’حق مہر کے 40 لاکھ لو اور میرے بیٹے کو چھوڑ دو‘ بڑی عمر کی خاتون کو اپنے سے کم عمر مرد سے شادی کرنے پر کتنے طعنے سہنے پڑتے ہیں؟

image
 
’واہ مہرالنسا واہ۔۔۔۔ خاندان کی عزت نیلام ہو گئی اور تم کس قدر سکون کے ساتھ اپنے بیٹے کی عمر کے لڑکے کے ساتھ شادی کر کے کھڑی ہو۔‘
 
پاکستانی معاشرے میں کسی بھی لڑکی کی اپنے سے کہیں بڑی عمر کے مرد کے ساتھ شادی کو عموماً نارمل سمجھا جاتا ہے اور کسی بھی ایسی خاتون کو انتہائی متجسس نظروں سے دیکھا جاتا ہے جو اپنے شوہر کی وفات کے بعد اچھا زیور پہنے، رنگ برنگے کپڑے زیب تن کرے اور وقتی غم کو بھلا کر بھرپور زندگی کی جانب لوٹ آئے۔
 
اور اصل مشکل کا سامنا اس وقت ہوتا ہے جب بیوہ عورت یہ فیصلہ کر کے اسے دوبارہ شادی کرنی ہے اور وہ بھی اپنے سے کم عمر مرد کے ساتھ۔ اگر معاملہ کچھ اس طرح سے ہو تو ہمارے معاشرے میں یہ ’آ بیل مجھے مار‘ کے مصداق ہوتا ہے۔
 
نجی انٹرٹینمنٹ چینل ہم ٹی وی کا ایک ڈرامہ ’دوبارہ‘ اسی مرکزی خیال کے تحت ترتیب دیا گیا ہے۔ ’مہرالنسا‘ کا کردار حدیقہ کیانی نبھا رہی ہیں جن کی پہلی شادی کم عمری میں ایک بڑی عمر کے شخص (نعمان اعجاز) سے کر دی گئی تھی۔
 
اس شادی کے بعد انھیں اپنا بچپن اور جوانی دونوں کا گلا گھونٹنا پڑا اور خود کو اس رنگ میں ڈھالنے پر مجبور ہوئیں جو اُن سے بیس سال بڑے شوہر چاہتے تھے۔ شوہر کی وفات کے بعد مہرالنسا اپنی زندگی دوبارہ جینے کا فیصلہ کرتی ہیں، مگر ایک بیوہ کے روایتی اور معاشرے میں رائج طور طریقے اختیار نہ کرنے پر وہ ذلت آمیز رویے کا نشانہ بنتی ہیں۔
 
مگر گذشتہ قسط میں انھوں نے بالآخر اپنے سے کم عمر نوجوان سے دوسری شادی کر لی۔ اور اب تو جیسے نفرت کو خود ہی دعوت دے دی۔ اب کی بار طعنے دینے والوں میں خود ان کے بچے بھی شامل ہیں۔
 
image
 
 
یہاں تک کہ اُن کی نند کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے بیٹے کی عمر کے لڑکے سے شادی کر کے خاندان کی عزت نیلام کر دی ہے۔
 
اس ڈرامے میں مہرالنسا کا ردعمل کیا ہو گا اور اُن کی زندگی کیا رُخ اختیار کرتی ہے، اس کا جواب آئندہ اقساط میں ہی ملے گا، لیکن نظر دوڑائیں تو ایسی کئی کہانیاں ہمارے اردگرد بھی موجود ہیں۔
 
بی بی سی نے ان جیتے جاگتے کرداروں میں سے ایک سے بات کی جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتیں۔
 
سعدیہ اب چالیس کے پیٹے میں ہیں۔ وہ چار بچوں کی ماں ہیں اور پہلی شادی کے بعد انھیں طلاق ہو گئی تھی۔ مگر سعدیہ نے دوسری شادی کا فیصلہ کیا اور اُن کے شوہر کی عمر اُن کی عمر سے کچھ کم ہے۔
 
وہ بتاتی ہیں کہ شادی کے معاملے میں اُن کی زندگی کی کئی برس کانٹوں کی سیج ثابت ہوئے۔
 
’میں سولہ، سترہ سال کی تھی جب گھر کے بڑوں نے میری شادی طے کر دی۔ شوہر بھی بس ایک دو سال بڑے تھے۔ میں تو گھریلو لڑکی تھی، سسرال میں ایڈجسٹ کر گئی مگر میرا شوہر باہر جاتا، وہاں کا ماحول دیکھتا تو اس کی دلچسپی دیگر خواتین میں پیدا ہونے لگ گئی۔ پھر بہت مسئلے ہوئے۔ میں نے آٹھ سال اس شخص کے ساتھ ایک انتہائی تکلیف دہ رشتے میں گزارے اور پھر طلاق ہو گئی۔‘
 
