟
مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے کئی سو سال قبل قرآن حکیم نے وضاحت کے ساتھ
بیان کر دیا تھا۔ الحمد اﷲ قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور
قیامت تک موجود رہے گا۔ 6دسمبر 1943 کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 31
ویں اجلاس سے خطاب کے دوران قائداعظم نے فرمایا وہ کون سا رشتہ ہے ، جس سے
منسلک ہونے سے تمام مسلما ن جسد واحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے ، جس
پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہےَ جس پر امت کی کشتی
محفوظ کر دی گئی ہے؟ وہ رشتہ ،وہ چٹان، وہ لنگر اﷲ کی کتاب قران مجید ہے۔
مجھے امید ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ، قرآن مجید کی برکت سے ہم
سے زیادہ زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا ۔ ایک خدا، ایک رسول، ایک
امت۔پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا جس کے لیے
مسلمانوں نے قائداعظم ؒ اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی نظریاتی رہنمائی
اور عظیم قربانیوں کے بعد حاصل کیا تاکہ مسلمان آزادی سے اسلام کے اصولوں
کے مطابق ،پر امن ،مساوات،رواداری، بھائی چارے سے زندگی گزار سکیں۔یہی وہ
دو قومی نظریہ تھا جس کے بارے میں برطانیہ کے افسانہ نگار صحافی بیورلی
نکلس نے تقریبا ایک برس کے مطالعہ ومشاہدہ ، بڑے بڑے سیاسی رہنماؤں سے ملنے
کے بعد قائداعظم سے مکالمہ کیا اور اپنی کتاب Verdict on India میں
Dialogue with a Giant کے عنوان سے شامل کیا ۔ بیورلی نکلس نے قائداعظم کو
ایشیاء کا عظیم ترین سیاسی مدبر قرار دیا۔
قائداعظم نے 17 ستمبر 1944 کو گاندہی جی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر
فرمایا تھا کہ قرآ ن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے اس میں مذہبی اور مجلسی،
دیوانی اور فوجداری ، عسکری اور تعزیزی، معاشی اور معاشرتی سب شعبوں کے
احکام موجود ہیں یہ مذہبی رسول سے لر کر جسم کی صحت تک، جماعت کے حقوق سے
لے کر فرد کے حقوق تک، اخلاق سے لر کر انسداد، جرائم تک، زندگی میں سزا و
جزاء سے لر کر آخرت کی جزا ء و سزاء تک غرض کہ ہر قوم و فعل اور ہر حرکت پر
مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہذا جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو
حیات اور مابعد حیات کے ہر معیار اور پیمانے کے مطابق کہتا ہوں۔ 10ستمبر
1945 کو عید الفطر کے موقع پر قائداعظم نے فرمایا کہ ہمارا پروگرام قرآن
مجید میں موجود ہے۔ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن غور سے پڑھیں۔ قرآنی
پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی د وسرا پروگرام پیش
؛نہیں کر سکتی۔ 1947 ء کو انتقال اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی
نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں امید
کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اوار ویسے ہی
اصول پیش نظر رکھے جائیں گے جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دو ر میں ملتی
تھیں۔اس پر قائداعظم بے برجستہ جواب میں فرمایا کہ وہ رواداری اور خیر
سگالی جو شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے حق میں برتی کوئی نئی بات نہیں یہ
تو مسلمانوں کی صدیوں سے روایت ہے جب پیغبر اسلام حضرت محمد ﷺ یہودیوں اور
عیسایوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ نہ صرف انصاف بلکہ فیاضی کا
برتاو کرتے تھے۔ مسلمانوں کی ساری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
ہم پاکستانی حضرت محمدﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان کا نظام چلائیں
گے۔
نوجوانوں کے متعلق قائداعظم فرمایا کرتے تھے کہ نوجوان کسی بھی قوم کی
بنیاد ہوتے ہیں ،جس کے بغیر کوئی عمارت کھڑی نہیں ہو سکتی اِن کے جوش، جنوں
