کورونا وبا اور "معاشرے کی بے حسی"

عالمی وبا کے دوران ہزاروں، لاکھوں متاثرین کی مدد کرنا انسانیت کے ناطے ہمارا اولین فرض ہے۔ اومیکرون ویرئینٹ کا نمودار ہونا پھر سفید پوش طبقے کیلئے کرب کا باعث ہے ایسے میں مدد کرنے والوں کو نشانے پر رکھا جارہا ہے جو کہ کسی طور پر درست نہیں۔

"منصور لوگوں کو بتانا پڑتا ہے یار۔ یہ تصاویر اور ویڈیوز کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ دکھاوا کیا جارہا اسکے برعکس میری نیت یہ تھی کہ میں یہ تصاویر ویڈیوز لگا کر لوگوں کو یہ بات بتا سکوں کہ جسکی جتنی استطاعت ہے وہ اس حساب سے اس نیکی کا حصہ بن سکے"

اسکے لہجے میں چھپا کرب مجھے محسوس ہوا۔
میں نے اسکی ہمت بندھائی اور اسکو کام جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔
بات یہاں ختم ہوگئی۔

مگر یہ بات مجھے اس تناظر میں سوچنے پر مجبور کرنے لگی کہ کیا واقعی ہمارے معاشرے میں علمی قحط اس نوعیت کا ہے؟
بدقسمتی سے ہر انسان نے اپنے ذہن میں اسلامی تعلیمات کیلئے خودساختہ پیمانے ترتیب دیے ہوئے ہیں جو کہ ظاہر ہے درست نہیں۔ گر وہ معاملہ ان خود ساختہ وضع کردہ پیمانوں کے حساب سے درست ہو تو ٹھیک اگر نہ ہو تو اس پر فورا فتوی عائد کر دیتے ہیں۔

صاحبوں! کچھ دل میں نرمی اور اپنے علمی قد کو اونچا کرو۔ معلومات کا ڈھیر جمع مت کرو اس کے برعکس علم اتنا ضرور ہو کہ اسلامی تعلیمات کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے کے قابل ہو۔ دین ہر زمانے کیلئے آیا ہے اور وہ زمانے کہ ہر تقاضے کو پورا کرنے کے قابل ہے فرق اتنا ہے کہ میں آپ اپنی سمجھ سے اسکو کس حد تک سمجھ پائیں گے۔

قرآن حکیم کی سورة البقرہ ہی میں ارشاد ہے” (لوگ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں۔ فرما دیجئے کہ جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے) مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتے دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو، بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔“ ( سورة البقرہ آیت 215)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ أَبِي حَفْصٍ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی اللہ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ:إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى،
امیر المومنین ابو حفص عمر بن الخطاب رضی اللہ سے روایت ہے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اعمال کا دارومدار نیتوں ہی پر ہے۔ اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی۔

کون آدمی کس نیت کے تحت کام کرہا ہے یہ آپ کبھی جان نہیں سکتے۔ اگر کام دکھی مفلس اور لاچار لوگوں کی خدمت کے تناظر میں ہے تو اپنے حصے کا کام کریں اور باقی معاملہ رب کریم کی ذات کے حوالے کردیں۔
بیشک جانچ پڑتال کرنا ضروری ہے مگر بے جا تنقید کے نشتر برسانا انتہائ مکروہ فعل ہے۔

متلاشی حق
سیدمنصور حسین (مانی)
 

Syed Mansoor Hussain
About the Author: Syed Mansoor Hussain Read More Articles by Syed Mansoor Hussain: 32 Articles with 26895 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.