کلاچی سے کراچی تک۔

کراچی کی موجودہ حیثیت جاننے سے قبل اگر تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تب بھی مورخین برملا اعتراف کرتے ہیں کہ مُوجودہ کراچی کو برصغیر پاک و ہند اہم مقام حاصل تھا جب کراچی برطانوی سامراج کی کالونی تھا تب بھی کراچی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے نا صرف شاندار اقدامات کئے بلکہ تاریخی عمارتیں بنوائیں جو آج بھی اِسی شان و شوکت سے قائم و دائم ہیں۔ موجودہ زندہ دِلوں کا شہر کی تاریخ موہن جو دڑو سے بھی پُرانی ملتی ہیں جس سے جا بجا آثار و شواہد بھی موجود ہیں۔ جب 711 عیسویں میں محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کیا دیبل کو دربُ کے راستے فتح کیا دربُ اصل میں عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی راستے کے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس کا نام دربّ یعنی راستہ رکھا۔ محمد بن قاسم کی آمد سے سندھ باب الاسلام بنا دُور دراز کےعلاقوں سے مسلمان آنے لگے اور یہ مقام اسلامی دنیا کا ایک بہترین مرکز بن گیا۔ روایت کہتی ہے کہ یہاں ماہی گیروں کی ایک بستی آباد تھی اور ایک خاتون جو اس بستی میں منصفانہ فیصلے اور اور بہترین مشوروں کی حامل تھی جس کا نام "مائی کلاچی" تھا اسی کی نسبت سے کراچی کا نام کلاچی پڑا جبکہ دوسری روایت یہ بھی کہ ایک ماہی گیر جس کا نام "کراچو" یا "کلاچو" تھا اس کے تعلق کی بناء پر یہ نام پڑا چند مورخین کے مطابق یہ نام بلوچوں کے ایک قبیلے جس کا نام کلاچی تھا کے آباد ہونے سے پڑا بعد ازاں سندھی زبان کے دستور کے مطابق کلاچی کا نام "ر" میں تبدیل ہوکر کراچی ہوگیا اور جب سے اب تک کراچی کہلایا۔ یاد رہے مختلف ادوار میں کراچی کے لئے مذید چھوٹے بڑے ناموں کا بھی استعمال ہوتا رہا جن میں کروکلا، کروٹوچی، کروچی، کارانگی، کرسائی، کلاچی کوٹ، کڑسائی، کلاچی کن، کورانچی، کوراچی، اور کرانچی بھی رہا۔ قیام پاکستان کے بعد 1947 سے لے کر 1958 تک کراچی کو پاکستان کے دارلخلافہ ہونےکا بھی شرف حاصل رہا بعد ازاں ساحل سمندر کے قریب ہونے سیکیورٹی خدشات کے باعث اور آبادی میں مسلسل اضافہ کے سبب اس وقت کے صدر ایوب خان نے راولپنڈی کے قریب اس جگہ کا انتخاب کیا اور یہاں شہر تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ اس نئے دارالحکومت کے لئے زمین کا انتظام کیا گیا جس میں صوبہ پختونخوا اور پنجاب سے زمین لی گئی۔ عارضی طور پر دارالحکومت کو راولپنڈی منتقل کر دیا گیا اور 1960ء میں اسلام آباد پر ترقیاتی کاموں کا آغاز ہوا۔ شہر کی طرز تعمیر کا زیادہ تر کام یونانی شہری منصوبہ دان Constantinos A. Doxiadis نے کیا۔ 1968ء میں دارالحکومت کو اسلام آباد منتقل کر دیا گیا تاہم پھر بھی کراچی کی اہمیت میں اضافہ بڑھتا ہی چلا گیا کراچی جس کا کل رقبہ 3780 کلومیٹر ہے دنیا کے بڑے ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے تقسیم ہند کے وقت یہاں کی آبادی تقریبآ چار لاکھ کے قریب تھی ہندؤستان سے ترک وطن کرکے آنے والے اگرچہ ملک کے دوسرے صوبوں اور شہروں میں بھی قیام پذیر ہوئے مگر اکثریت نے کراچی کا رخ کیا تاریخ شاہد ہے کہ کم و بیش 20 لاکھ سے ذائد لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر پاکستان کی ترقی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس ترک وطن کے دوران کتنی ہی ماوّں سے ان کے بیٹے چھین لئے گئے، کتنے بہنوں کے سر سے سہاگ لوٹ لیا گیا کتنے ہی بچے یتیم ہوگئے ہندوں بلوائیوں اور سکھوں کی طرف سے مہاجرین کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا۔ اگر اس وقت مہاجرین کی آباد کاری ایک مشکل مرحلہ تھا تاہم بچے کچے مسلمان ملک کے طول و عرض خاص کر کراچی میں آباد ہوئے، چونکہ ہنر مند تھے اور ترک وطن کرتے وقت اپنے ساتھ زیورات، پیسے اور سب سے اہم چیز ایسا ثقافت اور کلچر لے کر آئے جس نے وقت سے ساتھ ساتھ مہاجرین کو سب سے ممتاز بنا دیا۔ اُردو بولنے والوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے 21 مارچ 1948 جو تاریخ سازجلسے سے خطاب کرتے ہوئے ہوئے بانی پاکستان بابائے قوم نے فرمایا
"میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اُردو ہو گی اور صرف اُردو، اور اُردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں ہو گی۔ دیگر اقوام کی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نا کوئی اور کام کر سکتی ہے،پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ صرف اور صرف اُردو ہی ہو گی۔'' کیونکہ جہاندیدہ شخصیات نے جان لیا تھا کہ مہاجرین جو کہ ہندوستان سے ایک ثقافت ، کلچر اور ہنر کے کر آئیں ہیں اِسی کی بدولت پاکستان دنیا کے خطے میں ایک عظیم الشان مرتبہ حاصل کرے گا۔ اور موجودہ حالات میں دیکھ سکتے ہیں کہ کراچی جس میں چاروں صوبوں کا عکس نمایاں ہے بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے تمام رنگ و نسل و مذہب سے تعلق رکھنے والے شہر قائد میں عارضی یا مستقل سکونت اختیار ضرور کرتے یا کرنا چاہتے ہیں۔ آج موجودہ کراچی کی آبادی تین کروڑ سے ذائد ہے اور ظاہر ہے بڑے شہروں کے مسائل بھی لاتعداد ہوتے ہیں مگر حقیقآ کراچی کے بنیادی مسائل کا سدباب کرنے کے لئے کبھی کوئی جامع مستقل حکمت عملی نہیں اپنائی گئی کیونکہ کبھی سیاسی بنیادوں پر تو کبھی لسانی بنیادوں پر سوتیلی ماں جیسا سلوک رواں رکھا گیا ایک عرصے تک ظلم و بربریت، قتل و خون کی ہولی کھیلتا یہ شہر دوسروں کو اپنانے اور اپنی روایات کے باعث ترقی کے منازل طے کرتا رہا ہنوز یہ سفر جاری و ساری ہے۔۔
 

Furqan Ahmed Sair
About the Author: Furqan Ahmed SairCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.