اور جہد مسلسل نے قوموں کی تاریخ بدل ڈالی۔ تحریک پاکستان کی عظیم جدوجہد
اس کی گواہ ہے کہ برصغیر کے مسلم نوجوانوں نے انتہائی نامساعد حالات اور بے
سر و سامان کے عالم میں بانی قائد کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔ قائداعظم نے
برصغیر کے مسلم نوجوانوں کے اندر حوصلہ پیدا کیا اور اس مشکل گھڑی میں
قائداعطم نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تعمیر پاکستان کی روا مصائب
اور مشکلات کو دیکھ کر نہ گھبرائیں ، تازہ وارد اقوام کی تاریخ کے متعدد
ابواب ایسی مثالوں سے بھر ے پڑے ہیں کہ ایسی قوموں نے محض قوتِ ارادی،
توانائی ، عمل اور عظمت کردار سے خود کو بلند کیا۔ آپ خود بھی فولادی قوت
ارادی کے مالک اور عزم و ارادے کی دولت سے مالا مال ہیں۔ مجھے تو کوئی وجہ
نظر نہیں آتی کہ تاریخ میں وہ مقام حاصل نہ کریں جو ااپ کیا آباواجداد نے
حاصل کیا تھا۔ آپ میں مجاہدوں جیسا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
نئی نسل کے نوجوانو! آپ میں سے اکثر ترقی کی منازل طے کر کے اقبال اور جناح
بنے گیں۔ مجھے یورا یقین ہے کہ قوم کا مستقبل آپ لوگوں کے ہاتھوں میں مضبوط
رہے گا۔قائداعظم نے نوجوانوں میں نئی روح پھونک دی تھی۔ایک بار قائداعظم نے
ایک چھوٹے سے بچے کو جو پاکستان زندہ باد، پاکستان زندہ کے نعرے لگا کر
سرشار ہو رہا تھا اس ننھے بچے سے نعرے کا مطلب پوچھا ،بچے نے جواب دیا، یہ
تو بہت آسان ہے، جہاں ہندو زیادہ ہیں ، ہندو حکومت کریں، جہاں مسلمان زیادہ
ہیں وہاں مسلمان قائداعظم نے اس ننھے پھول کی ذہانت کو سراہتے ہوئے فرمایا
، اب پاکستان کے قیام کو کوئی نہیں روک سکتا۔
قائداعظم محمد علی جناح نے علامہ اقبال کے خواب اور مسلمانوں کی خواہش
پاکستان کو عملی طور پر قائم کرنے کے محض ایک سال بعد ہی 11 ستمبر 1948کو
71 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے آپ کی نماز جنازہ مولانا شبیر احمد
عثمانی صاحب نے پڑھائی ، قائداعظم کا جسد خاکی جیسے ہی قبر تک لائی گئی ،
پاک فصائیہ کے طیاروں نے فضاء میں غوطے لگاتے ہوئے جنازے پر پھول نچھاور
کئے اور قائداعظمؒ کو سلامی پیش کی۔ قائداعظم ایسا خلاء چھوڑ گئے جو قیامت
تک پر نہیں ہو سکتا ، اور ایک ایسی مثالی زندگی کی مثال چھوڑ گئے جو آنے
والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
اس وقت ہمارے ملک میں اکثریت نوجوانوں کی ہے ہمیں چاہیے کہ قائداعظم کے
فرمودات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی مشکلات پر قابو پائیں تاکہ ہمارا پیار
اوطن عزیز ، بانی پاکستان کے نطریات اور اصولوں کے مطابق ہو سکے اور ہم
دنیا کی عظیم اور طاقت ور قوم بن سکیں۔ نوجوان ہی ملک و قوم کا سرمایہ ہوتے
ہیں،اس سے ہی وطن عزیز کو بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ نوجوانوں کو اپنا وقت
ملت کی تعمیر و ترقی میں صرف کرنا ہو گا اور تخریبی کاروائیوں سے ہر ممکن
محفوظ رہنا ہو گا۔اس طرح نوجوان نہ صرف اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں بلکہ ملک
کو بھی اقوام عالم میں پہلی صف میں لانے کا کارنامہ سرانجام دے سکتے ہیں۔
نوجوانوں کو نظم و ضبط کو اپنا شعار بنانا ہو گا کیونکہ قائد اعظم کے ڈسپلن
پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہ تھے۔ ان کی زندگی میں انہیں جو کامیابیاں حاصل
ہوئیں ان میں نظم و ضبط کا کردار نمایاں حیثیت رکھتا ہے ۔ انہوں نے کئی
مواقع پر فرمایا۔ کام، کام اور کام۔ یہ وہ انتہائی مختصر لیکن جامع ترین
نصیحت تھی جو انہوں نے کی اور آج آ پ خود دیکھیں کہ دنیا میں جو اقوام ترقی
کی راہ پر آگے بڑھ رہی ہیں وہ اس نصیحت کے تحت ترقی کے آسمانوں کو چھو رہی
ہیں ۔ نوجوان نسل اگر چاہیں تو وہ بھی ستاروں پر کمنڈ ڈال سکتے ہیں۔ لیکن
اس کے لیے انہیں قائداعظم کے فرمودات پر صدق دل سے عمل پیرا ہونا ہو گااور
اسی میں ان کی فلاح اور کامیابی کا راز مضمر ہے۔پاکستان زندہ باد
|