سانحہ مری اپنے پیچھے بہت سے سوال اور کہی ان کہی
کہانیاں چھوڑ گیایہ لالچ میں ڈوبے،خوف ِ خداسے عاری اور شتربے مہار ان
انسانوں کی کہانیاں ہیں جو نوچنے پرآئیں توبے بسی سے مرتے ہوئے لوگوں بے
گورو کفن لاشوں سے کفن بھی نوچ ڈالیں بلاشبہ یہ انسانی کا ایک خوفناک المیہ
اور بے حسی کے جیتے جاگتے ثبوت ہیں ۔کیا پیسوں کیلئے کوئی اتناظالم بھی
ہوسکتاہے سوچنابھی محال ہے کہ سیاح برفانی طوفان میں زند ہ دفن ہورہے تھے
اور تاجروں سمیت مقامی نوجوانوں کومال ہتھیانے کی پڑی تھی۔ حکومت کا کہنا
تھا اس سال ایک لاکھ سے زیادہ گاڑوں میں سیاح مری میں آئے ہیں جس کے باعث
پورے علاقہ میں مختلف گاڑیوں کا اژدھام، ہوٹل،سڑکوں،دکانوں پررش ہی رش
تاجروں نے ہر چیزکی قیمت بڑھادی وہ زیادہ سے زیادہ منافع کماناچاہتے تھے
ایک گاہک جاتاتو کئی اور آجاتے شدید سردی کے باوجودمری میں خاصی چہل پہل
تھی رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس خواتین اور بچے عجب بہاردکھارہے تھے سنو فال
دیکھنے والے قدرتی حسین مناظر پرمبہوت ہوکررہ گئے فلک پوش پہاڑ،
سڑکیں،درخت،ہوٹلوں کی چھتیں اور دکانیں برف سے ڈھک گئیں ماحول پر سردی غالب
آنے لگی یوں لگ رہاتھا جیسے ہرچیزنے چاندنی اوڑھ لی ہو ۔ ہوٹلوں سے کھاپی
کرسیاح سیرکو نکل کھڑے ہوئے ان کی منزل گلیات،مری، نتھیا گلی،ایوبیہ،گھوڑا
گلی،ھیکا گلی سے لوئر ٹوپہ ایکسپریس ہائی وے، جھیکا گلی یاپھر لارنس کالج
تھی لوگ اپنے دوستوں،عزیزو اقارب اور بیوی بچوں کے ساتھ انجوائے کررہے تھے
کہ سنوفال کی بجائے آسمان سے برف گرنے لگی لگتا تھا جیسے برف کاایک خوفناک
طوفان آگیاہو ملک کے طول و عرض سے آئے ہوئے لاکھوں سیاح کے دل خوف سے
لرزاٹھے برف کا طوفان بڑھتاہی جارہاتھا دلوں میں اندیشے،وسوسے،خوف و ہراس
کے سائے منڈلانے لگے برفباری سے سڑکیں بندہونے لگیں،بوڑھے درخت زمین بوس
ہوگئے گاڑیوں پر برف کی تہہ جمنے لگی اب لوگ سردی سے کپکپانے لگے گاڑیاں
برف میں پھنس کررہ گئیں کچھ سیاحوں ڈورکر قریبی ہوٹلوں کارخ کیا ہوٹل
انتظامیہ نے اچانک قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کردیا فیملیز سے ایک رات کے
کمرے کا کرایہ50000طلب کیا ایک سیاح نے ان کی منتیں،ترلے بھی کئے کہ سردی
سے ان کی بچوں کی حالت خراب ہے لیکن کسی کو ذرا ترس نہیں آیا ایک ابلا ہوا
انڈہ500کا فروخت ہونے لگا مصیبت کے ماروں سے مقامی لوگ برف میں پھنسی چھوٹی
گاڑی کا دھکہ لگانے کا3000 اور بڑی گاڑی کا5000وصول کرنے لگے مری میں
برفانی طوفان کے دوران انسانیت روتی، تڑپتی اور سسکتی رہی، لیکن اسی دوران
منافع خوروں کی چاندی ہوگئی اور انہوں نے آنکھیں بند کرکے صرف منافع کمایا
کسی کااحساس نہیں کیا۔ایک کیفے کے نزدیک انتہائی پھسلن ہونے کے باوجود کوئی
حکومتی مشینری موجود نہیں تھی، اور اسی پھسلن والے مقام پر مری سے نکلنے
والوں کا مرکزی خارجی راستہ تھا، سیاحوں کے مری سے خارجی راستے پر برف
ہٹانے کے لیے ہائی وے کی مشینری موجود نہیں تھی۔ مری میں ایسا کوئی پارکنگ
پلازا موجود نہیں جہاں گاڑیاں پارک کی جاسکتیں، صبح 8 بجے برف کا طوفان
تھمنے کے بعد انتظامیہ حرکت میں آئی۔یہ بھی کہاجارہاہے کہ زیادہ ترسیاح
سردی کی بجائے کاربن مونوآکسائیڈگیس کے باعث جاں بحق ہوگئے یہ گیس
آخرکیاہے؟ اس بارے سب کو جاننے کی اشدضرورت ہے تاکہ کسی بھی ناخوشگوارسانحہ
سے بچاجاسکے مری میں شدید برفباری کے دوران اموات کی وجہ شدید ٹھنڈک تھی
یامونو آکسائیڈ گیس، یہ تو طبی معائنے سے پتہ چل سکتا ہے۔مری میں بھی یہی
