غریب بھی دل رکھتا ہے
دنیا ایک عجیب شکل اختیار کر چکی ہے. غریب وہ نہیں جو عیش و عشرت، مال و
دولت نہیں رکھتا بلکہ غریب وہ ہے جس کا دل انسانیت کے جذبے سے خالی ہے.
جہاں مفلسی، غریبی کو بے حد وقار حاصل تھا آج اسے ہی سب سے حقیر سمجھا جاتا
ہے، دائی جس سے عزت و تکریم سے کام کاج کروائے جاتے تھے آج اسے ہی ذلیل و
رسوا کیا جاتا ہے، بیٹا جو اہلِ خانہ کی شان و شوکت ہوا کرتا تھا آج وہ ہی
والدین کے لیے باعثِ شرمندگی ثابت ہو رہا ہے، بیٹی جو باپ کی شان و شوکت
اور گھر کا سکون ہوتی تھی آج وہ ہی بر سرِ بازار اپنی عزت کا جنازہ نکال
رہی ہے. مختصراً یہ کہ ابنِ آدم کی ان بے لوث حرکتوں سے خود فرشتے بھی
شرمندہ ہیں
جی ہاں!! غریب بھی دل رکھتا ہے. شروع کرتے ہیں زندہ واقعات سے. ایک دن
راستے سے گزرتے ہوئے نگاہ رکشہ سوار پر پڑی جو بے حد نفاست کے ساتھ اپنی
روزی روٹی کی تلاش میں تھا. ٹریفک پولیس اہلکار نے رکشہ سوار کی طرف اشارو
کیا اور اسے رکنے کے لیے کہا، اشارہ دیکھتے ہی وہ رک گیا اس کے چہرے سے خوف
و ہراس صاف دکھائی دے رہا تھا کافی بحث و مباحثے کے بعد آخر کار طاقت کا
نشہ غریب پر حاوی ہو ہی جاتا ہے. چالان کٹنے پر رکشہ سوار نے دن کی ساری
جمع پونجی پولیس اہلکار کو دے دی. مایوسی کو اُس کے چہرے سے صاف دیکھا جا
سکتا تھا یوں لگا جیسے وہ بہت کچھ کہنا چاہ رہا ہو لیکن زبان ساتھ نہ دے
رہی ہو. نا جانے کتنے ارمان تھے اس کے دل میں جو سب چکنا چور ہو گئے.
صرف یہ ہی نہیں یونیورسٹی سے نکلتے وقت میری نظر سڑک کے کونے میں بیٹھی ایک
چھوٹی بچی پر پڑی جو یونیورسٹی سے گزرتی ہر لڑکی کو حسرت بھری نگاہ سے تکتے
چلے جا رہی تھی. قدم نا جانے کیوں اس چھوٹی بچی کی طرف چل دیے.
ارے میری جان! آپ یہاں کیا کر رہی ہیں؟(میں بچی سے مخاطب ہوئی)
چھوٹی بچی: باجی میں روزانہ یہاں آکر باجیوں کو دیکھتی ہوں. آپ یہاں پڑھنے
آتی ہیں نا؟ معصومیت بچی کے چہرے سے جھلس رہی تھی.
جی ہاں پیاری گڑیا.(میں نے بے بسی کے عالم میں جواب دیا)
بچی : باجی یہ پڑھائی کیا ہوتی ہے؟ میرا بہت دل چاہتا ہے کہ میں بھی پڑھ
لکھ کر آپ جیسی بنوں لیکن میں پڑھ نہیں سکتی. باجی بھیّا کہتے ہیں کہ پڑھنے
کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن میرے پاس تو کوئی پیسے نہیں ہیں. کیا
وہ جن کے پاس پیسے نہیں ہوتے وہ پڑھ نہیں سکتے؟ (اس لمحے بچی کی آنکھوں میں
آنسوں صاف دکھائی دے رہے تھے)
میں جو بچی کی طرف تکتے چلی جا رہی تھی میرے لیے اُس کی یہ سب باتیں سوالیہ
نشان سے کم نہ تھیں اور یوں محسوس کیا جیسے دنیا میں آنے کا مقصد ادا ہی نہ
ہوا ہو۔
صرف یہ ہی نہیں ہمارے ملک میں بہت سے بچے ایسے بھی ہیں جو اپنی خواہشات کو
اپنی ضروریات میں قید کیے ہوئے ہیں. آخر غریب بھی دل رکھتا ہے، غریب بھی دل
رکھتا ہے کہ وہ اپنی خواہشاتِ زندگی کو پورا کرے. میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہی
چھوٹے چھوٹے بچے جو راہ چلتی سڑکوں پر یا کبھی کسے ڈھابے پر دکھائی دے رہے
ہوتے ہیں اگر ان کو تعلیم کے مواقع فراہم کیے جائیں تو یہی عظیم بچے ملک کا
روشن مستقبل بن سکتے ہیں۔
|