میں گلگت کے سب سے مرکزی ایریا جوٹیال میں رہتا ہوں.ایک
مسجد میں جمعہ پڑھاتا ہوں. اس مسجد کا امام ایک قاری صاحب ہیں. قاری صاحب
نمازیں پڑھاتا ہے اور محلہ کے بچوں کو منفی 10 ڈگری میں بھی بغیر کسی گیس
سلنڈر کی سہولت، بعد نماز مغرب مسجد کے برآمدے میں قرآن تجویدی اصولوں کے
مطابق پڑھاتا ہے.خوش قسمتی سے قاری صاحب کی دو بیویاں ہیں. مسجد کی طرف سے
ایک کمرے پر مشتمل گھر ملا ہوا ہے. ایک بیوی حافظہ بھی ہے جو ایک کمرے پر
مشتمل گھر میں محلے کی بچیوں کو قرآن پڑھاتی ہے. قاری صاحب ایک اور جگہ میں
تعلیم القران ٹرسٹ کی کلاس بھی لیتے ہیں اس لیے کھبی کھبار عصر کی نماز
پڑھانے نہیں پہنچ سکتے.
مسجد انتظامیہ کی طرف سے قاری صاحب کو زیادہ سے زیادہ کسی مہینے میں 9 ہزار
روپے تنخواہ ملی ہے.عموما چھ سات پر ٹرخایا جاتا ہے. باقی کسی قسم کا کوئی
تعاون نہیں.
گزشتہ تین ماہ سے قاری صاحب کو ماہانہ 3 ہزار روپے دیے جارہے ہیں.
یہ تو پوش ایریا کی بات ہے.
مجھے معلوم ہے. گاؤں سطح پر جو مساجد ہوتی ہیں ان کے آئمہ اور قراء کو 3
ہزار بھی نہیں ملتے.
مگر ہماری عوام اور افلاطون نما مقتدی ان سے تقاضہ امام غزالی، شاہ ولی
اللہ اور حاجی عبدالوہاب والا کرتے ہیں.
کاش! مسجد کمیٹی کے بوڑھوں اور دیگر ذمہ داروں کو یہ بات سمجھ آجاتی کہ
مسجد کے قاری اور امام صاحب کے وہ کفیل ہیں. دینی اور قانونی اعتبار سے ان
کا فرض ہے وہ مناسب کفالت کریں اور امام صاحب و مؤذن کی ضروریات و حاجیات
کو مکمل خیال رکھیں. جو لوگ خود لگثریز/ آسائشوں میں زندگی گزارتے ہیں
دوسروں کی ضروریات پر بھی معترض ہوتے ہیں. اللہ ان کو ہدایت دے.
پوسٹ کی دم: قاری صاحب خوشی خوشی زندگی گزار رہے ہیں اور کھبی کھبار ہم
جیسے مقتدیوں کو چائے بھی پلاتے ہیں اور کھانا بھی کھلاتے ہیں.
احباب کیا کہتے ہیں؟
|