سعدیہ کے بقول یہ تعلق ختم ہونے کے بعد وہ تین سال تک خاموش رہیں۔
 
’بہت کچھ سننے کو ملا۔ لوگ کہتے ہائے اس کو طلاق ہو گئی، اسی کی غلطی ہو گی، اسی نے کچھ کیا ہو گا۔ تب میں نے چپ رہنا سیکھ لیا تھا۔ میں جاب کرتی تھی اور خاموشی سے زندگی گزار رہی تھی۔‘
 
image
 
تین سال بعد ان کے موجودہ شوہر نے انھیں شادی کی پیشکش کی اور وہ مان گئیں۔ مگر ان کے شوہر کے خاندان کو اس شادی پر شدید اعتراض تھا۔
 
’ہمیں کورٹ میں نکاح کرنا پڑا کیونکہ میرے شوہر کے والدین اور بہن بھائی اس رشتے سے خوش نہیں تھے۔ ان کے دو اعتراض تھے۔ ایک تو یہ کہ میں طلاق یافتہ تھی، دوسرا یہ کہ میری عمر میرے شوہر سے تین سال زیادہ تھی۔‘
 
وہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر پر مسلسل یہی دباؤ ڈالا گیا کہ وہ بھی مجھے طلاق دے دیں۔ ’میرا حق مہر چالیس لاکھ روپے رکھا گیا۔ میری ساس نے کہا کہ اس کو طلاق دے دو، ہم چالیس لاکھ دے دیں گے۔ میرے شوہر نے انھیں بتایا کہ میں نے ایک طلاق یافتہ عورت کو سہارا دیا ہے، میں اس کو دوباہ بے سہارا نہیں کروں گا۔‘
 
سعدیہ بتاتی ہیں کہ شادی کے بعد انھیں بہت کچھ سننا پڑا۔ باتیں اتنی بڑھیں کہ انھوں نے خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے کا سوچ لیا، حالانکہ ان کے شوہر ان کے ساتھ تھے۔
 
’میری نند نے مجھے فون کیا اور بہت طعنے دیے۔ اس نے کہا کہ میں ایک بُرے قماش کی عورت ہوں۔ اسی لیے مجھے پہلے شوہر سے طلاق ہوئی اور اب اُن کے بھائی کو پھنسایا ہے۔ میرے کردار پر انگلیاں اٹھائی گئیں، میرے خاندان کیساتھ غلط باتیں منسوب کی گئیں۔‘
 
’یہ سب اس قدر شدت سے ہوتا تھا کہ مجھے اپنا آپ گنہگار لگتا۔ میں نے تب فیصلہ کیا کہ مجھے اپنی زندگی کا ہی خاتمہ کر لینا چاہیے۔ جو آج میں سمجھتی ہوں کہ ایک بیوقوفانہ سوچ تھی۔‘
 
وہ کہتی ہیں کہ ان کی شادی کو پندرہ سال ہو چکے ہیں اور وہ بہت خوشحال زندگی گزار رہی ہیں۔ ان کے بچے اور شوہر ان کے ساتھ ہیں مگر بڑی عمر کے طعنے اب بھی سننے کو ملتے ہیں مگر سعدیہ نے بھی اب انھیں سہنا سیکھ لیا ہے۔
 
’پندرہ سال ہو گئے مگر اب بھی کوئی نہ کوئی یہ ضرور یاد کراتا ہے کہ ہائے اللہ خود سے چھوٹے مرد سے شادی کر لی۔ مگر اب میں ہنستی ہوں اور اس طرح کی کمنٹس انجوائے کرتی ہوں۔‘
 
سعدیہ کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا مگر کئی ایسے خاندان بھی ہیں جہاں بیوی کی عمر زیادہ ہونا بڑا مسئلہ نہیں بنا۔
 
میں نے آج صبح ایک دوست کو میسج بھیجا جو اپنے شوہر سے عمر میں کچھ بڑی ہیں۔ میں نے سوچا ان کا سسرال رجعت پسند سوچ رکھتا ہے تو یقیناً انھیں مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ مگر میری دوست کا جواب غیر متوقع تھا۔
 
وہ کہتی ہیں 'میرے سسرال کا رویہ بڑا حیران کن اور یوں کہیے کہ مضحکہ خیز تھا۔ انھوں نے کسی بھی مرحلے پر میری عمر سے متعلق کوئی بات نہیں کی۔ یہاں تک کہ شادی کے بعد میں نے خود ہی اس معاملے پر بات چھیڑی۔ لیکن تب بھی مجھے کوئی رسپانس نہیں ملا۔‘
 
وہ کہتی ہیں کہ انھیں تو توقع کے برعکس ردعمل ملا جو مجھے اچھا لگا اور میں خاصی متاثر ہوئی۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: