کتابِ ماضی و حال اور کتابِ مُستقبل !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ فاطر ، اٰیت 31 تا 37 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
والذی
اوحیناالیک
من الکتٰب ھوالحق
مصدقالما بین یدیه اناللہ
بعبادهٖ لخبیر بصیر 31 ثم اورثنا
الکتٰب الذین اصطفینا من عبادنا فمنھم
ظالملنفسه ومن ھم مقتصد ومنھم سابق بالخیرات
باذن اللہ ذٰلک ھو الفضل الکبیر 32 جنٰت عدن یدخلونھا فیھا
یحلون فیھا من اساور من ذھب ولؤ لؤا ولباسھم فیھا حریر 33 وقالوا
الحمد للہ الذی اذھب عن الحزن ان ربنا لغفورشکور 34 الذی احلنا دارالمقامة
من فضله لایمسنا فیھا نصب والایمسنافیھالغوب 35 والذین کفروالھم نار جھنم لا
یقضٰی علیھم فیموتوا ولایخفف عنھم من عذابھا کذٰلک نجزی کل کفور 36 وھم یصطرخون
فیھا ربنا اخرجنا نعمل صالحا غیرالذی کنا نعمل اولم نعمرکم مایتذکر فیه من تذکر وجاءکم النذیر
فذوقوا فماللظٰلمین من نصیر 37
اے ھمارے رسُول ! ھم نے اپنی کتابِ حق سے آپ پر اپنا جو کلامِ حق نازل کیا ھے وہ کلامِ حق آپ کے زمانے میں بھی سراسر حق ھے اور مابعد زمانوں کے لیۓ بھی سربسر حق ھے اور یہ حق اُس حق کی بھی توثیق کرتا ھے جو آپ سے پہلے زمانے میں نازل ہوا ھے اِس لیۓ زمان و مکان کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ھے کہ اللہ نے اپنے علم و بصیرت کی بنا پر گزرے ہوۓ زمانے میں بھی اپنی اِس کتاب کے علمی و عملی وارث پیدا کیۓ تھے اور آنے والے زمانوں میں بھی اِس کے علمی و عملی وارث پیدا کرے گا لیکن اِن وارثانِ کتاب میں سے کُچھ لوگ اپنے کثرتِ علم کی بنا پر علم کی انتہا پسندی میں مبتلا ہو کر خود سے نا انصافی کریں گے تو کُچھ لوگ اپنے علم کے مناسب علم کے ساتھ علم و عمل کا توازن کو برقرار رکھیں گے اور کُچھ لوگ جو بظاہر اگرچہ علم کی ایک عام سطح پر کھڑے ہوں گے لیکن وہ لوگ اللہ کی مہربانی سے نیکی و مہربانی میں سبقت حاصل کرنے والے لوگ ہوں گے ، کتابِ حق پر ایمان لانے والے یہ تینوں ایمان دار طبقے علم و عمل کی مطلوبہ اصلاح کے بعد نادیدہ مُستقبل کی اُن نادیدہ جنتوں میں جانے کے حق دار ہوں گے جن جنتوں میں اُن کو اُن کی خواہش سے بڑھ کر اعلٰی مکانات ، اُن کی خوشی سے بڑھ کر اعلٰی ملبوسات اور اُن کی طلب سے بڑھ کر اعلٰی طلائی زیورات اور موتی و جواہرات بھی ملیں گے ، یہ وہ عظیم الشان جنتیں ہیں جن میں سے ماضی کی ایک ایمان دار جماعت کو ایک جنت ملی تھی تو اُس نے یہ کہا تھا کہ ہر تعارف و اعتراف اُس اللہ کے لیۓ لازم ھے جس نے ھم پر مہربانی کرکے اور جس نے ھمارے عملِ خیر کی قدر دانی کر کے ھمارا ہر ایک غم دُور کر دیا ھے اور جس نے ہمیں ابدی قیام کے اُس مقام پر پُہنچا دیا ھے جہاں پر ھمارے لیۓ کوئی مشقت بھی نہیں ھے اور جہاں پر