ہوا ہیٹر کے ایگزاست پائپ برف کی وجہ سے بندہوگئے جس سے زہریلی گیس گاڑیوں
کے اندرجمع ہوگئی اور درجنوں سیاح موت کی نیندسوگئے دنیا بھر میں گاڑیوں
میں کاربن مونو آکسائیڈ سے دم گھٹ کر مرنے کے متعدد واقعات سامنے آتے رہے
ہیں۔ مونو آکسائیڈ گیس کیا ہے اوریہ کیسے پیداہوتی ہے، کیا احتیاط کرنے کی
ضرورت ہے۔ کاربن مونوآکسائیڈ ایک بے رنگ، بے بو، بے ذائقہ آتش گیر گیس ہے
جو ہوا سے قدرے ہلکی ہے ہر جلنے کے عمل کے دوران کاربن مونو آکسائیڈ
کااخراج عام ہے، بند ماحول میں کاربن مونو آکسائیڈ کا ارتکاز مہلک سطح تک
بڑھ جاتاہے، یہ گیس خاموش قاتل ہے۔اور ڈیڑھ منٹ میں گاڑی میں سرایت کرے
تمام افرادکو بے ہوش کرسکتی ہے چاہے اس کی تھوڑی ہی مقدارہی سہی سانس کے
ذریعے اندر لینے سے جسم میں آکسیجن کی گردش رک جاتی ہے، صحت کو سنگین خطرات
لاحق ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ منٹوں میں موت واقع ہوجاتی ہے، جب کاربن
مونوآکسائیڈ میں سانس لیتے ہیں تو یہ بنیادی طور پر ہیمو گلوبن کے ساتھ مل
کاربوکسی ہیمو گلوبن بناتا ہے یہ خون کوآکسیجن لے جانے سے روکتی ہے اس سے
خلیوں میں آکسیجن کم ہو جاتی ہے، جسے ہائپو کسیا ہوجاتی ہے۔ کاربن مونو
آکسائیڈ گھر یا گیراج میں واقعی ہر اس شے سے پیدا ہوتی ہے جو ایندھن سے
چلتے ہیں۔ ان میں ناقص کھانا پکانے کے آلات، تمباکو کا دھواں، کار ایگزاسٹ
یا بیکار گاڑیاں، ناقص واٹر ہیٹر، تیل، لکڑی، گیس یا کوئلے کے چولہے کی
خرابی، ناقص گیس واشر ڈرائر، ہاٹ ٹب ہیٹر،آگ ہیں۔ گھروں میں غیر ہوادار
ہیٹر سے اخراج کا زیادہ امکان ہے، ایک غیر ہوا دار ہیٹر گرم کرنے کیلئے
ایندھن اور اندرکی ہوا کااستعمال کرتا ہے جس سے اندرکی آکسیجن کم ہوجاتی
ہے۔ ٹرک،بس،کار یا دیگرگاڑیوں میں کاربن مونوآکسائیڈ اگزاسٹ کے نظام میں
اخراج کی وجہ سے پیدا ہوسکتی ہے یا پھرکسی وجہ سے اخراج کانظام بند ہو جائے
تو گاڑی کے اندر آنے لگتی ہے۔ اگر کسی فرد کو گھر میں طویل عرصہ تک قیام کے
بعد سر درد،چکر آنا،متلی یا الجھن جیسی علامات ہوں تو واضح ہے کہ اس نے
کاربن مونوآکسائیڈ کی بڑی مقدارمیں سانس لیا ہوسکتا ہے۔ اس کی سانس سے
خارجی علامات بھی پیدا نہیں ہوتی جیسے کھانسی میں جلن،تواس گیس کے زہر کا
پتہ لگانا بہت مشکل ہے۔ اس کی علامات زکام سے ملتی جلتی ہیں، بشمول سر
درد،متلی، تھکاوٹ،چکرآنا، غنودگی،کمزوری، بے ہو ش ہو جانا ہے۔اس کے خلاف
بہترین تحفظ اس کے آلارم اور ڈیٹیکٹرہیں جو کاربن مونو آکسائیڈ کی بلند
ہونے کی خطرناک سطح بننے سے پہلے بتا دیتے ہیں۔ یہ آلات کسی بھی جگہ رکھے
جاسکتے ہیں جہا ں اس کی سطح کے بلند ہونے کاخطرہو۔ کاروں،ٹرکوں، یا دیگر
گاڑیوں کو کسی بندجگہ جیسے گیراج میں نہ چھوڑیں، چاہے بیرونی دروازہ کھلا
ہی کیوں نہ ہو،گاڑیوں میں سوتے وقت پورٹ ایبل ہیٹر کا استعمال ہرگزہرگز نہ
کریں کیونکہ بند جگہوں میں مونو آکسائیڈ کے زہر کاخطرہ بڑھ جاتا ہے اسی
احتیاط کے پیش ِ نظر گیس کے جنریٹر گھر میں محفوظ فاصلے پر کھلی جگہ
پررکھنا ضروری ہے گیراج یا بند کار میں آٹو موبائل کے دھوئیں انتہائی
خطرناک ہیں،اگر ایسا معلوم ہوکہ کچھ غلط ہے تو فوری ونڈو کھولیں یا عمارت
یا گاڑی کو چھوڑ دیں۔علاقے سے باہرنکلیں اور تازہ ہوالیں۔کاربن مونو
آکسائیڈ کے اخراج کے واقعات زیادہ تر سردیوں میں ہوتے ہیں۔اگرکسی وجہ سے
گاڑی سے اترکرکھلی جگہ جانا محال ہوتو وقتاً فوقتاً شیشے کھولتے رہیں یا
پھر ایک آدھ تھوڑا بہت شیشہ ایگزاست کے لئے کھلاچھوڑ دیں تاکہ تازہ ہوا کی
آمدورفت جاری رہے زندہ رہنے کیلئے ایساکرنا ناگزیرہے ذراسی غفلت جان
لیواہوسکتی ہے۔
|