چھ سیکنڈ میں تین معجزے


ٹریفک سگنل پر پیش آنے والا ایسا واقعہ جس نے ہمارے معاشرے کے دو کرداروں کو بے نقاب کیا تو تیسرے کو چوک میں ہی ننگا کر دیا

کے لیے نکلتا ہوں تو میرے راستے میں جو پہلا ٹریفک سگنل آتا ہے وہ راولپنڈی کی مال روڈ پر واقع پی سی ہوٹل کی بغل می ہے ۔ یہ سگنل مال روڈ پر چلنے والی ٹریفک کے لیے ساٹھ سیکنڈ کے لیے جب کہ دوسری سڑک پر موجود ٹیریفک کے لیے صرف 10 سیکنڈ کے لیے کھلتا ہے ۔ کام پر بر قت پہنچنے کی دوڑ میں شامل لوگوں کے کیے آدہے سیکنڈ کا وہ وقفہ بھی بہت لمبا محسوس ہوتا ہے جس میں سگنل کی بتی پیلی ہوتی ہے ۔ چند ہفتے قبل اسی سگنل پر میری آنکھوں کے سامنے اس آدہے سیکنڈ کی دوڑ جیتنے کے چکر میں 2 موٹر سائیکل سوارحادثے کا شکار ہوئے اور پنجاب حکومت کی مہیا کردہ 1122 ایمرجنسی سروس کی ایمبولینس میں لیٹ کر ہسپتال کو روانہ ہوئے ۔ 17 جنوری 2022 کی صبح پیش آنے والا واقعہ مگر بالکل ہی مختلف ہے ۔ میں اس سگنل سے 50 گز دور ہی تھا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ مجھے اس سگنل پر رکنا ہوگا ۔ میں ذہنی طور پر رکنے کے لیے تیار تھا اور سڑک پر لگی سفید لکیر پر پہنچا تو سگنل سرخ ہو چکا تھا ۔ میں رک گیا مگر میرے دائیں طرف ایک آلٹو گاڑی نے لائن کو عبور کیا ۔ اس کے ڈرائیور کا ارادہ ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ بتی کے سرخ ہونے کے باوجود دوسری طرف کے اشارے میں آدہے سیکنڈ کے وقفے سے فاہدہ اٹھانا چاہتا ہے ۔ مگر عملی طور پر ہوا یہ کہ میری بائیں جانب سے ایک تیز رفتا ر موٹر سائیکل جس پر 2 نوجوان سوار تھے نے آلٹو والے کی چوائس سے فائدہ اٹھانے کے لیے عجلت دکھائی ۔ مگر دیر ہو چکی تھی مال روڈ پر ٹریفک کے سیلاب نے موٹر سائیکل سوار کو ایمرجنسی میں بریک لگانے پر مجبور کر دیا ۔ موٹر سائیکل تو رک گیا مگر آلٹو والے کے فرنٹ بمپر نے موٹر سائیکل کے پچھلے مڈ گارڈ چھو لیا ۔ اس پر موٹر سائیکل کو سٹینڈ پر کھڑا کیا ۔ دونوں نیچے اترے اور آلٹو والے کو نظروں ہی نظروں میں للکارا ۔ آلٹو والے بھی اسی نلکے کا پانی پیا تھا ۔ اس نے دروازہ کھولا نیچے اترا ۔ اسی دوران میری بائیں جانب سے ایک موٹر سائیکل سوار نمودار ہوا جوپنڈی کی اس سردی کا ننگے سر بغیر دستانوں اور بغیر جرابوں کے کھلے چپل پہن کر مقابلہ کر رہا تھا مگر میں اس کی پھرتی اور قوت فیصلہ پر دل ہی دل میں داد دیے بغیر نہ رہ سکا ۔ میں نے سوچا یہ واقعہ جو بھی رخ اختیار کرے گا اس مکمل عکاسی کی ویڈیو اس نوجوان کے پاس ہو گئی ۔ البتہ آلٹو والے کی جرات نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی کیونکہ وہ کوئی فیصلہ کر کے دونوں موٹر سائیکل سواروں کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ اس کا لباس دیکھ کر میرے ذہن میں اپنے خاندان کے وہ نوجوان آئے جو فیلڈ میں سیلز کا کام کرتے ہیں ۔ اور صبح جب تیار ہو کر نکلتے ہیں تو ایسا لباس زیب تن کیا ہوتا ہے کہ دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ شائد کسی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو نہیں تو ایم ڈی ضرور ہوں گے مگر تجربہ کار لوگ ان کی موٹر سائیکل سے اصلیت جان لیتے ہیں ۔ آلٹو اور اس کے ڈرائیور کو دیکھ کر میرے ذہن میں ایک تاثر ابھرا کہ سیلز مین نے اپنی دن رات کی محنت سے کمپنی کو مجبور کر دیا ہے کہ اسے فیلڈ مینیجر کی پوسٹ پر ترقی دے ۔ اور ترقی پانے کے بعد سیلز مین نے پہلا کام یہ کیا ہے کہ اپنا موٹر سائیکل بیچ کر اور ساری ساری جمع پونجی لگا کر یہ گاڑی خریدی ہے تاکہ خود کو یقین دلا سکے کہ وہ اب مینیجر ہے ۔ یہ صرف میرے ذہن میں چلنے والے قیاس تھے ۔ مگر اس کے گاڑی سے اتر نے کے بعد جو پہلی چیز میں نے نوٹ کی وہ اس کے چہرے پر فیصلہ بھری مسکراہٹ تھی ۔ کسی عمل کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے جو مسکراہٹ ہوتی ہے وہ کسی بڑی فتح کا پیش خیمہ ہوتی ہے ۔ ایک طرف دو کڑیل نوجواں دوسری طرف فیصلہ کن مسکراہٹ ۔ ۔ ۔ مگر پھر میری آنکھوں نے وہ منظر دیکھا کہ میں مجبور ہو کر اسے لکھ رہا ہوں ۔ 6 سیکنڈ میں ایسا منظر پیش ہوا جس میں معاشرے کے تین پہلو سامنے آئے ۔ پہلا پہلو اخلاق کی ظاقت دوسرا پہلو غیر متوقع رد عمل پر ششدر راہ جانا اور تیسرا معاشرے کی تماش بین خصلت ۔

ہوا یہ کہ آلٹو سے اترنے والے نوجوان نے مسکراتے چہرے کے ساتھ عمل پر آمادہ شخص کو گلے لگایا ۔ اور اپنے اس عمل کو تین بار دہرایا اور ساتھ اس کی زبان پر درد جاری تھا "آ پ ناراض نہ ہوہیے گا" ، "آپ ناراض نہ ہوہیے گا" ۔ ۔ عمل کو غیر متوقع رد عمل نے ششدر کر کے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ۔ آلٹو سوار نے "غلطی کس کی" کو موضوع ہی نہیں بنایا تھا ۔ اتنی دیر میں ہماری طرف کی بتی سبز ہو چکی تھی اور ٹریفک چل پڑی ۔ میں نے نکلتے ہوئے آلٹو والے کو انگوٹھا کھڑا کے شاباس دی ۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔ فتح مند مسکراہٹ ۔ اسی دوراں بائیں جانب سے آوازآئی ۔ شٹ ۔ میرے ذہن نے معاشرے کے سوشل میڈیا کے رسیا تماش بین طبقے کی نماہندہ ۔ ۔ ۔ مگر میں نے اپنی اس سوچ کو خود ہی بے دردی سے کچل دیا اور گھڑی پر نظر دوڑائی تو چھ سیکنڈ مین 3 کردار بے نقاب ہو چکے تھے۔


 

دلپذیر
About the Author: دلپذیر Read More Articles by دلپذیر: 135 Articles with 169334 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.