ھمارے لیۓ کوئی تکان بھی نہیں ھے لیکن جو لوگ اِس کتابِ حق کا انکار کریں گے وہ اُس پُر سکون جنتوں کے بجاۓ اُس بے سکون جہنم میں جائیں گے جہاں کا آتش گیر ماحول اُن کے جسم و جان کو جلاۓ گا اور وہ آتش گیر ماحول اُن کو لَمحہ بہ لَمحہ اِس طرح تڑپاۓ گا کہ اُن کے رنج و درد میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جاۓ گا اور وہ چیخ چیخ کر اپنے رَب سے کہیں گے کہ اگر ہمیں اَچھے کام کرنے اور اَچھے انسان بننے کا ایک بار ایک اور موقع دیا جاۓ تو ھم زندگی کے ساتھ دُوسری بار وہ بد عملی نہیں کریں گے جو پہلی بار کر چکے ہیں لیکن اُن لوگوں کو یہ جواب دیا جاۓ گا کہ اگر تُم کو اچھا انسان بننا ہوتا تو پہلے ہی بن جاتے لیکن اگر تُم پہلی بار اچھے انسان نہیں بنے ہو تو دُوسری بار بھی اپنی پہلی عادت کے مطابق وہی جُرم کرو گے جو پہلے کرتے رھے ہو حالانکہ تُمہارے پاس اِس دن سے ڈرانے والے ھمارے نمائندے بھی آتے رھے ہیں اور تُم نے اُن کی ہر سُنی اَن سُنی کی ھے اِس لیۓ وہ وقت گزر جانے کے بعد اَب تُمہاری جاں بخشی کی کوئی بھی صورت موجُود نہیں ھے لہٰذا اَب تُم اپنے اُس اَنجام کو بُھگتو جس اَنجام کا بُھگتنا ہر نافرمان قوم کا مقدر ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا میں اللہ تعالٰی کا جو جامع الجہات ارشاد بیان کیا ھے اُس کا آغاز اللہ تعالٰی کے اُس خطاب سے کیا گیا ھے جس خطاب میں اللہ تعالٰی نے سیدنا محمد علیہ السلام سے یہ فرمایا ھے کہ ھم نے آپ پر اپنا جو کلامِ حق نازل کیا ھے یہ وہی کلامِ حق ھے جو آپ سے پہلے اَنباۓ کرام پر بھی نازل ہوتا رہا ھے اور چونکہ اُن اَنبیاۓ کرام کی اُمت کے علماۓ سُوء نے اُس کلام پر اپنے خیالی حاشیۓ چڑھا کر اُس کلام کو ناقابلِ عمل بنا دیا تھا اِس لیۓ ھم نے آپ پر اپنی جو کتاب نازل کی ھے اُس کتاب میں ھم نے وہ کلام بھی شامل کر دیا ھے جو آپ سے پہلے اَنبیاۓ کرام پر ھم نازل ہوتا رہا ھے ، یہی وجہ ھے کہ آپ پر نازل ہونے والی یہ کتاب اُن سب پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ھے جو پہلے انبیاۓ کرام پر نازل ہوئی ہیں ، اِس کلام کا مُدعاۓ کلام یہ ھے کہ اِس کتاب کے نزول کا سبب پہلی کتابوں میں کی گئی وہ معنوی تحریف ھے جو اُن کتابوں میں اُن اُمتوں کے علماۓ تحریف نے کی تھی اور اِس کتاب کی اپنی صحت و صداقت کی دلیل یہ ھے کہ یہ اُن ساری کتابوں کے نزول کی تصدیق کرتی ھے اور اِس کی اِس تصدیق کی غرض یہ ھے کہ تاریخی اعتبار سے یہ کوئی ایسی اَجنبی کتاب نہیں ھے جو پہلی بار نازل ہوئی ھے بلکہ یہ وہی کتابِ حق ھے جو ہر گزرے زمانے میں نازل ہوتی رہی ھے ، قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا میں اِس حرفِ آغاز کے بعد جو دُوسری حقیقت بیان کی ھے وہ یہ ھے کہ ماضی میں اللہ تعالٰی نے جن زمانوں میں اپنی جو کتابیں نازل کی ہیں اُن کتابوں کی تعلیم و ترویج کے لۓ اللہ تعالٰی اُن اُمتوں میں اُن کتابوں کے وہ وارثانِ کتاب بھی ہمیشہ پیدا کیۓ ہیں جو ہر زمانے میں اپنی بساط کے مطابق اُن کتابوں کو علماۓ سُوء کی دست برد سے بچانے کی کوشش تو کرتے رھے ہیں لیکن وہ اپنی کوشش کے باوجُود بھی اُن تاجرانِ دین کی خباثتوں کے سامنے کوئی بند نہیں باندھ سکے اِس لیۓ اِس بار جب یہ کتاب نازل کی گئی ھے تو اِس کے بارے میں سُورَةُالحجر کی اٰیت 9 میں اللہ تعالٰی نے اِس اَمر کی یقین دھانی بھی کرادی ھے کہ اِس بار اِس کتاب کے متنِ اصلی کی حفاظت ھماری ذمہ داری ھے اور ھماری اِس ذمہ داری کے بعد اَب قیامت تک اِس کے متن میں کوئی بھی تحریف ممکن نہیں ھے ، اٰیاتِ بالا میں بیان کی گئی اِن دو بڑی حقیقتوں کے بعد اِس کتاب کے رَد و قبول کے وہ نتائج بیان کیۓ گۓ ہیں جن کے مطابق جو لوگ اِس کتاب پر عمل کریں گے اُن کا انعام جنت ہو گا اور جو لوگ اِس کتاب کا انکار کریں گے اُن کا اَنجام جہنم ہو گا ، جنت کی حقیقت سُورَةُ الرعد کی اٰیت 35 میں یہ بیان کی گئی ھے کہ جنت کے متعلق اِس کتاب میں جو کُچھ کہا گیا ھے وہ انسانی فہم کے مطابق انسانی فہم میں لائی جانے والی ایک مانوس تمثیل ھے جس کا مقصد یہ بتانا ھے کہ انسانی فکر و خیال میں اپنے لیۓ اللہ تعالٰی کی جس نعمت کا جو خیال آسکتا ھے اُس جنت میں اُس کو جو کُچھ ملے گا وہ اُس کے فکر و خیال سے کہیں زیادہ ہو گا ، اہلِ جنت کے لیۓ اِن نعمتوں اور مسرتوں کا بار بار اِس لیۓ ذکر کیا گیا ھے تاکہ انسان کی طبعِ حرص کو ایک گونہ تسکین ملتی رھے اور وہ اپنی زندگی کے نازک لمحات میں یاس زدہ رہنے کے بجاۓ اللہ تعالٰی سے اپنی اُمید و آس لگاۓ رکھے اور اسی طرح جہنم کی سزاؤں کی حقیقت بھی انسانی فہم کی تفہیم کے مطابق بیان کی گئی ھے تاکہ انسان اُس کی سزا سے ڈررے اور کتابِ حق کے انکار نہ کرے ، اٰیاتِ بالا میں آنے والا یہ اِلٰہی ارشاد اپنی جامعیت کے اعتبار سے انسان کی تخلیق و تعلیم اور انسان کے مقصدِ تخلیق و تعلیم کا وہ جہان نُما ھے جس میں انسان کا تخلیقی و تعلیمی ماضی ، انسان کا تخلیقی و تعلیمی حال اور اِس کا تخلیقی و تعلیمی مُستقبل کُچھ اِس طرح سے یَکجا کر دیا گیا ھے کہ اٰیات کے اِس جہان نما میں انسان اپنے ماضی و حال اور مُستقبل کے جُملہ اَحوال کا ایک علمی و فکری جائزہ بھی لے سکتا ھے اور اِس علمی و فکری جائزے کے بعد وہ اپنے ماضی کی روشنی میں اپنے حال کی اصلاح بھی کر سکتا ھے اور اپنے حال کے علمِ مطلوب کی مدد سے اپنے مُستقبل کے وہ قابلِ عمل و قابلِ قدر فیصلے بھی کرسکتا ھے جو اُس کے مقصدِ تخلیق و مقصدِ تعلیم کی تکمیل کر سکتے ہیں اور انسان کے حال و مُستقبل کے اِس منصوبے