تحریر ۔۔۔اسحاق میاں
شادی بیاہ اور غم کے مواقع پر مختلف ناموں سے منسوب غیر ضروری اور غیر
روایتی رسم و رواج میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے جو معاشرے کے
کمزور طبقات پر بوجھ بنتا جارہا ہے، روایتی رسم و رواج کی جگہ غیر ضروری
اور شاہ خرچیوں پر مشتمل فضول رسومات نے لے رکھی ہے اور شادی ، بیاہ کے
علاو ¿ہ ان رسومات نے غم کے مواقع کو بھی مشکل بنا رکھا ہے، دہائی دو دہائی
قبل سادگی اور آسانی سے شادی بیاہ کی تقریب ہوتی تھیں اسی طرح فوتگی کے وقت
غم میں فاتحہ خوانی کا مرحلہ بھی انتہائی سادگی سے انجام پاتا مگر اب غم
اور خوشی کا فرق تقریباً ختم ہوچکا ہے اور غم کے موقع پر فاتحہ خوانی کیلئے
آنے والے مہمانوں کی خاطر خواہ تواضع کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ وقت گزرنے
کے ساتھ ساتھ اور کوئی روک ٹوک نہ ہونے کی وجہ سے دن بہ دن رسم و رواج کے
نام پر نت نئی فرمائشوں نے شادی بیاہ کے مواقع پر بے جا اخراجات نے لوگوں
کی کمر توڑ دی ہے۔ بیٹی جسے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے رحمت کہا ہے کی
پیدائش کو زحمت بنا دیاگیا ہے، رسم و رواج کا یہ ناسور بڑھ کر معاشرے میں
اتنا سرایت کر چکا ہے کہ اس کو مزید روکنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہا
ہے اور اگر ان بے جا رسومات کے آگے بند نہیں باندھا گیا تو آنے والی نسل ان
رسم و رواج کی بھینٹ چڑھ جائے گی اور پھر اس سے پیدا ہونے والی مشکلات پر
آئندہ کی نسلیں ہم میں سے کسی کو بھی معاف نہیں کرے گی۔ فرسودہ رسومات کے
خاتمے کیلئے سوات میں اس مہم کا آغاز اگر چہ سال / ڈیڑھ سال پہلے ہو چکا
تھا اور اس سلسلے میں سوات کے مختلف علاقوں بریکوٹ ، گاؤں مانیار ، گاؤں
پارڑئی اور دیگر ملحقہ علاقوں گاو ¿ں اور دیہاتوں میں عمائدین علاقہ وقتاً
فوقتاً آگاہی مہم چلاتے ہوئے لوگوں کو ان غیر ضروری رسومات کے خلاف آگاہ
کرتے رہے ہیں مگر عملی قدم تحصیل مٹہ کے گاؤں کوزہ د رشخیلہ کے چند درد دل
رکھنے والے افراد نے اٹھایا جہاں باقاعدہ طور پر ان رسومات کو ترک کرنے
کیلئے کچھ اصول و ضوابط مقرر کرکے اس کو عملی جامہ پہنایا گیا، اس عمل کو
علاقے کے عام لوگوں کی جانب سے پذیرائی حاصل رہی اور سب نے متفقہ طور پر اس
مہم کو گاو ¿ں درشخیلہکی حد تک کامیاب بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا
اوراس عمل کو آگے لے جانے کیلئے کافی حد تک کامیاب رہے۔
میں بذات خود ان رسومات میں فضول خرچیوں کے خلاف رہا ہوں اور میری بھی
خواہش تھی کہ شادی ، بیاہ اور غم میں ان فضول رسومات کیلئے کچھ اصول اور
ضابطے مقرر کر نے کی ضرورت ہے جس سے شادی بیاہ اور غم کے مواقع کو لوگوں
کیلئے آسان بنایا جاسکے کیونکہ اگر ان فضول رسموں سے چھٹکارا حاصل نہ کیا
گیا تو پھر ہم سب وقت کے ساتھ ان خرافات کے ہاتھوں ذلیل ہو کر جائیدادوں سے
محروم ہوتے رہیں گے۔سوات کے مختلف گاؤں میں شادی بیاہ اور غم کے مواقع پر
بے اخراجات سے تنگ لوگوں نے اس مہم کو پذیرائی بخشی تو کچھ گاؤں اور
دیہاتوں میں اس پر باقاعدہ وہاں کے معززین نے آپس میں مشاورت کا سلسلہ شروع
کردیا،گاؤں ڈڈھارہ میں بھی شادی بیاہ میں نمود و نمائش کیلئے ان شاہ خرچیوں
سے تنگ لوگوں نے علم بغاوت بلند کی اور شادی ، بیاہ اور غم میں غیر ضروری
اور فضول رسومات کو ختم کرکے سادگی اور آسانی پیدا کرنے کی غرض سے گاؤں کے
دوسرے معززین سے مل کر متفقہ اصول اپنانے پر باہمی رضامندی اور متفقہ فیصلہ
کیلئے صلاح مشورے کا آغاز کیا گیا۔درشخیلہ میں ڈاکٹر انور ، خادم اﷲ اور ان
کے د یگر ساتھیوں نے چونکہ اس اہم فریضہ کیلئے پہلے سے ہی کچھ اصول و ضوابط
مقرر کر رکھے تھے لہذا انہی کے اصولوں پر مبنی ضابطہ کو گاؤں ڈڈھارہ کے
معززین کے سامنے پیش کرکے ان کی رائے جاننے اور ضروری ترامیم کے بعد گاؤں
ڈڈھارہ کے غریب ، امیر اور متوسط طبقے کیلئے آسانی پیدا کرکے راہ ہموار
کرنا مقصود تھا تاکہ اونچ نیچ نہ رہے اور سب ایک متفقہ اصول اپنا کر شادی ،
بیاہ اور غم میں غیر ضروری رسم و رواج میں اصلاح کرکے آسانی پیدا کرسکیں۔
اس حوالے سے تیار کردہ ضابطہ کی تحریر کی جب سوشل میڈیا پر تشہیر کی گئی تو
وہ اتنی وائرل ہوئی کہ مین سٹریم میڈیا تک جا پہنچی اور وہاں اس پر بحث و
مباحثہ کا آغاز ہوا لیکن افسوس کہ غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کا مظاہرہ کرتے
ہوئے کچھ افراد نے اس نیک مقصد کو منفی تاثر دے کر متنازعہ بنادیا کیونکہ
اس ضابطہ رسم ورواج کے حوالے نہ تو درشخیلہ میں موجود ذمہ داران ڈاکٹر انور
اور خادم اﷲ یا ڈڈھارہ میں موجود شریف زادہ ، شاہ وزیر خان یا مجھ ناچیز
اور نہ ہی کسی دوسرے ذمہ دار شخص سے رابطہ کرکے ان کا موقوف جاننے کی کوشش
کی گئی اور عجلت میں منفی تاثر پر مبنی شہ سرخی لگا کر منفی خبر لوگوں کے
سامنے پیش کرکے اس نیک مقصد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں جس نے سوات
میں انتظامیہ کی دوڑیں لگوا دیں۔درشخیلہ یا ڈڈھارہ اور دوسرے گاؤں کے ان
اصول اور ضابطہ پر مبنی تحریر میں کہیں بھی یہ شرط نہیں رکھی گئی ہے کہ’’
خلاف ورزی کرنے والوں کا امام مسجد نماز جنازہ نہیں پڑھائے گا‘‘ اور نہ ہی
کوئی ایسی تجویز زیر غور رہا ہے، یہ خود ساختہ اور متنازعہ جملہ پتہ نہیں
کہاں سے لیا گیا ؟ ہاں البتہ عوام کا اس قانون پر عمل در عمل کرنے کی غرض
سے دوسرے آپشن جیسے ہلکا پھلکا سا جرمانہ لگانا ضرور زیر غور تھا، درشخیلہ
میں اب تک لگ بھگ 16 نکاح اس سادہ طریقے پر ہو چکے ہیں جس پر درشخیلہ کے
ذمہ داران کے مطابق ہزار دو ہزار سے زیادہ خرچہ نہیں آیا ہے۔جاوید چوہدری ،
انڈی پنڈنٹ نیوز ، ڈیلی پاکستان ، اْمت اور 92 نیوز چینل سمیت بعض دوسرے
میڈیاذرائع نے بھی بلا تحقیق امام مسجد کے جنازہ نہ پڑھائی جانے والی خبر
کو شہ سرخی کے ساتھ شائع کرکے غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی انتہا کردی ہے اور
خوا مخواہ ایک اچھے مقصد کو مبینہ طور پر ناکام یا بدنام کرنے کی کوشش کی
ہے، سوات میں موجود صحافی برادری اس منفی خبر کے شائع ہونے کے بعد خود
درشخیلہ جا کر اس مہم کے ذمہ داران ڈاکٹر انور اور خادم اﷲ سے مل چکے ہیں
اور اس کالم کے شائع ہونے سے پہلے امید ہے کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ اور ذمہ
درانہ صحافتی فریضہ سر انجام دیتے ہوئے حقائق پر مبنی رپورٹ شائع کر چکے ہو
نگے۔
صحافت ایک ذمہ دارانہ پیشہ ہے ، صحافت معاشرے کی مثبت اور منفی پہلوؤں کو
اجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے خبر کو جب حقائق کے برعکس ،
بلاتحقیق اور غیر ذمہ دارانہ طریقے سے نشر کیا جائے تو اس سے معاشرہ کا ہر
فرد متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، مجھے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ اتنے
موقر اخبارات اور نیوز چینلز کس طرح غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کرکے منفی تاثر
پیش کر سکتے ہیں کیا حکومت نے خود اس سے پہلے شادی بیاہ کی تقریبات میں ون
ڈش متعارف نہیں کیا تھا ؟ مگر اس پر کوئی عمل نہیں ہوا تو اگر کسی انے
انفرادی طورپر کسی گاؤں اور شہروں میں باہمی رضامندی سے اپنی مدد آپ کے تحت
کچھ اصول و ضوابطہ اپنانے کی کوشش کی جس کا مقصد وہاں کے باسیوں کیلئے
آسانی پیدا کرنا ہو تو اس میں حرج کیا ہے ؟ میری درخواست ہے کہ یہ کام
انتہائی نیک نیتی سے شروع کیا گیا ہے اسے ہرگز منفی تاثر دے کربرباد نہ کیا
جائے،خدارا تحقیق کے بغیر محض ریٹنگ بڑھانے کیلئے غلط رپورٹنگ سے گریز کیا
جائے۔
|