کی واحد شرط یہ ھے کہ انسان اپنے وہ سارے فیصلے اِس کتاب کے مطابق کرے جو محمد علیہ السلام پر نازل ہوئی ھے ، اٰیاتِ بالا میں حاملینِ کتاب کا اُمت کے طور پر جو ذکر آیا ھے اُس ذکر سے اہلِ روایت نے اُمتِ مُسلمہ مُراد لی ھے لیکن حقیقت یہ ھے کہ قُرآن جس وسیع عالمی پس منظر میں بات کرتا ھے اُس وسیع عالمی پس منظر کے مطابق اِس سے مُراد ہر وہ اُمت ھے جو اپنے زمانے میں حق کے ساتھ کھڑی رہی ھے اور جہاں تک موجُودہ اُمت کا تعلق ھے تو قُرآنِ کریم ساری زمین کے سارے انسانوں کے لیۓ ھے نازل ہوا ھے اور زمین کے سارے انسان قُرآن اور صاحبِ قُرآن کی اُمت ہیں اور عجب نہیں ھے کہ آنے والے کسی زمانے میں یہ بکھری ہوئی اُمت ایک خُدا کی توحید پر جمع ہو کر ایک ہی اُمت بن جاۓ اور اسی طرح اٰیاتِ بالا میں وارثانِ کتاب کا جو ذکر ہوا ھے اُس ذکر میں پہلا طبقہ وہ ھے جو اپنی علمی بد ہضمی کا شکار ہو کر کتابِ دین میں دین کے نام پر اپنی خیالی روایات کے خیالی حاشیۓ چڑھاتا رہتا ھے اور اپنی اِس پریشان خیالی کے تحت کُچھ اِس طرح کے حاشیۓ چڑھاتا رہتا ھے کہ اگر فلاں فلاں وقت پر نبی علیہ السلام سے فلاں فلاں بات پوچھی جاتی تو آپ اُس کا شاید فلاں فلاں جواب دیتے لیکن چونکہ آپ سے فلاں فلاں بات جو پوچھی ہی نہیں گئی ھے وہ بعد میں ھمارے بزگوں کے ذہن شریف میں آئی ھے اور انہوں اپنی فلاں فلاں کتاب شریف میں درج فرمائی ھے اِس لیۓ وہ بات بھی دین ھے لیکن یہ خیالی بات ہر گز بھی دین نہیں ھے بلکہ اللہ تعالٰی کے دین میں ایک انسانی یا شیطانی اضافہ ھے ، اِس سلسلہِ کلام میں آنے والی وارثانِ کتاب کی دُوسری جماعت وہ ھے جو اللہ تعالٰی کی اٰیات سے اتنی ہی مطمئن ھے جتنی اللہ تعالٰی کی ذات سے مطمئن ھے اِس لیۓ وہ اپنے بڑوں کی تقلید کے بجاۓ صرف اِس کتاب کی تقلید کرتی ھے جو اللہ تعالٰی نے سیدنا محمد علیہ السلام پر نازل فرمائی ھے ، یہ ایک معتدل اور متوازن جماعت ھے جو بہر حال قابلِ توقیر ھے اور تیسری جماعت جو اِس دُوسری جماعت سے قریب تر ھے وہ اُن عوام الناس کی جماعت ھے جو روایات و اختلافِ روایات کے چکر مکر میں پڑے بغیر اور اپنے علمی و نسلی آباء و اجداد کی اندھی تقلید یا ذہنی غلامی کیۓ بغیر اللہ تعالٰی کی کتاب کو حتی الامکان سمجھنے اور اِس پر عمل کرنے کو ترجیح دیتی ھے اور یہ کوئی مایوس کُن صورتِ حال نہیں ھے بلکہ نیکی کے عمل سے نیکی کے عمل کی طرف بڑھنے کی ایک قابلِ قدر صورتِ حال ھے ، خلاصہِ کلام یہ ھے کہ اللہ تعالٰی فاطر ھے ، اُس کی یہ کتاب بھی کتابِ فطرت ھے اور اُس کتاب کی اتباع دین ہی کا ایک تقاضا نہیں ھھ بلکہ فطرت کا بھی ایک تقاضا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462583 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More